20 سال بعد بی بی سی کی تحقیقات میں ایسے شواہد سامنے آئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ صفا کے اہل خانہ کے قتل میں جو دو فوجی اہلکار ملوث تھے ان پر کبھی مقدمہ ہی نہیں چلایا گیا۔
صفا اپنے خاندان کی زندہ بچ جانے والی وحد فرد ہیں ’یہ وہ کمرہ ہے جہاں میرا پورا خاندان قتل کر دیا گیا تھا۔‘
عراقی قصبے حدیثہ میں واقع اس گھر کے مرکزی دروازے پر گولیوں کے سوراخ ہیں۔ یہ وہ گھر ہے جہاں صفا یونس پلی بڑھیں تھیں اور اسے کے ایک کمرے میں کھڑی صفا یونس بتا رہی تھیں۔
گھر کے پچھلے حصے میں موجود بیڈ روم میں ایک بیڈ کو رنگین چادر سے ڈھک دیا گیا تھا، یہی وہ جگہ تھی جہاں ان کے اہلِ خانہ کو گولیاں ماری گئی تھیں۔
یہ وہ جگہ ہے جہاں صفا اپنے پانچ بہن بھائیوں، ماں اور خالہ کے ساتھ چھپی تھیں جب امریکی فوجیوں نے ان کے گھر پر دھاوا بولا اور فائرنگ کی، جس سے صفا کے علاوہ سب مارے گئے۔
ان کے والد کو اس وقت گولی ماری گئی تھی جب انھوں نے گھر کا مرکزی دروازہ کھولا۔
اب 20 سال بعد بی بی سی آئی کی تحقیقات میں ایسے شواہد سامنے آئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ صفا کے اہل خانہ کے قتل میں جو دو فوجی اہلکار ملوث تھے ان پر کبھی مقدمہ ہی نہیں چلایا گیا۔
ان ہلاکتوں کے بعد سامنے آنے والے شواہد اور گواہیوں نے نہ صرف امریکی تحقیقات پر شکوک و شبہات پیدا کیے ہیںبلکہ اس سے امریکی مسلح افواج کو جوابدہ ٹھہرائے جانے کے طریقے پر اہم سوالات اٹھے ہیں۔
صفا کے خاندان کا قتل حدیثہ میں ہونے والے قتلِ عام کا ایک حصہ تھا، جب امریکی فوجیوں نے 24 عراقی شہریوں کو ہلاک کیا۔ ان افراد میں چار خواتین اور چھ بچے بھی شامل تھے۔
وہ فوجی اہلکار تین گھروں میں داخل ہوئے اور اندر موجود تقریباً ہر شخص کو ہلاک کر دیا گیا، جن میں ایک ڈرائیور اور ایک کار میں سوار چار طالب علم بھی شامل تھے جو کالج جا رہے تھے۔
اس واقعے کے بعد امریکہ میں عراق جنگ سے متعلق ایک طویل تحقیقات کی گئیں مگر کسی کو ان ہلاکتوں پر سزا نہیں سنائی گئی۔
وہ گھر جہاں صفا کے خاندان کو قتل کیا گیا تھاامریکی فوجیوں نے کہا کہ وہ سڑک کے کنارے بم دھماکے کے بعد فائرنگ کا جواب دے رہے تھے، جس میں ان کے سکواڈ کا ایک رکن ہلاک اور دیگر دو زخمی ہوگئے تھے۔
صفا اس وقت 13 برس کی تھیں۔ انھوں نے بی بی سی ورلڈ سروس کو بتایا کہ ’ہم پر کسی چیز کا الزام نہیں لگایا گیا تھا۔ ہمارے پاس گھر میں کوئی ہتھیار بھی نہیں تھا۔‘
صفا اپنے بہنوں اور بھائی کی لاشوں کے درمیان خود کو مردہ ظاہر کرنے کے لیے لیٹ گئیں۔ ان کی سب سے چھوٹی بہن کی عمر تین برس تھی۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میں اپنے پورے خاندان میں سے واحد زندہ بچی تھی۔‘
ابتدائی طور پر چار فوجیوں پر قتل کا الزام عائد کیا گیا تھا لیکن انھوں نے اس واقعے متضاد بیانات دیے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ امریکی فوجی استغاثہ نے ان میں سے تین کے خلاف الزامات کو ختم کردیا، جس سے انھیں مزید قانونی کارروائی سے استثنیٰ مل گیا۔
اس کے بعد سکواڈ لیڈر سٹاف سارجنٹ فرینک ووٹرچ سنہ 2012 میں اس مقدمے کا سامنا کرنے والے واحد شخص رہ گئے۔
اس تصویر میں ہمبرٹو مینڈوزا کو گھٹنوں کے بل بیٹھے ہوئے دیکھا جا سکتا ہےمقدمے کی سماعت سے پہلے کی ایک ویڈیو ریکارڈنگ، جو پہلے کبھی نشر نہیں ہوئی، میں سکواڈ کے سب سے جونیئر رکن لانس کارپورل ہمبرٹو مینڈوزا سے پوچھ گچھ کی گئی اور صفا کے گھر میں پیش آنے والے واقعات کو دوبارہ جانچا گیا۔
مینڈوزا، جن پر کبھی ان ہلاکتوں کا الزام عائد نہیں کیا گیا تھا، نے اعتراف کیا کہ انھوں نے اس وقت صفا کے والد کو ہلاک کیا جب انھوں نے فوجیوں کے لیے دروازہ کھولا۔
ویڈیو میں ایک وکیل ان سے پوچھ رہا ہے کہ ’آپنے انکے ہاتھ دیکھے تھے؟‘
مینڈزا نے جواب دیا ’جی سر‘ اور اس بات کی تصدیق کردی کہصفا کے والد مسلح نہیں تھے۔
وکیل نے دوبارہ پوچھا ’لیکن آپ نے انھیں پھر بھی گولی مار دی؟‘
مینڈوز نے جواب دیا: ’جی سر۔‘
اپنے سرکاری بیانات میں مینڈوزا نے ابتدائی طور پر دعویٰ کیا تھا کہ گھر میں داخل ہونے کے بعد انھوں نے بیڈروم کا دروازہ کھولا جہاں صفا اور ان کے اہل خانہ موجود تھے، لیکن جب انھوں نے جب دیکھا کہ اندر صرف خواتین اور بچے ہیں تو وہ اندر نہیں گئے اور اس کے بجائے دروازہ بند کردیا۔
وہ بیڈروم جہاں صفا کے اہل خانہ کو قتل کیا گیا تھاتاہمووٹرچ کے خلاف مقدمے کی سماعت کی ایک نئی دریافت شدہ آڈیو ریکارڈنگ میں مینڈوزا ایک مختلف بیان دیتے ہوئے سنائی دے رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ بیڈ روم میں تقریباً آٹھ فٹ تک اندر چلے گئے تھے۔
فرانزک ماہر مائیکل میلونی کے مطابق یہ بہت اہم بات ہے۔
نیول کریمنل انویسٹی گیشن سروس نے انھیں 2006میں ہلاکتوں کی تحقیقات کے لیے حدیثہ بھیجا تھا، جہاں انھوں نے اس بیڈروم کا معائنہ کیا جہاں صفا کے اہل خانہ کو گولی ماری گئی تھی۔
قتل کے وقت مرین کور کی طرف سے لی گئی کرائم سین کی تصاویر کا استعمال کرتے ہوئے میلونی نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ دو مرینز (فوجی اہلکار) کمرے میں داخل ہوئے تھے اور خواتین اور بچوں کو گولی ماری تھی۔
جب ہم نے انھیں مینڈوزا کی وہ ریکارڈنگ سنائی جس میں کمرے کے اندر جانے کی بات کر رہے ہیں تو میلونی نے کہا: ’جو ہم سن رہے ہیں وہ میرے لیے حیران کن ہے اور یہ میں نے آج سے پہلے کبھی نہیں سنا۔‘
انھوں نے کہا کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مینڈوزا کمرے میں اپنی موجودگی کی جگہ بتا رہے ہیں اور اس سےمیلونی نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ پہلا شوٹر بستر کے پاس کھڑا تھا۔
’اگر آپ مجھ سے پوچھیں کہ کیا یہ ایک قسم کا اعتراف ہے؟ تو میں کہوں گا ایسا ہی، مینڈوزا نے ٹرگر دبانے کے سوا ہر چیز کا اعتراف کیا ہے۔‘
صفا نے 2006میں فوجی پروسیکیوٹرز کو ایک ویڈیو بیان دیا تھا لیکن اسے عدالت میں کبھی نہیں دکھایا گیا۔
اس میں انھوں نے بتایا تھا کہ کس طرح بیڈروم کا دروازہ کھولنے والے فوجی اہلکار نے ایک دستی بم پھینک اندر پھینکا جو پھٹ نہ سکا اور پھر وہی شخص کمرے میں آیا اور ان کے اہل خانہ کو گولی مار دی۔
مینڈوزا وہ واحد فوجی اہلکار ہیں جنھوں نے بیڈروم کا دروازہ کھولنے کا ذکر کیا ہے۔
14 سال کی عمر میں صفا نے گواہی دی تھیایک اور فوجی اہلکار لانس کارپورل سٹیفن ٹیٹم نے بھی فائرنگ میں حصہ لینے سے انکار نہیں کیا بلکہ کہا کہ وہ سکواڈ لیڈر ووٹرچ کے پیچھے بیڈروم میں داخل ہوئے تھے۔ انھوں نے ابتدائی طور پر دعویٰ کیا تھا کہ وہ نہیں جانتے تھے کہ وہاں خواتین اور بچے بھی موجود ہیں۔
لیکن بعد میں بی بی سی کو موصول ہونے والے تین بیانات میں ٹیٹم نے ایک مختلف کہانی سُنائی۔
ٹیٹم نے اپریل 2006 میں نیول کریمنل انویسٹی گیٹیو سروس کو بتایا تھا کہ ’میں نے دیکھا کہ بچے کمرے میں گھٹنوں کے بل بیٹھے ہوئے تھے، مجھے صحیح تعداد یاد نہیں ہے لیکن وہ بہت سارے تھے۔ مجھے سینے پر دو گولیاں اور سر پر دو گولیاں مارنے کی تربیت دی گئی ہے اور میں نے اپنی تربیت پر عمل کیا۔‘
ایک ماہ بعد انھوں نے کہا کہ وہ ’گولی چلانے سے پہلے کمرے میں موجود لوگوں کو خواتین اور بچوں کے طور پر شناخت کرنے میں کامیاب رہے تھے۔‘
اور پھر اس کے ایک ہفتے بعد انھوں نے کہا ’یہ وہ جگہ ہے جہاں میں نے اس بچے کو دیکھا جس کو میں نے گولی مار دی تھی۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ ایک بچہ ہے میں نے پھر بھی اسے گولی مار دی۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’بچے نے سفید ٹی شرٹ پہن رکھی تھی، بستر پر کھڑا تھا اور اس کے چھوٹے بال تھے۔‘
ٹیٹم کے وکیل نے دعویٰ کیا ہے کہبعد کے لیے گئے بیانات دباؤ کے ذریعے حاصل کیے گئے تھے۔
مارچ 2008 میں ٹیٹم کے خلاف الزامات کو خارج کردیا گیا تھا اور پھر ووٹرچ کے خلاف مقدمے کی سماعت میں ان بیانات کو نظرانداز کردیا گیا تھا۔
فرانزک ماہر مائیکل میلونی نے کہا کہ مینڈوزا اور ٹیٹم کے بیانات اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ وہ یہی دو اہلکار تھے جنہوں نے صفا کے اہل خانہ کو گولی ماری۔
ان کا خیال ہے کہ مینڈوزا پہلے بیڈ روم میں گئے اور ٹیٹم نے ’بستر کے سرہانے کی جانب فائرنگ کی۔‘
ہم نے یہ الزامات مینڈوزا اور ٹیٹم کے سامنے رکھے۔
مینڈوزا نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اس سے قبل انھوں نے صفا کے والد کو گولی مارنے کا اعتراف کیا تھا لیکن یہ بھی کہا تھا کہ وہ احکامات پر عمل کر رہے تھے۔ ان پر کبھی بھی مجرمانہ اقدام کا الزام عائد نہیں کیا گیا تھا۔
اپنے وکیل کے ذریعے ٹیٹم نے کہا کہ وہ حدیثہ کو پیچھے چھوڑ دینا چاہتا ہیں اور یہ کہ انھوں نے کبھی بھی اپنی گواہی واپس نہیں لی، جس میں انھوں نے کہا تھا کہ وہ صفا کے گھر میں گولیاں چلانے والے فوجی اہلکاروں میں سے ایک تھے۔
سکواڈ لیڈر فرینک ووٹرچمیلونی نے بی بی سی کو بتایا کہ پروسیکیوشن ’چاہتی تھی کہ ووٹرچ شوٹر ثابت ہوں۔‘
لیکن اس سے پہلے کہ میلونی گواہی دیتے ووٹرچ کا مقدمہ ایک پلی ڈیل کے تحت ختم ہوگیا۔
ووٹرچ نے کہا تھا کہ انھیں یاد نہیں کہ صفا کے گھر میں کیا ہوا تھا اور انھوں نے فرض سے غفلت برتنے کے ایک الزام کا اعتراف کیا۔
یہ ایک ایسا الزام تھا جس کا قتل میں براہ راست ملوث ہونے سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
ووٹرچ کے فوجی وکیل، ہیتھم فراج جو خود ایک سابق مرین ہیں، کا کہنا تھا یہ سزا ’معمولی سزاتھی، بالکل ویسے ہی جیسے تیز رفتار پر چالان ہو جائے۔‘
ووٹرچ کے وکیل نیل پکٹ کا کہنا ہے کہ ان کے مؤکل کے خلاف پوری تفتیش اورمقدمہ انتہائی ’ناکام‘ کارروائی تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’استغاثہ نے اپنے تمام گواہوں کو استثنیٰ دے کر اور ان کے خلاف تمام الزامات کو خارج کرکے۔۔۔بنیادی طور پر خود کو اس معاملے میں انصاف کے حصول سے قاصر بنایا۔‘
ہیتھم فراج نے بھی اس بات سے اتفاق کیا کہ یہ عمل بہت ناقص ہے۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’حکومت نے لوگوں کو جھوٹ بولنے کے لیے ادائیگی کی اور یہ ادائیگی استثنیٰ کی صورت میں تھی اور اس طرح انھوں نے قانونی عمل کا غلط استعمال کیا۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’حدیثہ کا مقدمہ کبھی بھی متاثرین کی آواز بننے کے لیے نہیں بنایا گیا تھا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ زندہ بچ جانے والوں کا ’یہ تاثر بالکل درست ہے کہ یہ مقدمہ ایک دکھاوا تھا، جس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلنا تھا۔ کسی کو سزا نہیں دی گئی۔‘
صفا اب 33سال کی ہیں اور اب بھی حدیثہ میں رہتی ہیںامریکی مرین کور نے ہمیں بتایا کہ وہ یونیفارم کوڈ آف ملٹری جسٹس کے تحت منصفانہ کارروائی کے لیے پرعزم ہیں، جس سے قانونی عمل کو یقینی بنایا جاتا ہے۔
اس نے مزید کہا کہ وہ اس وقت تک تحقیقات کو دوبارہ نہیں کھولیں گے جب تک کوئی نئے، غیر جانچ شدہ اور قابل قبول شواہد متعارف نہیں کروائے جاتے۔
اس کیس کے مرکزی پراسیکیوٹر نے بی بی سی کی جانب سے تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔
صفا اب 33برس کی ہیں اور اب بھی حدیثہ میں رہتی ہیں اور ان کے اپنے تین بچے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ آخر کیسے کسی بھی فوجی اہلکار کو ان کے خاندان کی موت کے مقدمے میں سزا نہیں دی گئی۔
جب ہم نے انھیں مینڈوزا کی ویڈیو دکھائی تو انھوں نے کہا ’اس واقعے کے فوراً بعد ہی انھیں قید کیا جانا چاہیے تھا، ان کے لیے دن کی روشنی دیکھنا ناممکن بنا دینا چاہیے تھا۔‘
وہ اہل خانہ کی ہلاکت کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’ایسا لگتا ہے جیسے یہ پچھلے سال ہوا تھا۔ میں اب بھی اس کے بارے میں سوچتی ہوں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’میں چاہتی ہوں کہ جن لوگوں نے ایسا کیا ان کا احتساب کیا جائے اور انھیں قانون کے ذریعے سزا دی جائے۔ تقریباً 20 سال گزر چکے ہیں ان پر مقدمہ نہیں چلا، اصل جرم تو یہ ہے۔‘
نمک خوشنو اور مائیکل ایپسٹی کی اضافی رپورٹنگ