جسٹس منصور علی شاہ کا چیف جسٹس کو خط — 27 ویں آئینی ترمیم پر عدلیہ سے مشاورت کا مطالبہ

image

سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ نے چیف جسٹس آف پاکستان کو ایک اہم خط لکھتے ہوئے 27ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے فوری طور پر ایگزیکٹو سے رابطہ کرنے کی درخواست کی ہے۔

خط میں جسٹس منصور علی شاہ نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ آئینی عدالتوں کے ججز سے مشاورت کے بغیر ترمیم نہیں کی جا سکتی۔ خط کے مطابق، جسٹس منصور علی شاہ نے تجویز دی ہے کہ آئینی عدالتوں کے ججز پر مشتمل ایک کنونشن بھی بلایا جا سکتا ہے تاکہ مجوزہ ترامیم پر تفصیلی غور کیا جائے۔

ان کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس نہ صرف عدلیہ کے انتظامی سربراہ ہیں بلکہ آزادیٔ عدلیہ کے محافظ بھی ہیں، اور یہ لمحہ ان سے قیادت دکھانے کا تقاضا کرتا ہے۔

انہوں نے خط میں لکھا کہ حکومت 27ویں آئینی ترمیم کے ذریعے عدالتی نظام کی تشکیلِ نو کرنے جا رہی ہے، جس کے تحت سپریم کورٹ کو اپیلنٹ کورٹ بنایا جا رہا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے متنبہ کیا کہ اس ترمیم سے اختیارات کی تقسیم اور عدلیہ کی خودمختاری متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔

جسٹس شاہ نے اپنے خط میں یہ بھی واضح کیا کہ میثاقِ جمہوریت میں آئینی عدالت کا قیام صرف چھ سال کے لیے تجویز کیا گیا تھا، جو اُس وقت پرویز مشرف کے آمرانہ دور کے خاتمے کے بعد کی ایک عارضی ضرورت تھی۔

انہوں نے سوال اٹھایا کہ "اس وقت ملک میں کون سا آئینی خلا موجود ہے؟" اور "اب ایک نئی آئینی عدالت کے قیام کی کیا ضرورت ہے؟"

مزید برآں، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ عدلیہ سے مؤثر مشاورت نہیں کی گئی، جب کہ دنیا کے بڑے جمہوری ممالک جیسے امریکا، برطانیہ، جاپان اور آسٹریلیا میں صرف ایک ہی اپیکس کورٹ ہوتی ہے۔ ان کے مطابق، مضبوط جمہوری نظاموں میں الگ آئینی عدالت کی ضرورت نہیں ہوتی۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ پاکستان میں زیرِ التوا مقدمات کا 82 فیصد حصہ ضلع کچہریوں میں ہے، لہٰذا مقدمات کے التوا کو آئینی عدالت کے قیام کا جواز نہیں بنایا جا سکتا۔

خط میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ اگر اصلاحات مقصود ہیں تو ان کا آغاز ابتدائی عدلیہ کی سطح سے ہونا چاہیے، نہ کہ نئے عدالتی ڈھانچے کے قیام سے۔

ذرائع کے مطابق، چیف جسٹس کو موصول ہونے والے اس خط نے عدلیہ اور حکومت کے درمیان جاری آئینی بحث کو ایک نیا رخ دے دیا ہے، اور امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ آئندہ چند روز میں عدلیہ کا باضابطہ ردِعمل سامنے آ سکتا ہے۔


Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US