اسلام آباد پولیس کے افسر کی خودکشی، ڈپریشن انسان کو کس حد تک لے جا سکتا ہے؟

image
تصور کریں کہ ایک ایسا شخص جو ہر روز لوگوں کی حفاظت کرتا ہے، اچانک اپنی ہی زندگی کا خاتمہ کر لے۔

 اسلام آباد کے سینیئر پولیس افسر ایس پی عادل نے جمعرات کو مبینہ طور پر خود کو گولی مار کر خودکشی کی۔

ایسی اطلاعات بھی  ہیں کہ ایک روز قبل وہ ڈاکٹر کے پاس گئے تھے جنہوں نے ان کے لیے ڈپریشن کا علاج تجویز کیا تھا، تاہم اگلے روز ہی انہوں نے  انتہائی قدم اٹھا لیا۔

اس خبر پر جہاں لوگ افسوس کا اظہار کر رہے ہیں وہیں ذہنی صحت بھی ایک بار پھر موضوع بحث ہے۔

صحافی نجم ولی خان نے ایکس پوسٹ میں لکھا کہ ’آپ پولیس میں ایس پی ہوں، اسلام آباد میں تعینات ہوں اور آپ خودکشی کر لیں، آپ سے بڑا بزدل اور احمق کون ہے؟‘

ان کے ان الفاظ پر مختلف شعبہ ہائے زندگی کے افراد نے تنقیدی رد عمل دیا ہے۔

 کئی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ تبصرہ ذہنی دباؤ کو نظر انداز کرتا ہے جیسے خودکشی کو محض ’ضعف‘ یا ’بے وقوفی‘ کہہ دیا جائے، لیکن کیا واقعی ذہنی دباؤ جیسی چیز انسانی بس میں ہوتی ہے؟ کیا یہ عام بیماری کی طرح آتی ہے اور کیا اسے روکا جا سکتا ہے؟ آئیے، اس موضوع پر دنیا کے ماہرین اور پاکستان کے ڈاکٹروں کی بات سنتے ہیں۔

’ذہنی دباؤ بھی جسمانی بیماری کی طرح ہوتا ہے‘جیسے بخار یا سر درد ہو تو ہم دوا لیتے ہیں بستر پر لیٹ جاتے ہیں بالکل ایسے ہی ذہنی دباؤ بھی علاج کا متقاضی ہوتا ہے۔

دنیا کے ماہرین کہتے ہیں کہ ذہنی صحت کی خرابی جیسے ڈپریشن یا خودکشی کے خیالات دماغ کی ایک حقیقت ہے۔ یہ کوئی ’خواہش‘ یا ’کمزوری‘ نہیں۔

امریکی ہارورڈ میڈیکل سکول کی ماہر نفسیات ڈاکٹر کیٹ ٹروٹ اپنی کتاب ’شیڈو برین‘ میں لکھتی ہیں کہ ’خودکشی کے خیالات دماغ کے درد کے مرکز سے نکلتے ہیں جہاں درد اتنا شدید ہو جاتا ہے کہ زندگی ایک بوجھ لگنے لگتی ہے۔ یہ جسم کی تکلیف کی طرح ہے بس نظر نہیں آتی۔‘

ماہرین کہتے ہیں کہ ڈپریشن بھی جسمانی بیماری کی طرح ہوتا ہے اور علاج ممکن ہے (فوٹو: لیٹس)

 امریکہ کے مشہور ترین مایو کلینک کا اس موضوع پر کہنا کچھ یوں ہے کہ ’خودکشی کے  خیالات اکثر ڈپریشن تشویش یا دباؤ کی وجہ سے آتے ہیں اور انہیں کنٹرول کرنا اتنا آسان نہیں جتنا لگتا ہے۔ یعنی جیسے شوگر یا بلڈ پریشر کو روکنے کے لیے لائف سٹائل بدلنا پڑتا ہے ویسے ہی ذہنی دباؤ کو روکنے کے لیے مدد لینا پڑتی ہے۔ یہ انسانی بس میں ہے کہ شروع میں اسے پہچان لے لیکن جب یہ شدید ہو جائے تو اکیلا لڑنا مشکل ہوتا ہے۔‘

پاکستان میں بھی نفسیاتی ڈاکٹرز کچھ ایسے ہی خیالات رکھتے ہیں۔

 لاہور کے انسٹی ٹیوٹ آف کلینیکل سائیکالوجی کی ڈائریکٹر ڈاکٹر ثمینہ شفیق کہتی ہیں کہ ’خودکشی کو جرم سمجھنا غلط ہے یہ ذہنی بیماری کا نتیجہ ہے بالکل ایسےجیسے کینسر ہے۔ پاکستان میں 60 فیصد نوجوانوں میں ذہنی دباؤ بڑھ رہا ہے اور اگر ہم بات نہ کریں تو یہ خاموش قاتل بن جاتا ہے۔‘

ایک اور ماہر ڈاکٹر نعمان مسعود کہتے ہیں کہ ’ایس پی عادل اکبر جیسی شخصیت بھی مدد مانگ رہی تھی لیکن لیکن ہمارے معاشرے میں بیماری کو بھی گناہ کی طرح دیکھا جاتا ہے۔ اس لیے لوگ چاہ کر بھی درست علاج نہیں کروا پاتے۔ ذہنی صحت کو جسم کی صحت کی طرح لینا چاہیے علاج دستیاب ہے اور اسے استعمال کرنے میں شرم کی کوئی بات نہیں۔‘ 

ماہرین کے مطابق مناسب نیند لینے سے بھی ڈپریشن کے خدشات کم ہو جاتے ہٰیں (فوٹو: فری پک)

ذہنی دباو ایک  خاموش قاتل ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال سات لاکھ 20 ہزار لوگ خودکشی  کرتے ہیں یہ 15 سے 29 سال کی عمر کے نوجوانوں میں موت کی تیسری بڑی وجہ ہے۔ پاکستان میں صورت حال اور بھی سنگین ہے۔ اسی بین الاقوامی ادارے کے مطابق  یہاں خودکشی کی شرح ایک لاکھ لوگوں میں سے 9 اعشاریہ آٹھ ہے جو کہ  تقریباً 20 ہزار اموات سالانہ بنتی ہیں۔

2019 میں یہ شرح 7.3 تھی 2022 میں بڑھ کر 9.8 ہو گئی۔ نوجوانوں میں یہ موت کی چوتھی بڑی وجہ بن چکی ہے جہاں 60 فیصد آبادی 30 سال سے کم عمر کی ہے۔

ایک تحقیق کے مطابق  ہنزہ جیسے علاقوں میں 15 سے 24 سال کے 21 فیصد نوجوانوں نے خودکشی کے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ یہ اعداد بتاتے ہیں کہ دباؤ ہر گھر میں پہنچ چکا ہے۔ غربت، کام کا بوجھ یا خاندانی مسائل کی وجہ کچھ بھی ہو سکتی ہے۔

’ورزش یا دوستوں سے ملنا منفی خیالات کے بہاؤ کو روک سکتا ہے۔‘ (فوٹو: فری پک

خود کشی: دماغ میں چل کیا رہا ہوتا ہے؟یہ بات سائنس کی نظر میں دلچسپ ہے ڈاکٹر شاہزیب کہتے ہیں کہ ’تصور کریں دماغ کو ایک کمرے کی طرح جہاں روشنیاں جل رہی ہوں۔ جب دباؤ بڑھتا ہے تو دماغ کے درد کا مرکز (ایملگڈالا) تیز ہو جاتا ہے جیسے طوفان آ جائے اور اندھیرا  سا لگنا شروع ہو جائے۔ فیصلہ کرنے والا حصہ (پری فرنٹل کورٹیکس) سست ہو جاتا ہے تو اچھا برا سوچنا مشکل ہو جاتا ہے اور انسانی کنٹرول کم سے کم ہو جاتا ہے۔‘

 برطانیہ کے نیورو سائنس دان ڈاکٹر ایڈورڈ بلیک اپنی کتاب ’دی برین اینڈ دی مائنڈ‘ میں لکھتے ہیں کہ ’خودکشی کے خیالات میں دماغ کا توازن بگڑ جاتا ہے جیسے بجلی کے طوفان میں لائٹس بند ہو جائیں۔ یہ عارضی ہے لیکن اس وقت انسان کو لگتا ہے کہ ختم ہونے کا واحد راستہ یہی ہے۔‘

 یعنی یہ دماغ کی ایک ’طوفانی حالت‘ ہے جو دواؤں بات چیت یا آرام سے ٹھیک ہو سکتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ورزش یا دوستوں سے ملنا اس طوفان کو روک سکتا ہے کیونکہ یہ دماغ کو نئی روشنی دیتا ہے۔

ذہنی صحت کے ماہرین کہتے ہیں کہ خودکشی کے خیالات اور ذہنی دباؤ کی روک تھام ممکن ہے اور اس میں سب سے  پہلا قدم ہے اس پر بات کرنا۔

ماہرین مشورہ دیتے ہیں کھانا وقت پر اور مناسب مقدار میں لیا جائے تو بھی ڈپریشن کے باعث بننے والے منفی خیالات سے بچا جا سکتا ہے (فوٹو: فری پک)

اگر خیالات آئیں تو فوراً کسی قریبی سے شیئر کریں یہ بوجھ ہلکا کر دیتا ہے۔

دوسرا روزانہ چہل قدمی کریں یا کوئی کھیل کھیلیں کیونکہ ورزش دماغ کے خوشی کے کیمیکلز بڑھاتی ہے۔

تیسرا قدم ہے کہ کسی  پروفیشنل کی مدد لیں۔  پاکستان میں ہیلپ لائنز جیسے ’سہارا‘ (1166) یا ’روشنی‘ دستیاب ہیں۔

 ڈاکٹر شاہزیب کہتے ہیں کہ ’خودکشی ایک فیصلہ ہے جو طوفان میں لیا جاتا ہے اسے روکنے کے لیے پلان بنائیں دوست کا نام، محفوظ جگہ، اور مدد کا نمبر یاد رکھیں۔ اور اس سے بچنے کی طرف چوتھا قدم یہ ہے کہ نیند اور کھانا وقت پر لیں یہ دماغ کی بنیادیں مضبوط کرتے ہیں اور اس معاملے میں مدد مانگنا طاقت ہے نہ کہ کمزوری۔


News Source   News Source Text

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US