’فوجی نے 8 سالہ بھتیجی کے سامنے میرا ریپ کیا‘: وہ جنگ جس نے ہزاروں خواتین کی زندگیاں تباہ کر دی

اس خطے میں جنسی ہراسانی پر زیادہ معلومات موجود نہیں لیکن بی بی سی نے جو اعداد وشمار اکھٹے کیے ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ جولائی 2023 سے مئی 2025 کے درمیان آٹھ سالہ بچیوں سے لے کر 65 سالہ خواتین کے ریپ کے ہزاروں واقعات ہوئے۔
A designed image of a cream-coloured silhouette of a woman with a large open hand behind her. There are also distant images of women, trees and the high-rise buildings of a city.
Klawe Rzeczy

انتباہ: یہ رپورٹ ریپ اور جنسی تشدد کی تفصیلات پر مبنی ہے۔ پرائیوسی کے تحفظ اور سکیورٹی کے سبب متاثرین کے نام تبدیل کر دیے گئے ہیں۔

انات اپنی آٹھ سالہ بھتیجی کے ساتھ گھر پر تھیں جب اتوار کی صبح کچھ فوجی اچانک پہنچے۔ یہ رواں سال پانچ جنوری کا دن تھا۔ ایتھوپیا کی فوج ’امہارا‘ نامی علاقے میں باغیوں کے خلاف چھاپے مار رہی تھی جن کو ’فانو‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

انات نے بی بی سی کو بتایا کہ فوجی یونیفارم میں ملبوس تین اہلکار ان کے گھر میں داخل ہوئے اور ان سے سوال پوچھنا شروع کر دیے۔ ان سے اہلخانہ کے بارے میں سوال ہوئے اور یہ بھی پوچھا گیا کہ جس جگہ وہ کام کرتی ہیں کیا وہاں باغیوں کا آنا جانا تو نہیں۔

21 سالہ انات نے ہاں میں جواب دیا۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میں جھوٹ کیسے بول سکتی تھی؟ سچ کیسے چھپا سکتی تھی؟‘

فانو باغی زیادہ تر مقامی لوگ تھے۔ مقامی زبان میں اس کا مطلب ہے ’رضاکار جنگجو۔‘

لیکن انات کے جواب کے بعد سب کچھ بدل گیا۔ انات کہتی ہیں فوجیوں نے پہلے ان کی بے عزتی کی اور جب ان کی چھوٹی بھتیجی نے رونا شروع کیا تو اسے بندوق کی مدد سے دھمکایا گیا۔ انات کہتی ہیں کہ ایک فوجی نے ان کی بھتیجی کے سامنے ان کا ریپ کیا۔ ان کے مطابق باقی فوجی باہر پہرہ دینے لگے۔

وہ کہتی ہیں ’میں نے ان سے التجا کی کہ مجھے نقصان نہ پہنچائیں۔ میں نے ان سے بھیک مانگی لیکن ان کے دلوں میں رحم نہیں تھا۔‘

ریپ کی ہزاروں رپورٹس

انات کا تعلق ایک ایسے نسلی گروہ سے ہے جو ایتھوپیا میں دوسری بڑی اکثریت ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ایتھوپیا میں اگست 2023 سے شروع ہونے والے اس تنازع کے دعوران ہزاروں خواتین کو جنسی ہراسانی اور ریپ کا سامنا کرنا پڑا۔

اس خطے میں جنسی ہراسانی پر زیادہ معلومات موجود نہیں لیکن بی بی سی نے جو اعداد وشمار اکھٹے کیے ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ جولائی 2023 سے مئی 2025 کے درمیان آٹھ سالہ بچیوں سے لے کر 65 سالہ خواتین کے ریپ کے ہزاروں واقعات ہوئے۔

میڈیا پر عائد پابندیوں کی وجہ سے علاقے میں داخل ہونا ممکن نہیں لیکن نیروبی میں موجود بی بی سی کی ٹیم نے علاقے کی خواتین اور ڈاکٹروں سے بات چیت کی جس کی مدد سے اس انسانی بحران کے بارے میں اہم معلومات ملی ہیں۔

یہ تنازع اس وقت شروع ہوا تھا جب حکومت نے خطے میں موجود عسکری گروہوں کو غیر مسلح کرنے اور انھیں ختم کرنے کی کوشش کی تھی۔ امہارا میں موجود گروہ 2020 سے 2022 کے درمیان بھی خانہ جنگی کے بیچ فوج سے لڑ چکے ہیں۔

فانو جنگجو حکومت کے حالیہ اقدام کی وجہ سے بے چین تھے اور ان کا ماننا ہے کہ اگر وہ غیر مسلح ہو جائیں گے تو پھر ان کے پاس دفاع کا موقع نہیں ہو گا۔ یاد رہے کہ انسانی حقوق پر کام کرنے والی تنظیموں کے مطابق امہارا برادری کے خلاف پرتشدد واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔

حکومتی اقدامات کے جواب میں فانو گروہ نے بغاوت کر دی اور اہم قصبوں پر قبضہ کر لیا۔ ان کا دعوی ہے کہ وہ علاقائی خودمختاری کی جنگ لڑ رہے ہیں اور اپنی برادری کو بچا رہے ہیں۔ اس بغاوت کے جواب میں فوج نے کارروائی کا آغاز کر دیا۔

A designed image showing a hand on an AK-47 assault rifle, with two women whose faces cannot be seen. Both women have white scarves covering their heads and shoulders.
Klawe Rzeczy
جولائی 2023 سے مئی 2025 کے درمیان آٹھ سالہ بچیوں سے لے کر 65 سالہ خواتین کے ریپ کے ہزاروں واقعات ہوئے

دونوں اطراف کی جانب سے ایک دوسرے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی، ماورائے عدالت قتل، غیر قانونی گرفتاریوں، جبری گمشدگی، لوٹ مار سمیت ریپ اور جنسی ہراسانی کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ زیادہ تر خلاف ورزیاں فوج نے کی ہیں جن کے شواہد موجود ہیں۔ ان کے مطابق امہارا لوگوں کو ملک کے دیگر علاقوں میں بھی سکیورٹی فورسز اور دیگر مسلح گروہوں نے نشانہ بنایا ہے۔

انات کہتی ہیں کہ انھوں نے اس سے پہلے سیکس نہیں کیا تھا اور وہ چاہتی تھیں کہ مذہبی عقائد کے تحت کسی دن آرتھوڈاکس چرچ میں خاندان کی باقی خواتین کی طرح ان کی بھی شادی کی رسم ادا ہو۔ یہاں کے لوگ آرتھوڈاکس مسیحی ہیں جن کا ماننا ہے کہ شادی سے پہلے سیکس نہیں کرنا چاہیے۔

وہ کہتی ہیں ’اس دن سے پہلے میں کسی مرد کو نہیں جانتی تھی۔ بہتر ہوتا وہ مجھے قتل کر دیتے۔‘

’میں خاندان والوں کو بیہوش ملی‘

امہارا خطے کی رہائشی ٹیگسٹ کی عمر 18 سال ہے اور وہ مغربی گوجام میں رہتی ہیں۔ وہ ایک روایتی چائے خانے میں ملازمت کرتی تھی۔

انھوں نے بتایا کہ جنوری 2024 میں ایک فوجی نے، جس کا وہاں آنا جانا تھا، ان کو چھونا چاہا تو انھوں نے اسے جھٹک دیا۔ ان کا خیال ہے کہ اسی وجہ سے ان کو بعد میں نشانہ بنایا گیا۔

اسی شام وہ گھر واپس جا رہی تھیں جب تین فوجیوں نے، جن میں ان کو چھونے کی کوشش کرنے والا فوجی بھی شامل تھا، گلی میں ان کو دبوچا اور پھر ان کا گینگ ریپ کیا گیا۔

وہ بتاتی ہیں کہ میرے خاندان والوں کو میں بیہوش حالت میں ملی تھی۔ ’وہ مجھے کلینک لے گئے جہاں میں پانچ دن رہی۔‘

اس دن کے بعد سے وہ گھر سے باہر نہیں نکلی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ انھیں مردوں اور دنیا سے خوف آتا ہے۔ ’میں کام پر نہیں جا سکتی، فوجیوں یا مردوں کو دیکھتی ہوں تو چھپ جاتی ہوں۔‘

انھوں نے اپنی منگنی بھی ختم کر ڈالی۔ لیکن انھوں نے اپنے منگیتر کو یہ نہیں بتایا کہ ان کے ساتھ کیا ہوا تھا اور وہ یہ منگنی کیوں ختم کر رہی ہیں۔

مایوسی کا شکار ہونے کے بعد انھوں نے اپنی جان لینے کی کوشش کی لیکن عین وقت پر ان کے گھر والوں نے انھیں بچا لیا۔ وہ کہتی ہیں کہ اگرچہ ان کو بعد میں بھی خودکشی کرنے کا خیال آیا لیکن وہ گھر والوں سے وعدہ کر چکی ہیں کہ وہ اب ایسا نہیں کریں گی۔

’خاتون پیدا ہونا ایک کم تر چیز ہے‘

بی بی سی نے امہارا میں 43 طبی سہولتی مراکز سے اعداد و شمار حاصل کیے اور پتہ چلا کہ 18 جولائی 2023 سے مئی 2025 کے درمیان ریپ کے 2697 کیس رپورٹ ہوئے جن میں سے 45 فیصد میں 18 سال سے کم عمر کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

تقریبا نصف میں جنسی طور پر منتقل ہونے والی بیماریاں پائی گئیں جبکہ بہت سے حاملہ ہوئی اور انھیں نفسیاتی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔

بہت سے خواتین نہ تو جرم کے بارے میں بتاتی ہیں اور نہ ہی علاج کے لیے جاتی ہیں کیوں کہ انھیں معاشرے میں بدنامی سمیت اس بات کا خدشہ بھی ہوتا ہے کہ وہ حاملہ نہ ہو گئی ہوں یا پھر کسی جنسی بیماری کا شکار نہ ہو گئی ہوں۔

اسی لیے ایک طبی ماہر نے، جنھوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی سے بات کی، کے مطابق طبی مراکز میں آنے والی متاثرہ خواتین کی تعداد مکمل طور پر جرائم کی شرح واضح نہیں کرتی۔

لملیم نے بھی اپنے ریپ کی رپورٹ نہیں کروائی اور نہ ہی علاج کے لیے رجوع کیا۔ ان کو خوف لاحق تھا کہ کہیں انھیں ایڈز نہ ہو گئی ہو۔

جنوبی گونڈر سے تعلق رکھنے والی 23 سالہ لیملیم کا کہنا ہے کہ 6 جنوری کو فوجی اہلکار معمول کی کارروائی کے تحتمعلومات جمع کرنے کے لیے اُن کے گھر آئے۔

انھیں نے بتایا کہ جب وہ معلومات نہیں ملیں جس کے بارے میں وہ سوچ کر آئے تھے تو اُن میں سے ایک فوجی نے اُن کا ریپ کیا۔

وہ کہتی ہیں کہ اُس نے مجھے ڈرایا کہ ’اگر تم نے شور مچایا تو میں گولی مار دوں گا۔ میں اس واقعے کے بعد ایک ماہ تک بس روتی رہی۔ میں نے کچھ نہیں کھایا۔ بس روتی رہتی تھی۔ میں کھڑی نہیں ہو پاتی تھیں اور بہت بیمار ہو گئی تھی۔‘

اس حملے کے بعد اپنے خوف اور خاتون ہونے کے بارے میں انھوں نے کہا کہ ’عورت پیدا ہونا ایک کم تر چیز ہے۔ اگر میں مرد ہوتیوہ مجھے مارتے پیٹتے اور چلے جاتے لیکن میری زندگی تباہ نہ کرتے۔‘

A designed image showing a woman, whose face is in silhouette, dressed in a white scarf which covers her head and shoulders. Beneath her is a winding road and some trees and the smaller image of another woman in similar dress.
Klawe Rzeczy
ٹیگسٹ نے بتایا کہ تین فوجیوں نے گلی میں ان کو دبوچا اور پھر ان کا گینگ ریپ کیا گیا

بی بی سی نے طبی شعبے سے وابستہ جن افراد سے بات کی اُن کا کہنا ہے کہ لڑائی شروع ہونے کے بعد جنسی تشدد میں تیزی آئی ہے۔

ایک ڈاکٹر نے بتاتا کہ ’وہ کانپتی ہوئی پہنچتی ہیں یہاں تک کہ اُن سے بولا بھی نہیں جاتا۔‘

اس کے باوجود جو لوگ ہمت کر کےکلینک تک آتے ہیں وہ بھی اپنے ساتھ ریپ کرنے والوں کا نام لینے سے ہچکچاتے ہیں اورانھیں انصاف ملنے کی کوِئی اُمید نہیں ہوتی ہے۔ زیادہ تر متاثرہ خواتین حاملہ ہونے کے خوف کے سبب طبی مراکز آتی ہیں۔

علاج کروانے والے دوسرے افراد وہ ہیں جوریپ کے کافی عرصے کے بعد طبی مرکز آتے ہیں اور جنسی تعلق سے منتقل ہونے والے ایسےانفیکشنز کے علاج کے لیے کلینک آتے ہیں جن پر ادویات اثر کرنا چھوڑ دیتی ہیں جیسے ایچ آئی وی۔

ایچ آئی وی جیسے انفیکشنز کو متاثرہ شخص سے منتقل ہونے کے فوری بعدپوسٹ ایکسپوزر پروفیلیکسس کے ذریعے روکا جا سکتا ہے۔

ایک دوسرے ڈاکٹر نے بتایا کہبہت سے متاثرین کا کہنا ہے کہ وہ اکثر سٹرکوں کی بندش اور ٹرانسپورٹ نہ ہونے کے سبب علاج کے مراکز تک نہیں پہنچ پاتے۔

طبی ماہرین کے مطابق انھیں خدشہ ہے کہ ان حالات کے سبب صحت عامہ کے مسائل اور سماجی بحران پیدا ہو سکتا ہے۔

صحت کے مراکز کے اعدادوشمار کے مطابقایچ آئی وی انفیکشن بڑھ سکتے ہیں اور دماغی صحت اور نفسیاتی مسائل میں بہت زیادہ اضافہ ہو سکتا ہے جبکہ کچھ متاثرین نے خودکشی کی کوشش کی ہے۔

2022 میں ایتھوپیا کی وزارت صحت کے اعداد و شمار کے مطابق اسخطے میں سو افراد میں سے ایک اعشاریہ ایک فیصد ایچ آئی وی پازیٹو ہیں اور یہ شرح ملک کے دیگر علاقوں سے زیادہ ہے۔

اگرچہ اس لڑائی کے دوران دونوں فریقوں نے ایک دوسرے پر حملے کیے ہیں لیکن طبی عملے نے رپورٹ کیا ہے کہ کہ فانو ملیشیا کے مقابلے میں ایتھوپیا کے فوج کے اہلکاروں کے زیادہ کیسز سامنے آئے۔

ایک سرکاری ملازم نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر تصدیق کی کہ ایسا ہی ہے۔

ریپ کے زیادہ ترواقعات اُنشہری علاقوں میں رپورٹ ہوئے جہاں فوجی اڈے موجود ہیں اور اُن کاکنٹرول ہے، تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ شہروں میں رہنے والے لوگوں کو علاج تک بہتر رسائی حاصل ہے اس لیے طبی مدد حاصل کرنے اور حملوں کی اطلاع دینے کے امکانات زیادہ ہوتا ہے۔

بی بی سیفانو جنگجوؤں کے حملوں سے متاثر کسی بھی شخص کا انٹرویو نہیں کر سکا کیونکہ ملیشیا کے ٹھکانوں کی موجودگی کے سبب ان علاقوں تک رسائی محدود ہے۔

Map showing the location of Amhara in north-west Ethiopia. The Tigray region is to the north of Amhara. Ethiopia's neighbours, Eritrea (to the north), Sudan and South Sudan (to the west) are also shown.
BBC
امہارا میں موجود گروہ 2020 سے 2022 کے درمیان بھی خانہ جنگی کے بیچ فوج سے لڑ چکے ہیں

جون 2024 میں اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ ایتھوپیا کی نیشنل ڈیفنس فورس نے، فانو ملیشیا کے ساتھ لڑائی کے دوران، امہارا کے علاقے میں جنسی تشدد کا ارتکاب کیا۔

بی بی سی نے ایتھوپیا کی وزارت دفاع سے ان الزامات پر رابطہ کیا لیکن کئی مہینوں کے انتظار کے باوجود کوئی جواب نہیں ملا۔

اس بارے میں تفصیلی معلومات حاصل کرنے کے لیے بی بی سی نے علاقائی حکام سے بار بار درخواستیں کیں لیکن کوئی جواب نہیں آیا۔

فانو گروہ سے تعلق رکھنے والے ایک رہنما، اسریس مارے ڈمٹی نے بی بی سی کو بتایا کہ گروپ اپنے جنگجوؤں کی کسی بھی ایسی سرگرمی میں ملوث ہونے سے ناواقف ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ان کے خلاف کوئی الزام نہیں ہے اور وہ خود اس بات کو لازمی بناتے ہیں کہ وہ جرائم میں ملوث اراکین کو سخت سزائیں دیں۔

بی بی سی کی معلومات کے مطابق حکومت کی جانب سے امہارا میں خواتین پر جسنی تشدد کی تحقیقات کے لیے ایک کمیشن بنایا گیا ہے جوایتھوپیا کی بحیر ڈار یونیورسٹی کی سربراہیمیں کام کر رہا ہے۔ توقع ہے کہ آئندہ چند ماہ میں اسکمیشن کی تحققیاتی رپورٹ جاری کی جائے گی۔

2021 میں، جب فوج اور فانو ملیشیا سمیت اس کے اتحادیوں کو تیگرے کے علاقے میں لڑائی کے دوران ایسے ہی الزامات کا سامنا تھا تو حکومت نے ریپ جیسے جرائم کی مذمت کی تھی لیکن ان دعوؤں کو ’متعصبانہ اور کمزور‘قرار دے کر مسترد کر دیا تھا۔

آج تک، مجرموں کے خلاف کسی قسم کی کارروائی نہیں ہوئی ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے نے ایتھوپیا کی فوج کو ملنے والے مسلسل اسشثنیٰ کے رجحان پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ تنظیم کے علاقائی ریسرچر ہیمانوت اشنافی کہتے ہیں کہ مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے کوئی بامعنی کوشش نہیں کی گئی ہے۔

انات کے لیے اس سانحے کے نتائج بہت دوررس ہیں۔حملے کے ایک ماہ بعد وہ اس کی دہشت سے بچنے کے لیے اپنی گاؤں سے بھاگ گئی تھیں۔

اس کے بعد انھیں پتہ چلا کہ ریپ کے نتیجے میں وہ حاملہ ہو گئی ہیں۔ وہ یاد کرتی ہوئی کہتی ہیں کہ ’مجھے قے آنا شروع ہو گئیں۔‘

انھوں نے اسقاط حمل کے بارے میں سوچا کیونکہ ایتھوپیا میں ریپ کے شکار خواتین کو 12 ہفتوں تک کے حمل کو ختم کروانے کی قانوناً اجازت ہے لیکن وہ ڈر گئی تھیں۔

’مجھے خدا سے خوف آیا اور میں نے اپنی ماں کے بارے میں سوچا کہ اگر وہ اس دوران مر گئیں تو میری ماں کا کیا ہو گا۔‘ انھوں ستمبر میں ایک بیٹی کو جنم دیا۔ وہ سمجھتی ہیں کہ یہ بچہ اُن کے لیے ’خدا کا تحفہ ہے۔‘

فی الحال وہ اپنے ایک رشتہ دار کے ساتھ رہ رہی ہے اور بیٹی کی دیکھ بھال کی وجہ سے کام نہیں کر پا رہی ہیں۔ وہ مستقبل کے بارے میں فکر مند ہیں کہ وہ خود کو اور اپنے بچے کو کیسے مہیا کریں گی۔

وہ کہتی ہیں کہ ’اگر اسی کو جینا کہا جاتا ہے تو ہاں پھر میں زندہ ہوں۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US