بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان کے مالیاتی اور انتظامی ڈھانچے پر سنگین سوالات اٹھاتے ہوئے بھرپور اور غیر معمولی گورننس اینڈ کرپشن ڈائیگناسٹک اسیسمنٹ (GCDA) جاری کیا ہے، جس میں ملکی نظام کو ’’سیاسی و بیوروکریٹک اشرافیہ کا یرغمال‘‘ قرار دیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان کا بدعنوانی زدہ ڈھانچہ قومی سلامتی، معاشی استحکام اور پائیدار ترقی کیلیے سب سے بڑا خطرہ بن چکا ہے۔ یہ رپورٹ معمول کی کارروائی نہیں، بلکہ ایک ریڈ الرٹ ہے جسے آئی ایم ایف نے 1.2 ارب ڈالر کے اگلے پروگرام سے مشروط کردیا ہے۔
آئی ایم ایف کی رپورٹ کے اہم نکات میں عوام معمولی سرکاری سروس کیلیے بھی رشوت دینے پر مجبور، سیاسی و کاروباری گروہوں کی پالیسیوں پر غیر معمولی اثراندازی شامل ہے، جبکہ 2019 کی شوگر ایکسپورٹ پالیسی کو پالیسی کیپچر کی واضح مثال قرار دیا گیا، نیب کی 5.3 ٹریلین روپے کی ریکوری کو ’’اصل نقصان کے مقابلے میں نہایت کم‘‘ قرار دیا گیا، بجٹ و اخراجات میں تضادات بدعنوانی اور کمزور حکمرانی کی علامت قرار دیا گیا ہے۔
آئی ایم ایف نے پاکستان کے ٹیکس نظام کو پیچیدہ، کمزور، غیر شفاف، اور کرپشن کیلیے سازگار قرار دیتے ہوئے کہا کہ ٹیکس ٹو جی ڈی پی کا کم ترین تناسب ’’اشرافیہ کی مراعات یافتہ معیشت‘‘ کی نشانی ہے۔
رپورٹ کے مطابق ریگولیٹری اداروں میں اوور لیپنگ اختیارات، شفافیت کا فقدان، ریگولیٹری کیپچر عام ہے، عدلیہ کے حوالے سے کہا گیا کہ نظام تاخیر کا شکار، لاکھوں مقدمات التوا میں، قوانین پرانے، فیصلوں پر عوام کا اعتماد کمزور ہے، جو سرمایہ کاری اور کاروباری ماحول کو شدید متاثر کرتا ہے۔
اگرچہ پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکل چکا ہے، مگر سزا کا مؤثر نفاذ نہیں، منی لانڈرنگ پر کم کارروائیاں، اور احتسابی ادارے تقسیم اور غیر فعال ہیں۔
آئی ایم ایف کے 15 نکاتی فوری اصلاحاتی ایجنڈے میں اہم سفارشات کی گئی ہیں، جن میں ریاستی مراعات اور خصوصی استثنیٰ کا خاتمہ، 12 ماہ کے اندر تمام سرکاری خریداری کا ای-گورننس پر انتقال، مالیاتی اختیارات کی پارلیمانی نگرانی، پالیسی سازی میں شفافیت، احتسابی اداروں کی مکمل اصلاح، AML/CFT قوانین کا سخت اور غیر جانبدارانہ نفاذ شامل ہے۔
آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان شفاف اور سخت گورننس ریفارمز نافذ کرے تو اگلے پانچ برس میں معاشی ترقی 5 سے 6.5 فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔
رپورٹ نے واضح کیا ہے کہ پاکستان کا موجودہ نظام عالمی سطح پر تشویش کا باعث بن چکا ہے۔ ملکی سطح پر نظریں اب فیصلہ ساز اداروں پر ہیں کہ وہ بدعنوان عناصر کے خلاف فوری اور مؤثر ملک گیر کریک ڈاؤن کرتے ہوئے ریاستی ڈھانچے کو اصلاحات کے راستے پر ڈالیں۔