’خواتین اور بچوں کو مارنے کے الگ الگ ریٹ‘: بوسنیائی جنگ میں ’سنائپر سیاحت‘ اور ’انسانی شکار‘ کے انکشافات نے یورپ کو ہلا دیا

واضح رہے کہ ’انسانی شکاریوں‘ کے بارے میں اس نوعیت کے الزامات گذشتہ برسوں میں متعدد بار سامنے آتے رہے ہیں۔ لیکن گوازینی کے جمع کیے گئے شواہد میں بوسنیا کی فوج کے ایک انٹیلی جنس افسر کی گواہی بھی شامل ہے۔

اٹلی کے شہر میلان میں پبلک پراسیکیوٹر کے دفتر نے ان دعوؤں کی تحقیقات کا آغاز کیا ہے جس میں اطالوی شہریوں پر الزام ہے کہ اُنھوں نے نوے کی دہائی میں جنگ کے دوران ’سنائپر سفاری‘ کے لیے بوسنیا ہرزیگووینا کا سفر کیا۔

اطالوی شہریوں اور بعض دیگر پر یہ الزام ہے کہ اُنھوں نے محاصرہ زدہ شہر سارایوو میں شہریوں پر گولی چلانے کے لیے بڑی رقم ادا کی۔

میلان میں یہ شکایت صحافی اور ناول نگار ایزیو گوازینی نے درج کرائی تھی جن کا دعویٰ ہے کہ ہتھیاروں کے شوقین ’بہت امیر افراد‘ نے سارایوو کی پہاڑیوں میں سربین پوزیشنز سے ’نہتے شہریوں کو مارنے کے لیے‘ بڑی رقم ادا کی۔

بعض رپورٹس میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ مردوں، خواتین اور بچوں کو مارنے کے لیے الگ الگ ریٹ مقرر کیے گئے تھے۔

لگ بھگ چار برس تک سارایوو میں جاری رہنے والے بدترین محاصرے کے دوران 11 ہزار سے زائد افراد مارے گئے تھے۔

جنگ کی وجہ سے یوگوسلاویہ کے حصے بخرے ہو گئے تھے اور یہاں مسلسل گولہ باری اور سنائپر فائر کے متعدد واقعات رپورٹ ہوتے رہے ہیں۔

واضح رہے کہ ’انسانی شکاریوں‘ کے بارے میں اس نوعیت کے الزامات گذشتہ برسوں میں متعدد بار سامنے آتے رہے ہیں۔ لیکن گوازینی کے جمع کیے گئے شواہد میں بوسنیا کی فوج کے ایک انٹیلی جنس افسر کی گواہی بھی شامل ہے۔

اب اٹلی کے انسدادِ دہشت گردی کے پراسیکیوٹر الیسانڈرو گوبس اس معاملے کی تحقیقات کر رہے ہیں جن میں قتل کے الزامات بھی شامل ہیں۔

بوسنیا کے ملٹری انٹیلی جنس کے افسر نے انکشاف کیا کہ اُن کے بوسنین ساتھیوں کو 1993 میں ان مبینہ سفاریز کا علم ہو جنھوں نے یہ معلومات 1994 کے اوائل میں اٹلی کی ملٹری انٹیلی جنس (سسمی) کو دی۔

اُن کے بقول سسمی کی جانب سے ردِعمل تقریباً دو ماہ بعد آیا۔ اُنھیں پتہ چلا کہ یہ ’سفاری سیاح‘ شمالی اٹلی کے سرحدی شہر ٹریسٹی کے ذریعے سارایوو کا سفر کرتے تھے۔

انسا نیوز ایجنسی کے مطابق افسر کو بتایا گیا کہ ’ہم نے انھیں روک دیا ہے اور اب مزید سفاری نہیں ہوں گی اور دو تین مہینوں میں دورے بند ہو گئے۔‘

گوازینی دہشت گردی اور مافیا کے بارے میں لکھتے ہیں۔ وہ تین دہائیوں قبل سنائپرز کے سارایوو کے دوروں کے بارے میں پڑھتے تھے۔ اس وقت ایک اطالوی اخبار اس پر بغیر کسی مستند ثبوت کے رپورٹ کرتا تھا۔

وہسلووینیا کے ہدایت کار میران زپانک کی جانب سے سنہ 2022 میں بنائی گئی فلم ’سارایوو سفاری‘ کے بعد اس جانب متوجہ ہوئے۔ مذکورہ ہدایت کار نے الزام لگایا کہ اس قتل عام میں ملوث افراد کا تعلق اٹلی کے ساتھ ساتھ امریکہ اور روس سے بھی تھا۔

گوازینی نے اس معاملے میں مزید کام کیا اور فروری میں استغاثہ کو اپنے نتائج پیش کیے جس میں کہا گیا ہے کہ یہ 17 صفحات پر مشتمل فائل ہے جس میں سارایوو کے سابق میئر کا بیان بھی شامل ہے۔

بوسنیا میں اس معاملے میں تحقیقات رُک چکی ہیں۔

اٹلی کے اخبار ’اریپبلیکا‘ سے بات کرتے ہوئے گوازینی نے الزام لگایا کہتقریباً 100 اطالوی شہریوں نے ایسا کرنے کے لیے ’بہت سارے پیسے‘ ادا کیے۔ اُن کے بقول آج کے لحاظ سے یہ رقم تقریباً ایک لاکھ ڈالر بنتی ہے۔

سنہ 1992 میں روسی قوم پرست مصنف اور سیاست دان ایڈورڈ لیمونوف کو ایک ہیوی مشین گن سے سارایوو میں کئی راؤنڈ فائرنگ کرتے ہوئے فلمایا گیا۔

اُنھیں بوسنیائی سرب رہنما راڈووان کاراڈزک کی طرف سے پہاڑی مقامات کا دورہ کرایا جا رہا تھا۔ کاراڈزک کا بعد میں دی ہیگ میں بین الاقوامی ٹربیونل نے ’نسل کشی‘ کا مجرم قرار دیا تھا۔

لیمونوف نے ’جنگی سیاحت‘ کے لیے ادائیگی نہیں کی تھی، وہ وہاں کاراڈزک کے مداح کے طور پر موجود تھے اور اس موقع پر اُنھوں نے کہا تھا کہ ’ہم روسیوں کو آپ سے سیکھنا چاہیے۔‘

کہا جاتا ہے کہ اطالوی استغاثہ اور پولیس نے گواہوں کی ایک فہرست کی نشاندہی کی ہے جب وہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کون ملوث ہو سکتا ہے۔

لیکن 1990 کی دہائی میں سارایوو میں خدمات سرانجام دینے والے برطانوی افواج کے ارکان نے بی بی سی کو بتایا کہ بوسنیا میں تنازعے کے دوران اُنھوں نے کبھی کسی نام نہاد ’سنائپر سیاحت‘ کے بارے میں نہیں سنا۔

اُن کا کہنا تھا کہ یہ عملی طور پر بہت مشکل ہے کہ کسی تیسرے ملک سے لوگوں کو لایا جائے جنھوں نے شہریوں کو مارنے کے لیے پیسے دیے ہوں۔ کیونکہ یہاں جگہ جگہ چیک پوسٹیں قائم کی گئی تھیں۔

برطانوی افواجنے سارایوو کے اندر اور شہر کے آس پاس کے علاقوں میں خدمات انجام دیں، جہاں سرب افواج تعینات تھیں اور اُنھوں نے اس وقت کچھ بھی نہیں دیکھا جس سے یہ معلوم ہو سکے کہ ’سنائپر ٹورازم‘ ہو رہی ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US