امریکہ میں حکام نے وائٹ ہاؤس کے قریب نیشنل گارڈز کے دو اہلکاروں کو فائرنگ کر کے شدید زخمی کرنے والے 29 سالہ افغان شہری رحمان اللہ لکنوال کی تصویر جاری کرتے ہوئے تصدیق کی ہے کہ حملہ آور ماضی میں افغانستان میں امریکی خفیہ ایجنسی ’سی آئی اے‘ کے لیے کام کرتا رہا ہے۔
رحمان اللہ لکنوال افغانستان میں سی آئی اے کے لیے کام کرتے رہے ہیںامریکہ میں حکام نے وائٹ ہاؤس کے قریب نیشنل گارڈز کے دو اہلکاروں کو فائرنگ کر کے شدید زخمی کرنے والے 29 سالہ افغان شہری رحمان اللہ لکنوال کی تصویر جاری کرتے ہوئے تصدیق کی ہے کہ حملہ آور ماضی میں افغانستان میں امریکی خفیہ ایجنسی ’سی آئی اے‘ کے لیے کام کرتا رہا ہے۔
سی آئی اے کے ڈائریکٹر جان ریٹکلیف نے امریکہ میں بی بی سی کے پارٹنر ادارے سی بی ایس نیوز کو بتایا کہ مشتبہ شوٹر (رحمان اللہ) کو امریکہ آنے کی اجازت اس لیے دی گئی تھی کیونکہ وہ ماضی میں امریکی حکومت کے لیے کام کرتے رہے تھے۔
انھوں نے مزید کہا کہ ستمبر 2021 میں شوٹر کو ماضی میں اس کے امریکہ، بشمول سی آئی اے، کے لیے کیے گئے کام کی وجہ سے امریکہ لایا گیا تھا۔
جان ریٹکلیف نے کہا کہ ’افغانستان سے بائیڈن کے تباہ کن انخلا کے تناظر میں، بائیڈن انتظامیہ نے مبینہ شوٹر کو ستمبر 2021 میں امریکہ لانے کا یہ جواز پیش کیا کہ اُس نے امریکی حکومت، بشمول سی آئی اے کے ساتھ، قندھار میں ایک پارٹنر فورس کے رُکن کے طور پر کام کیا تھا۔‘
ایف بی آئی حکام نے فائرنگ کے واقعے میں زخمی ہونے والی نیشنل گارڈ کے دو اہلکاروں کی شناخت 20 سالہ سارہ بیکسٹارم اور 24 سالہ اینڈریو وولف کے طور پر کی ہے۔
اس حوالے سے تفصیلات بتاتے ہوئے ایف بی آئی ڈائریکٹر کیش پٹیل نے کہا کہ وہ حملہ آور کی رہائش گاہ تک بھی پہنچ چکے ہیں جہاں سے 'بہت سے الیکٹرانک آلات' بشمول موبائل فونز، لیب ٹاپس اور آئی پیڈز کو قبضے میں لیا گیا ہے اور ان کے تجزیے کا عمل جاری ہے۔
نیشنل گارڈ کے دو اہلکاروں کی شناخت 20 سالہ سارہ بیکسٹارم (دائیں) اور 24 سالہ اینڈریو وولف (بائیں) کے طور پر کی گئی ہےانھوں نے کہا کہ امریکی حکام شواہد کی روشنی میں امریکہ اور دنیا بھر میں تفتیش کی غرض سے ہر مقام تک جائیں گے۔
ایک پریس کانفرنس کے دوران یو ایس اٹارنی جینین پیرو نے بتایا کہ حملہ آور نے کارروائی کے لیے 257 سمتھ اینڈ ویسن ریوالور کا استعمال کیا ہے۔ اس حملے کا محرک کیا تھا؟ حکام کا کہنا ہے کہ یہ قبل از وقت ہو گا اور اس بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
انھوں نے کہا کہ حملہ آور واشنگٹن میں اپنی اہلیہ اور ’ہمارے خیال میں‘ پانچ بچوں کے ہمراہ رہائش پذیر تھا۔
اس سے قبل امریکہ کے محکمہ ہوم لینڈ سکیورٹی نے مشتبہ حملہ آور کی شناخت 29 سالہ افغان شہری رحمان اللہ لکنوال کے طور پر کی ہے۔
بی بی سی کے امریکہ میں پارٹنر ادارے 'سی بی ایس نیوز' کے مطابق مشتبہ حملہ آور نیشنل گارڈ کے ایک اہلکاروں کی جوابی کارروائی کے بعد زخمی حالت میں حراست میں لیے گئے اور اس وقت وہ ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔
امریکی حکام کے مطابق 29 سالہ مشتبہ حملہ آور رحمان اللہ ستمبر 2021 میں افغانستان سے امریکہ آئے تھے۔
محکمہ ہوم لینڈ سکیورٹی کی سیکریٹری کرسٹی نوم نے ’ایکس‘ پر کہا کہ مشتبہ حملہ آور 8 ستمبر 2021 کو افغان شہریوں کے لیے مختص بائیڈن دور کے پروگرام ’آپریشن الائیز ویلکم‘ کے تحت امریکا لائے گئے تھے۔
امریکی حکام حملہ آور کے بارے میں تفصیلات سے آگاہ کر رہے ہیںہوم لینڈ سکیورٹی کے مطابق اس پروگرام کے تحت ہزاروں ’انویٹیڈ‘ (وہ افراد جنھیں امریکہ لانے سے قبل اُن کا پس منظر اور سکیورٹی کی کلیئرنس نہیں کی گئی تھی) افغان شہریوں کو افغانستان سے امریکہ لایا گیا تھا۔
صدر ٹرمپنے بھی اپنے ایک ویڈیو پیغام میں مشتبہ حملہ آور کو 'ایک غیر ملکی جو افغانستان ، زمین پر جہنم، سے ہمارے ملک میں داخل ہوا' قرار دیا۔ ٹرمپ نے اسے ’دہشت گردی کا واقعہ‘ قرار دیا۔
سی بی ایس نیوز کو محکمہ ہوم لینڈ سکیورٹی کے ایک اہلکار نے بتایا کہ مشتبہ شخص کو ’انسانی ہمدردی کی بنیادوں‘ پر امریکہ لایا گیا تھا۔ ’آپریشن الائیز ویلکم‘ وہ اہم قانونی طریقہ کار تھا جس کے تحت بائیڈن انتظامیہ نے اگست 2021 میں افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد سینکڑوں افغان شہریوں کے ملک سے انخلا کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔
ان میں سے زیادہ تر افراد وہ تھے جنھوں نے گذشتہ 20 سال کے دوران افغانستان میں امریکہ اور اس کی افواج کی کسی نہ کسی صورت میں مدد کی تھی اور طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد انھیں ممکنہ خطرات لاحق تھے۔
سی بی ایس نیوز کے مطابق رحمان اللہ نے سنہ 2024 میں امریکہ میں پناہ کے لیے درخواست دائر کی جسے منظور کر لیا گیا اور فی الحال اُن کے گرین کارڈ کی درخواستزیر التوا ہے۔
بائیڈن انتظامیہ کے پروگرام کے تحت امریکہ لائے گئے بہت سے افغان شہریوں کو خصوصی امیگریشن ویزوں کا اجرا کیا تھا کیونکہ یہ وہ افراد تھے جنھوں نے گذشتہ 20 برسوں کے دوران افغانستان میں موجود امریکہ کی افواج کے ساتھ کام کیا گیا تھا۔
رحمان اللہ ستمبر 2021 میں افغانستان سے امریکہ آئے تھےاسی طرح کچھ افغان شہریوں کو عارضی انسانی ہمدردی سٹیٹس (جسے پیرول کہا جاتا ہے) پر امریکہ لایا گیا۔ جبکہ 8000 افراد کو ایک اور پروگرام ’ٹیمپریری پروٹیکٹڈ سٹیٹس‘ پر امریکہ لایا گیا، اس پرواگرام کو موجودہ صدر ٹرمپ نے رواں برس کے آغاز پر ختم کر دیا تھا۔
ڈی سی میٹروپولیٹن پولیس کے افسر جیف گیرول نے صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ ’تنہا حملہ آور‘ نے فائرآرم (بندوق) اٹھایا اورماس ٹرانزٹ سٹیشن پر گشت کرنے والے نیشنل گارڈ کے تین اہلکاروں پر حملہ کر دیا۔
سی بی ایس نیوز کو ذرائع نے بتایا کہ حملہ آور کی بندوق میں گولیوں کے چار راؤنڈ تھے اور ایک خاتون افسر اس کے حملے کا پہلا نشانہ بنیں۔ سی بی ایس نیوز کے مطابق خاتون اہلکار کو دو گولیاں لگیں اور وہ فی الفور گر گئی اور حملہ آور نے خاتون کی بندوق اٹھائی اور اس سے فائرنگ کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔
ایف بی آئی ڈائریکٹر کیش پٹیل کے مطابق زخمی ہونے والے نیشنل گارڈ کے اہلکار نازک حالت میں ہیں۔
یاد رہے کہ یہ واقعہ پیش آنے کے بعد امریکہ کے شہریت اور امیگریشن سروسز کے محکمے نے ’سکیورٹی اور جانچ کے پروٹوکولز‘ کے جائزے تک افغان شہریوں کی امیگریشن کی تمام درخواستوں پر کارروائی معطل کرنے کا اعلان کیا ہے۔
ایکس پر جاری ایک بیان میں محکمے کا کہنا ہے کہ اپنے ملک اور امریکی عوام کی حفاظت اُن کا واحد مشن ہے اور اسی مقصد کے تحت یہ فیصلہ لیا گیا ہے۔