’سندھ سرنڈر پالیسی‘ کے تحت 72 ڈاکوؤں نے ہتھیار ڈال دیے، ’کچے‘ میں امن قائم ہو سکے گا؟

image
دریائے سندھ کے کنارے ’کچے کا علاقہ‘صدیوں سے اپنی زرخیزی اور پیچیدہ راستوں کے لیے مشہور ہے۔ یہ علاقہ گزشتہ کئی دہائیوں سے ڈاکو کلچر، اغوا برائے تاوان اور قانون شکن گروہوں کا گڑھ بنا ہوا ہے۔ شکارپور، کشمور، اور لاڑکانہ کے درمیان پھیلا یہ علاقہ طویل عرصے سے پولیس کے لیے چیلنج بنا ہوا ہے۔

پہلی مرتبہ اس علاقے سے منسوب روایتی کہانی نے ایک مختلف موڑ لیا ہے اور درجنوں ڈاکوؤں نے اپنی مرضی سے ہتھیار ڈال کر امن کی جانب قدم بڑھایا ہے۔

بدھ کو ’سندھ سرنڈر پالیسی 2025‘ کے تحت وزیر داخلہ سندھ ضیاءالحسن لنجار کی قیادت میں منعقدہ تقریب کو ایک سنگ میل قرار دیا جارہا ہے۔ شکارپور میں ہونے والی اس تقریب میں صوبائی وزرا، پیپلز پارٹی کے رہنما، اعلیٰ پولیس افسران، رینجرز اور فوجی نمائندے شریک ہوئے۔ اس تقریب میں ایک ایک کر کے ڈاکوؤں نے اپنی بندوقیں، جی تھری رائفلز، ایس ایم جیز اور راکٹ لانچر زمین پر رکھے تو منظر دیکھنے والوں کے لیے غیر معمولی تھا۔

پولیس حکام کے مطابق 72 خطرناک ڈاکوؤں نے باضابطہ طور پر ہتھیار ڈالے جن کے خلاف مجموعی طور پر درجنوں مقدمات درج تھے۔ ان میں وہ نام بھی شامل تھے جو برسوں سے پولیس کی ’ریڈ بک‘ میں سرِفہرست تھے۔ ہتھیار ڈالنے والوں میں نثار سبزوئی، لادو تیغانی، سونارو تیغانی، سوکھیو تیغانی، جمعو تیغانی، گلزار بھورو، ملن عرف واجو تیغانی اور نور دین تیغانی شامل ہیں، یہ وہ کردار ہیں جن کے نام سن کر کبھی دیہات کے لوگ اپنے دروازے بند کر لیتے تھے۔

ان ڈاکوؤں کے سروں پر کروڑوں روپے کے انعامات مقرر تھے۔ صرف نثار سبزوئی کے خلاف 82 مقدمات درج تھے جبکہ اس کے سر کی قیمت 30 لاکھ روپے مقرر کی گئی تھی۔ اسی طرح لادو تیغانی پر 93 ایف آئی آرز تھیں، سونارو اور سوکھیو تیغانی کے سروں کی قیمت 60 لاکھ روپے رکھی گئی، اور جمعو تیغانی پر 20 لاکھ روپے کا انعام تھا۔ ان تمام افراد نے پولیس اور رینجرز کے سامنے اپنے ہتھیار زمین پر رکھے۔

تقریب میں جمع کیے گئے ہتھیاروں کی فہرست بھی غیرمعمولی تھی۔ پولیس کے مطابق 200 سے زائد چھوٹے بڑے ہتھیار جمع کروائے گئے جن میں 62 جی تھری رائفلز، 97 ایس ایم جیز، 48 ڈبل بیرل بندوقیں، 2 آر پی جی راکٹ لانچر، اور 12.7 اینٹی ایئرکرافٹ گن شامل تھیں۔ بھاری ہتھیاروں میں ’اینٹی ٹینک آر آر-75‘ جیسے ہتھیار بھی دیکھے گئے، جو ظاہر کرتے ہیں کہ ان گروہوں کے پاس برسوں سے جدید ترین اسلحہ موجود تھا۔

وزیر داخلہ ضیاءالحسن لنجار نے تقریب سے خطاب میں کہا کہ ’یہ سندھ پولیس، رینجرز اور سیکیورٹی اداروں کی قربانیوں کا نتیجہ ہے کہ آج امن کی یہ فضا ممکن ہوئی۔‘ان کے مطابق، سرنڈر پالیسی کے تحت ہتھیار ڈالنے والوں کو معافی نہیں بلکہ قانونی عمل کا سامنا کرنا ہوگا، البتہ جو لوگ رضاکارانہ طور پر واپس آ رہے ہیں ان کے لیے ’سماجی بحالی‘ کے راستے کھولے جائیں گے۔

یہ پالیسی دراصل ایک ’پُرامن واپسی کا دروازہ‘ ہے، جس کے تحت اگر کوئی گروہ تشدد چھوڑ کر معاشرے میں واپس آنا چاہے تو اسے قانونی تحفظ اور سماجی معاونت دی جائے گی۔ پالیسی میں بائیومیٹرک رجسٹریشن، میڈیکل چیک اپ، اور متاثرہ خاندانوں کے لیے فلاحی امداد کے اقدامات شامل کیے گئے ہیں۔

کچے کے ڈاکو اغوا برائے تاوان کی متعدد وارداتوں میں مطلوب ہیں۔ فائل فوٹو

اس کامیابی کے پس منظر میں ایک اور داستان بھی ہے۔ برسوں پر محیط جدوجہد کے دوران لاڑکانہ رینج میں گزشتہ برس پولیس نے 105 ڈاکوؤں کو مقابلوں میں ہلاک اور 334 کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا، جن میں 177 زخمی ڈاکو شامل تھے۔ اسی عرصے میں پولیس نے 117 مغویوں کو بازیاب کروایا اور239 شہریوں کو ہنی ٹریپ جیسے جرائم سے بچایا۔ حکام کے مطابق صرف پچھلے  12ماہ میں 5077 اشتہاری ملزمان اور 2023 روپوش مجرموں کو گرفتار کیا گیا۔

اس دوران خود پولیس نے بھی بھاری قیمت چکائی۔ 8 پولیس افسران و اہلکار جان سے گئے اور 13 زخمی بھی ہوئے۔ ان میں سے بیشتر شکارپور، گڑھی تیغو اور کشمور کے کچے علاقوں میں ہونے والے طویل آپریشنز کے دوران مارے گئے۔ آپریشن گڑھی تیغو خاص طور پر تاریخی رہا، پانچ ماہ جاری رہنے والے اس آپریشن کے دوران 107 مغویوں کو بازیاب کروایا گیا۔

پولیس کے مطابق سرنڈر پالیسی دراصل انہی آپریشنز کی کامیابی کا منطقی تسلسل ہے۔ اس پالیسی نے ڈاکوؤں کے لیے ایک نیا راستہ کھولا  وہ راستہ جس پر وہ بغیر خون خرابے کے قانون کے سامنے پیش ہو سکتے ہیں۔ لیکن کچھ حلقے اس پر تنقید بھی کر رہے ہیں۔

انسانی حقوق کے کارکنوں اور ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ ’سرنڈر پالیسی‘ کو شفاف قانونی فریم ورک کے ساتھ نافذ کیا جانا چاہیے۔ ان کے مطابق حکومت کو واضح کرنا ہوگا کہ سرنڈر کا مطلب ’معافی‘ نہیں بلکہ عدالتی عمل ہے۔ اگر یہ تاثر پھیل گیا کہ ڈاکو صرف ہتھیار ڈال کر معاف ہو جائیں گے، تو یہ انصاف کے اصولوں اور متاثرین کے حقوق کے منافی ہوگا۔

اسی تناظر میں حالیہ دنوں میں سرنڈر اشتہار یا ڈیجیٹل مہم بھی زیرِبحث رہی۔ سوشل میڈیا پر شائع ہونے والے ایک ’امن مشن‘ کے اشتہار نے یہ تاثر دیا کہ حکومت شاید ڈاکوؤں کو رعایتیں یا مالی مراعات دے رہی ہے۔ کچھ حلقوں نے اسے ’ریاست کی کمزوری‘ سے تعبیر کیا۔ حکومت نے وضاحت کی کہ اشتہار کا مقصد صرف اطلاع دینا اور امن کی کوششوں کو اجاگر کرنا تھا، نہ کہ کسی کو انعام دینے کا وعدہ۔

کچے کا علاقہ بالائی سندھ اور زیریں پنجاب کے درمیان پھیلا ہوا ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

سندھ میں کچے کے علاقوں میں ریاستی اہلکاروں اور جرائم پیشہ گروہوں کے درمیان تعلق کے الزامات لگتے رہے ہیں۔ کئی دہائیوں سے مقامی برادریوں، سرداری نظام اور زمینوں کے جھگڑوں نے وہاں ایک ایسا سماجی ڈھانچہ بنا دیا ہے جہاں قانون کی عملداری مشکل ہے۔ سرنڈر پالیسی اگر حقیقی طور پر کامیاب ہونی ہے تو اسے صرف پولیس کی کارروائی نہیں بلکہ سماجی اصلاح کا منصوبہ بنانا ہوگا۔

پولیس حکام کا کہنا ہے کہ سرنڈر کرنے والے ڈاکوؤں کو باضابطہ اندراج کے بعد ’ری ہیبلیٹیشن‘ پروگرامز میں شامل کیا جائے گا تاکہ وہ معاشرے میں دوبارہ قدم جما سکیں۔ تاہم زمینی حقیقت یہ ہے کہ سندھ کے کچے علاقوں میں روزگار، تعلیم، صحت اور انصاف کے نظام کی کمی ہے۔ ایسے میں یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ کیا یہ لوگ واقعی پُرامن زندگی گزار سکیں گے یا نہیں۔

پچھلے ایک سال کے دوران پولیس کے بڑے آپریشنز کوٹ شاہو، جگن، کالہورو، بگارجی اور بچل بھیو نے کچے میں ریاستی عملداری کو بہتر ضرور کیا ہے، مگر مکمل امن کے لیے اب بھی طویل سفر باقی ہے۔ ’آپریشن بچل بھیو‘ میں بدنام ڈاکو شیرو مہر کی ہلاکت نے سکیورٹی فورسز کے حوصلے بلند کیے، مگر اسی دوران کئی چھوٹے گروہ اب بھی روپوش ہیں۔

 


News Source   News Source Text

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US