سلامتی کونسل میں منظور کردہ قرارداد میں غزہ میں مختلف ممالک کی افواج پر مشتمل ’بین الاقوامی استحکام فورس‘ کا قیام بھی شامل ہے۔ اس فورس میں جن ممالک کی افواج شامل ہوں گی، اُن کے نام سامنے نہیں آئے ہیں۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے غزہ میں قیامِ امن کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پیش کردہ 20 نکاتیمنصوبے کے حق میں قرارداد منظور کر لی ہے۔
سلامتی کونسل میں منظور کردہ قرارداد میں غزہ میں مختلف ممالک کی افواج پر مشتمل ’بین الاقوامی استحکام فورس‘ کا قیام بھی شامل ہے۔ اس فورس میں جن ممالک کی افواج شامل ہوں گی، اُن کے نام سامنے نہیں آئے ہیں۔
سلامتی کونس میں پیش کردہ اس قرارداد کے حق میں برطانیہ اور فرانس سمیت 13 ممالک نے ووٹ دیا جبکہ روس اور چین نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔ پاکستان نے بھی حق میں وٹ دیا۔
اس موقع پر اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتھونی گرتیس نے کہا کہ یہ قرارداد جنگ بندی کو برقرار رکھنے کی جانب ایک اہم قدم ہے۔
دوسری جانب حماس نے سلامتی کونسل کی قرارداد کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ قرارداد فلسطینی عوام کے حقوق اور مطالبات کو پورا نہیں کر سکتی ہے۔ تاہم فلسطین اتھارٹی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ قرارداد پر ’جلد عمل درآمد‘ کرنے کی ضرورت ہے۔
غزہ میں قیامِ امن کے لیے دیگر مسودوں کے مقابلے میں اقوام متحدہ کی قرارداد میں فلسطین کی ریاستی حیثیت تسلیم کرنے اور حقِ خود ارادیت کے حوالے سے ایک مصدقہ حوالہ ہے۔
کئی اہم عرب ممالکنے قرارداد کے مسودے پر فلسطینی عوامکے حق خود ارادیت کو متن میں شامل کرنے کے لیے دباؤ ڈالا تھا۔ اسرائیل فلسطینی ریاست کے قیام کی سختی سے مخالفت کرتا ہے جو فلسطین کی ریاستی حیثیت کی راہ میں ایک اہم رکاوٹ ہے۔
سلامتی کونسل میں منظور ہونے والی قرارداد کے تحت بین الاقوامی فورس علاقے میں سکیورٹی اور دہشت گردوں کا نیٹ ورک ختم کرنے میں مدد کرے گی سلامتی کونسل کی قرارداد میں کیا ہے؟
اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق بین الاقوامی استحکام فورس اسرائیل، مصر اور نئی تربیت یافتہ مگر تصدیق شدہ فسلطینی پولیس فورس سرحدی علاقوں کی سکیورٹی اور حماس سمیت ریاست مخالف گروہوں کو غیر مسلح کرنے میں مدد کرے گی۔
یاد رہے کہ اب تک غزہ میں پولیسں حماس کے زیر انتظام کام کرتی ہے۔
اقوامِ متحدہ میں امریکہ کے سفیر مائیک والٹز نے سکیورٹی کونسل کو بتایا کہ ’بین الاقوامی فورس کے اہداف یہ ہوں گے کہ وہ علاقے کو محفوظ بنائیں، غزہ میں غیر عسکری کارروائیوں کی حمایت کریں، دہشت گردوں کا نیٹ ورک ختم کریں، اسلحہ ختم کریں اور فلسطینی شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنائے گی۔‘
سکیورٹی کونسل نے اپنی قرارداد میں غزہ میں ’بورڈ آف پیس‘ (امن) کے نام سے عبوری حکومت کے قیام کی منظوری دی ہے، جس کا کام فلسطینی ٹیکنوکریٹک پر مشتمل غیر سیاسی کمیٹی کی گورننس کی نگرانی کرنااور غزہ کی تعمیر نو اور انسانی امداد کی فراہمی پر نظر رکھنا ہے۔
غزہ میں دو سال تک جاری رہنے والی جنگ کے بعد تعمیرِ نو کے لیے معالی معاونت،عالمی بینک کی حمایت سے بننے والے ٹرسٹ فنڈ سے کی جائے گی۔
قرارداد میں کہا گیا ہے کہ بین الاقوامی استحکام فورس اور بورڈ آف پیس،فلسطینی کمیٹی اور پولیس فورس کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔
حماس نے اقوام متحدہ کی قرارداد کو مسترد کر دیا ہے۔ حماس نے ٹیلی گرام پر جاری پیغام میں کہا کہ ’غزہ میں بین الاقوامی سرپرستی کا جو نظام مسلط کیا جا رہا ہے اسے ہمارے عوام اور مختلف گروہوں نے مسترد کیا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’غزہ میں بین الاقوامی فورس کو دیے گئے اہداف اور کردار، جیسے مزاحمت کو غیر مسلح کرنا وغیرہ، یہ فورس کی غیرجانبداری کو ختم کر کے علاقے پر اپنا تسلط جمانے کی اس لڑائی میں فریق بناتی ہے۔‘
اسرائیل فلسطینی ریاست کے قیام کی سختی سے مخالفت کرتا ہےقرارداد کی منظوری’تاریخی لمحہ‘ مگر چین اور روس کی تنقید
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سلامتی کونسل کی قرارداد کو ’تاریخی‘ قرار دیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ یہ وہ طریقہ ہے جس کے ذریعے ’بورڈ آف پیس‘ (یا امن بورڈ) کی توثیق ہوئی اور اسے تسلیم کیا گیا ہے اور جلد اس بورڈ کی رکنیت کا اعلان کیا جائے گا۔
توقع ہے کہ غزہ میں قیامِ امن کے لیے قائم ہونے والے اس بورڈ آف پیس کی سربراہی امریکی صدر ٹرمپ خود کریں گے۔
سوشل میڈیا پلیٹ فورم ٹرتھ سوشل پر اپنے بیان میں امریکی صدر ٹرمپ نے کہا کہ ’یہ اقوام متحدہ کی تاریخ میں بہت بڑی منظوری ہو گی جس سے دنیا بھر میں مزید امن آئے گا اور یہ تاریخی لحاظ سے اہم لمحہ ہے۔‘
روس اور چین نے سلامتی کونسل کی اس قرارداد پر رائے شماری میں حصہ نہیں لیا لیکن انھوں نے اس قرارداد کو ویٹو نہیں کیا بلکہ مسلمان اور عرب ممالک کی حمایت یافتہ اس قرارداد کو منظور ہونے دیا۔
لیکن ماسکو اور بیجنگ نے اس قرارداد پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ قیامِ امن کے لیے جو طریقہ کار مرتب کیا گیا ہے اس میں اقوام متحدہ کو شامل نہیں کیا گیا ہے اور یہ قرارداد دو ریاستی حل کے لیے پختہ عزم کا اعادہ نہیں کر رہی ہے۔
اس سے قبل امریکہ، فلسطینی اتھارٹی، کئی مسلمان اور عرب ممالک جیسے مصر، سعودی عرب اور ترکی نے اقوام متحدہ سے جلد قرارداد منظو کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
غزہ میں قیامِ امن کے منصوبے کے پہلے مرحلے میں اسرائیل اور حماس کے مابین مغویوں کا تبادلہ 10 اکتوبر سے شروع ہوا تھا۔
امریکی صدر ٹرمپ کے امن منصوبے کے اعلان کے بعد سے حماس اور اسرائیل کے مابین جنگ بند ہوئی تھی۔ سات اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے میں 1200 افراد ہلاک ہوئے تھے اور 251 اسرائیلیوں کو مغوی بنایا گیا تھا جس کے بعد شروع ہونے والی جنگ میں اسرائیلی افواج کے حملوں میں کم سے کم69483 فلسطینی شہری ہلاک ہوئے ہیں۔