متحدہ عرب امارات اور اس کے حکمران القاعدہ سمیت شدت پسند گروہوں کے ’پروپیگنڈے‘ کا ہدف کیوں؟

کئی ایسے معاملات ہیں جس کی وجہ سے متحدہ عرب امارات نے جہادی گروہوں کو ناراض کیا ہے جیسا کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی اور ایسے سیاسی ایجنڈے کی حمایت جو، شدت پسند گروہوں کے مطابق، اسلامی نظریات سے مطابقت نہیں رکھتا۔
تصویر
Getty Images
شدت پسند گروہ یو اے ای کے حکمراں خاندان کے خلاف بھی آن لائن پروپیگنڈے میں مصروف ہیں

حالیہ چند ہفتوں کے دوران مختلف وجوہات کو جواز بنا کر کئی جہادی تنظیموں نے متحدہ عرب امارات کے خلاف متعدد بیانات جاری کیے ہیں۔

ان میں سب سے نمایاں جواز یہ ہے کہ متحدہ عرب امارات سوڈان کے نیم فوجی دستے سوڈانی ریپڈ سپورٹ فورس (آر ایس ایف) کی مبینہ طور پر پشت پناہی کر رہا ہے۔

متحدہ عرب امارات کے بارے میں یہ بیانات ایسے وقت میں سامنے آ رہے ہیں جب گذشتہ ماہ سوڈان کے شہر ’الفشیر‘ پر آر ایس ایف نے قبضہ کیا اور وہاں سے بڑے پیمانے پر اجتماعی ہلاکتوں کی خبریں سامنے آئیں۔

خلیجی ریاست کے خلاف جاریپروپیگنڈے میں سے زیادہ حیران کن چیز، یمن میں موجود القاعدہ (اے کیو اے پی) کا سات نومبرکو جاری ہونے والا بیان ہے، جس میں القاعدہ نے متحدہ عرب امارات کے حکمران خاندان اور دنیا میں اُن کے مفادات پر حملے کرنے پر اُکسایا ہے۔

اس بیان میں متحدہ عرب امارات کو اسرائیل اور امریکہ جیسی عالمی طاقتوں کے آلہ کار کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔

اے کیو اے پی (القاعدہ) کا دعویٰ ہے کہ ان ہی عالمی طاقتوں نے متحدہ عرب امارات کو ہدایت دی کہ وہ سوڈان میں مداخلت کریں۔

مبصرین کے مطابق اس کے علاوہ کئی ایسے معاملات ہیں جس کی وجہ سے متحدہ عرب امارات نے عالمی جہادی گروہوں کو ناراض کیا ہے جیسا کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی اور مبینہ طور پر ایک ایسے سیاسی ایجنڈے کی حمایت کرنا جو اسلامی نظریات سے مطابقت نہ رکھتا ہے۔

متحدہ عرب امارات گذشتہ کچھ عرصے سے تیل سے حاصل ہونے والی اپنی دولت کو لیبیا، یمن، سوڈان، شام اور دیگر شورش زدہ ممالک میں اپنا اثرروسوخ دکھانے کے لیے استعمال کر رہا ہے اور اسی لیے جہادی گروہوں کی توجہ کا مرکز بن رہا ہے۔

گروہوں کو شبہ ہے کہ یو اے ای اسرائیل اور مغربی ممالک کے ایجنڈے پر کام کر رہا ہے۔

ذیل میں ہم یو اے ای اور جہادیوں کے مابین اسی تنازع پر بات کریں گے۔

سوڈان اور متحدہ عرب امارات

حالیہ کچھ ہفتوں کے دوران آر ایس ایف کی جانب سے سوڈان کے الفشر شہر پر قبضے کے بعد سوڈان تنازع نمایاں ہوا ہے۔

سخت گیر اسلام پسند جہادی گروہوں کا الزام ہے کہ سوڈان کی نیم فوجی دستوں کی جانب مسلمان شہریوں کے مبینہ قتل کے جرائم میں متحدہ عرب امارات بھی ملوث ہے۔

عربی میں لکھے گئے ہیش ٹیگز استعمال کرتے ہوئے اسلامی نظریات کے حامل کچھ افراد نے ایسا ظاہر کیا ہے کہ خلیجی ملک مسلمان قوم کی کمر میں ’زہر میں ڈوبا خنجر‘ گھونپ رہا ہے جبکہ بعض نے کہا کہ خطے کے ہر تنازع کے پیچھے یو اے ای کا ہاتھ ہے۔

اکتوبر کے آخر میں ہونے والے انھی پیغامات کے دوران ہی ٹیلی گرام کے اکاؤنٹ ’جہاد الشام‘ نے متحدہ عرب امارات کو پر سخت الفاظ میں تنقید کرتے ہوئے یو اے ای کے حکمران خاندان کو ’گرانے‘ کی بات کی۔

شام کے بااثر اسلامی مبلغ عبدل آلرازاق آلمہدی نے الزام عائد کیا کہ نیم فوجی دستے آر ایس ایف کی ’پشت پناہی تل ابیب‘ کر رہا ہے جبکہ دیگر کا کہنا ہے کہمغربی ممالک کے کہنے پر سوڈان میں متحدہ عرب امارات مداخلت کر رہا ہے۔

اسلامی جہادیوں کے گروپس کے حامی متحدہ عرب امارات کو ’تباہ کن‘ قرار دے رہے ہیں۔

ایک طویل مدت کے بعد سوڈان پر اچانک توجہ مبذول ہوئی ہے۔ اسلام پسند سخت گیر گروپس غزہ میں جنگ کے معاملے پر اسرائیل کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتے رہے ہیں۔

اب جبکہ غزہ کا محاذ خاموش ہے، سوڈان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر زیادہ بات چیت ہو رہی ہے۔

جہادی انفلوائنسرز اب متحدہ عرب امارات کو متبادل کے طور پر استعمال کرتے ہوئے اپنے حامیوں کے غصے دلا رہے ہیں۔

یمن اور متحدہ عرب امارات

یمن میں ہونے والے دہشت گرد حملوں کی سب سے زیادہ ذمہ داری شدت پسند تنظیم القاعدہ کی یمن میں فعال شاخ قبول کرتی ہے، جسے عرب جزیرہ نما کی القاعدہ (اے کیو اے پی) کہا جاتا ہے۔

القاعدہ کا الزام ہے کہ متحدہ عرب امارات کے تعاون سے یمن میں کام کرنے والی جنوبی ٹرائنزیشنل کونسل (ایس ٹی سی)انھیں نشانہ بنا رہی ہے۔

متحدہ عرب امارات اور ایس ٹی سی اس وقت یمن میں موجود القاعدہ کے پروپیگنڈے اور پیغام رسانی کا محور ہے۔ ایس ٹی سی فورس کو یہ گروہ عمومی طور پر ’امارتیوں کے کرائے کا فوجی‘ کہتے ہیں۔

اے کیو اے پی نے چھ اکتوبر کو جاری ایک ویڈیو میں کہا کہ ’اماراتی قبضے کے خلاف مقبول جہاد‘ ہی یمن کے اتحاد اور وقار کے تحفظ کی ضمانت کا واحد راستہ ہے۔

اس ویڈیو میں کہا گیا ہے کہ ایس ٹی سی اور اسرائیل کے مابین تعلقات کی بحالی میں متحدہ عرب امارات نے معاون کا کردار ادا کیا ہے اور ایس ٹی سی کو یمن میں اسرائیل کا نیا خفیہ دوست کہا گیا ہے۔

القاعدہ کی یمن کی شاخ بھی ایس ٹی سی کو ’صیہونی ایجنٹ‘ قرار دیتی ہے۔

جزیرہ نماعرب میں القاعدہ کے پروپیگنڈے کا بنیادی محور اماراتی انٹیلجینس کی جانب سے جہادیوں کے رینک میں مخبر اور جاسوس نیٹ ورک بنانا بھی ہے۔

ایک ویڈیو میں ایسے مبینہ ثبوت پیش کیے گئے ہیں کہ مخبروں کو ’پرتعیش زندگی‘ اور بھاری معاوضہ مل رہا ہے جبکہ وہ متحدہ عرب امارات کے دورے بھی کرتے ہیں۔

جزیرہ نما عرب میں القاعدہ کا متحدہ عرب امارات پر حملوں کا اعلان

اے کیو اے پی وہ جہادی گروپ ہے جو مغربی ٹرانئزیشنل کونسل کا زیادہ مخالف ہے۔

سات نومبر کو اے کیو اے پی نے اپنے ایک بیان میں متحدہ عرب امارات کے عوام اور دنیا بھر کے مسلمانوں سے مطالبہ کیا کہ وہ سوڈان میں قتلِ عام کا بدلہ لینے کے لیے امارتی حکومت کے مفادات کو نشانہ بنائیں۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ خلیجی ریاست اسرائیل اور مغربی طاقتوں کے کہنے پر سوڈان میں مداخلت کر رہی ہے۔

اے کیو اے پی کی جانب سے اس ویڈیو کے جاری کرنے سے ایک روز قبل اُن کی مخالف جہادی تنظیم دولتِ اسلامیہ نے بھی ایسا ہی ایک بیان جاری کیا تھا۔

گروپ نے کہا کہ یہ تمام مسلمانوں کا مذہبی ’فرض‘ ہے، خواہ وہ متحدہ عرب امارات کے شہری ہوں، متحدہ عرب امارات میں مقیم ہوں یا بیرون ملک ’وہ بغیر کسی ہچکچاہٹکے حملے کریں‘ اور حکمران خاندان اور حکومت کو ہدف بنائیں۔

حال ہی میں لیبیا پر جہادیوں کی توجہ کم رہی ہے، لیکن متحدہ عرب امارات کی جانب سے مخصوص سیاسی طاقتور گروہوں کی دیرینہ حمایت نے یہاں بھی وقتاً فوقتاً بحث کو شروع کیا ہے۔

ابراہیمی معاہدے کی وسعت کا شبہ

سنہ 2020 کے ابراہیمی معاہدے کے تحت متحدہ عرب امارات، بحرین اور مراکش نے اسرائیل سے تعلقات کو مکمل طور بحال کیا۔

غزہ کا محاذٹھنڈا ہونے کے بعد اسلام پسند نظریات رکھنے والے گروہوں کا ماننا ہے کہ امریکہ ابرہیمی معاہدے کو وسعت دیتے ہوئے دیگر ممالک کو بھی اس میں شامل کرنے پر زورڈالے گا۔

متحدہ عرب امارات کے ابراہیمی معاہدے میں شمولیت کو بار بار نمایاں طور پر بیان کیا گیا ہے۔ جیسے وہ اس معاہدے میں دیگر ممالک کو شامل ہونے کی ترغیب دے رہا ہے یا مبینہ طور پر خطے میں مذموم اسرائیلی ایجنڈوں کی حمایت کر رہا ہے۔

ابراہیمی معاہدے نے اسلام پسند گرہوں کے پرانی نظریے کو تقویت دی ہے جس کے مطابق امریکہ اور اس کے اتحادیوںکی سازش ہے کہ ’عرب ممالک‘اسرائیل کے گرد ’دفاعی حصار‘ کا کردار ادا کریں۔

ایسے میں متحدہ عرب امارات کو عموماً ’صارف یا کلائینٹ ریاست‘ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سےمبینہ طور پر اسرائیلکا اپنا وجود کو برقرار رہ سکتا ہے۔

جزیرہ نما عرب میں القاعدہ کے رہنما ابراہیم القاوسی نے اگست 2020 میں جاری ایک ویڈیو میں ابراہیمی معاہدے کو اسلام اور مسلمانوں سے ’دھوکہ‘ قرار دیا تھا۔ اس حوالے سے اکتوبر 2020 میں شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ کے ترجمان ابو حمزہ القریشی نے ملتا جلتا بیان جاری کیا تھا۔

اسرائیل پر حماس کے 2023 کے حملے کے بعد اسرائیل سے تعلقات استوار کرنے والی یو اے ای جیسی خلیجی ریاستوں کے خلاف جہادیوں کی کئی ویڈیوز سامنے آئیں۔

ایسی ہی دسمبر 2023 میں القاعدہ کی ایک ویڈیو بھی ہے جس میں ’صیہونیوں‘ اور ان کے عرب ’اتحادیوں‘ کے خلاف حملوں کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

مخالف بیانیہ

جہادی گروہ اپنی مخالفت میں خلیجی تعاون تنظیم میں شامل ممالک میں موجود بادشاہت کے بارے میں پرانے الزامات دہرا رہے ہیں اور جہادی تنظیمیں ان ممالک کی قیادت کو آمرانہ اور اسلامی تعلیمات کے مخالف کے طور پر پیش کرتی ہیں۔

یہ عموماً متحدہ عرب امارات اور دیگر اسلامی ریاستوں پر الزام عائد کرتے ہیں کہ وہ مبینہ طور پر ’بے حیائی‘ اور غیر اسلامی رویوں کی اجازت دیتے ہیں۔

جی سی سی ریاستوں میں موجود امریکہ کے فوجی اڈے اور مغرب کے ساتھ قریبی دفاعی تعلقات بھی اسلام پسند سخت گیر نظریات رکھنے والوں کو اچھے نہیں لگتے۔

جہادی نظریات رکھنے والے سعودی عرب کے ولیِ عہد محمد بن سلمان اور متحدہ عرب امارات کے رہنما محمد بن زاید سے خصوصی طور پر نفرت کرتے ہیں کیونکہ وہ اُن کے جدت پر مبنی نظریے کو اسلامی اقدار کے خلاف سمجھتے ہیں۔

سنہ 2023 میں داعش کے حامی العظیم میڈیا گروپ نے عربی میں جاری میگزین نے کہا کہ متحدہ عرب امارات کے حکام نے شدت پسندوں کو پر ہجوم جیلوں میں قید کیا اور اُن پر مبینہ طور پر کیے گئے تشدد کی تفصیلات بیان کیں۔ اسی مضمون میں متحدہ عرب امارات پر الزام لگایا گیاکہ اس نے شریعت کو مسترد کرتے ہوئے امریکی اور مغربی پالیسیوں کے سامنے ’ہتھیار ڈالے‘ اور ’بے حیائی‘ کو عام کیا ہے۔

سنہ 2022 میں قطر میں ہونے والے فٹبال کے عالمی مقابلہ بھی وہ موقع تھا جب جہادیوں نے بھرپور توانائی کے ساتھ خلیجی ممالک کے شاہی خاندانوں کے خلاف مہم چلائیں۔

جیسا کہ آئی ایس کے حامی اکاؤنٹ سے ہونے والے پروپیگنڈے کے تحت کھیلوں کے اس مقابلے کی درجہ بندی کچھ اس طرح کی گئی کہ مغربی ممالککی ’مکمل بے حیائی‘ کی حوصلہ افزائی جزیرہ نما عرب کو اخلاقی طور پر ’بدعنوان‘ کر سکتی تھی۔

سخت گیر اسلام پسند جہادیوں کے خلاف کارروائیاں

حال ہی میں سخت گیر اسلامی نظریہ رکھنے والے جہادیوں نے شام میں اماراتی کارکن جاسم رشید الشمسی کی گرفتاری پر متحدہ عرب امارات کو شام میں مداخلت کرنے پر سخت تنبیہ کی ہے۔

مشہور اسلام پسند مصنف عُس السیرہ فی الشام نے دعویٰ کیا کہ ابوظہبی کا ایک ’سکیورٹی وفد‘ شام سے الشمسی کو واپس متحدہ عرب امارات لے جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ الشمسی کو سکیورٹی فراہم کرنے کے وعدوں کے تحت ترکی سے واپس شام لایا گیا تھا۔

دیگر اسلام پسند اکاؤنٹس نے شام کی حکومت کو خبردار کیا ہے کہ وہ متحدہ عرب امارات کے دباؤ پر اسلامی جہادیوں کو گرفتار نہ کریں۔

دوسروں نے اس موقع کو استعمال کرتے ہوئے جیش الاسلام کے رہنما عصام بوویدانی کے کیس پر بات کی جنھیں مبینہ طور پر اپریل 2025 میں متحدہ عرب امارات میں گرفتار کیا گیا تھا۔

متحدہ عرب امارات اور جی سی سی ممالک میں ہونے والی گرفتاریوں اور انھیں ہراساں کرنے کی اطلاعات بھی اسلام پسند جہادیوں کے گروپس میں اکثر موضوع بحث ہوتا ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US