غزہ میں حماس مخالف مسلح گروہ: کیا اسرائیل اپنے ’دشمن کے دشمن‘ کی مدد کر رہا ہے؟

غزہ میں حماس کا مقابلہ کرنے کے لیے حالیہ مہینوں میں بعض مسلح گروہ اُبھر کر سامنے آئے ہیں اور ان سے متعلق متعدد سوالات جنم لے رہے ہیں۔

غزہ میں حماس کا مقابلہ کرنے کے لیے حالیہ مہینوں میں بعض مسلح گروہ اُبھر کر سامنے آئے ہیں اور ان سے متعلق متعدد سوالات جنم لے رہے ہیں۔

ان گروہوں میں خاندان کی بنیاد پر بننے والے قبائلی گروہ، مجرمانہ گینگز اور نئے ملیشیا شامل ہیں، تاہم یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ ان میں سے کچھ کو اسرائیل کی حمایت بھی حاصل ہے۔ اس بارے میں حال ہی میں اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامن نیتن یاہو نے اعتراف بھی کیا ہے۔

کہا یہ بھی جا رہا ہے کہ فلسطینی انتظامیہ میں بھی شامل کُچھ عناصر خفیہ طور پر ان گروہوں کی مدد کرتے رہے ہیں۔ وہی فلسطینی انتظامیہ جو مقبوضہ مغربی کنارے کے کچھ حصوں پر حکومت کرتی ہے اور حماس کی سیاسی حریف بھی ہیں۔

لیکن یہ ملیشیا غزہ کے اُس 53 فیصد حصے میں اپنے اپنے مقامی یا آبائی علاقے میں کام کر رہے ہیں۔ یہ وہ علاقے ہیں جو اس وقت اسرائیلی افواج کے کنٹرول میں تو ہیں تاہم انھیں سرکاری طور پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امن منصوبے میں شامل نہیں کیا گیا۔

امریکی صدر کے امن منصوبے کے تحت بین الاقوامی استحکام فورس اور نئی تربیت یافتہ فلسطینی پولیس فورس کا تصور پیش کیا گیا تھا تاکہ معاہدے کے اگلے مرحلے میں غزہ کا کنٹرول سنبھالا جا سکے۔

سب سے بڑے ملیشیا گروہ میں سے ایک کی قیادت یاسر ابو شباب کر رہے ہیں، جن کی عوامی فورسز جنوبی شہر رفح کے قریب کام کرتی ہیں۔

سوشل میڈیا پر سامنے آنے والی ایک حالیہ ویڈیو میں ان کے نائب نے اس منصوبے کے تحت غزہ کا انتظام سنبھالنے کے ذمہ دار بین الاقوامی ادارے، امن کونسل، کے ساتھ مل کر کام کرنے کے بارے میں بات کی۔

حسام الاستل جو جنوبی شہر خان یونس کے قریب ’اینٹی ٹیرارسٹ سٹرائک فورس‘ نامی ملیشیا کی قیادت کرتے ہیں، نے اس ہفتے اسرائیلی میڈیا کو بتایا کہ ’امریکی نمائندوں‘ نے تصدیق کی ہے کہ ان کا گروہ غزہ کی آئندہ پولیس فورس میں اہم کردار ادا کرے گا۔

تاہم ایک امریکی عہدیدار نے کہا کہ اس وقت ان کے پاس اعلان کرنے کے لیے کوئی ایسی بات نہیں ہے۔

اس ماہ کے اوائل میں جب میں نے حسام سے پوچھا کہ کیا انھوں نے مستقبل کے بارے میں امریکی انتظامیہ سے بات کی ہے؟ تو وہ مسکرائے اور کہا کہ وہ جلد ہی تفصیلات سے سب کو آگاہ کر دیں گے۔

پھر میں نے اُن سے یہ سوال کیا کہ آیا اُن کے ساتھ ہونے والی بات چیت نے انھیں مطمعین یا خوش کیا ہے؟

انھوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ’ہاں‘۔

حسام الاستل ماضی میں فلسطینی اتھارٹی کے لیے کام کر چکے ہیں۔ ان کا گروہ چھوٹا سا ہے، یوں کہہ لیں کہ شاید چند درجن بھر جنگجو مگر ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ گروہ زیادہ پراعتماد دکھائی دیے رہا ہے۔ یہ گروہ خیموں پر مشتمل ایک ایسی بستی کا انتظام چلا رہے ہیں جو خان یونس کے قریب واقع ہے اور اس بستی میں ضروریاتِ زندگی کی تمام اشیا کی سپلائی کی جا رہی ہے۔

جب میں نے ان سے پوچھا کہ کیا اسرائیل انھیں امدادی اشیا فراہم یا سپلائی کر رہا ہے؟ تو حسام الاستل نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ’یوں کہہ لیں کہ یہ اس سوال کا جواب دینے کا مناسب وقت نہیں ہے۔ لیکن ہم اسرائیل کے ساتھ خوراک، ہتھیار یہاں تک کہ سب کچھ لانے کے لیے رابطہ کرتے ہیں۔‘

میں نے پوچھا کہ وہ ان چیزوں کی قیمت کیسے ادا کیسے کرتے ہیں؟

انھوں نے جواب دیا کہ ’دنیا بھر کے لوگ ہماری مدد کرتے ہیں۔ سب کچھ اسرائیل سے نہیں آتا۔‘ وہ کہتے ہیں کہ اسرائیل ہی واحد ملک نہیں ہے کہ جہاں سے مدد ملتی ہے۔ ہمیں یہ بھی سُننے کو ملتا ہے کہ ہم اسرائیل کے ایجنٹ ہیں۔ ہم اسرائیل کے ایجنٹ نہیں ہیں۔‘

انھوں نے مجھے بتایا کہ درجنوں خاندان ان کی نئی بستی میں آ کر آباد ہوئے ہیں، جو جنگ بندی کے معاہدے کے تحت اس وقت اسرائیلی کنٹرول میں موجود علاقے کو ظاہر کرنے والی پیلی لائن کے اندر واقع ہے اور ہر ہفتے یہاں آنے والے لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’ہم جنگ کی تباہ کاریوں کے بعد نئے غزہ میں اُمید کی ایک کرن ثابت ہوں گے۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ’ہمیں فلسطینی اتھارٹی، امریکی انتظامیہ یا کسی بھی ایسے فریق کے ساتھ تعاون کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں جو ہمارے ساتھ کھڑا ہو۔ ہم حماس کا متبادل ہیں۔‘

ییلو لائن یا پیلی لکیر کی دوسری جانب

لیکن بہت سے غزہ کے وہ رہنے والے کہ جن میں ایسے افراد بھی شامل ہیں کہ جو حماس سے مایوس ہو چکے ہیں، ان چھوٹے اور بٹے ہوئے یا منتشر مسلح گروہوں کو دیے گئے نئے اختیار سے ناخوش ہیں۔

اس وقت غزہ شہر میں رہنے والے صالح سویدن نے کہا کہ ’صرف چند ایسے مرد، جن کا نہ کوئی دین ہے، نہ ایمان اور نہ اخلاق، ان مجرموں کا ساتھ دے رہے ہیں۔‘ اُن کا کہنا ہے کہ ’غزہ کی حکومت ہم پر حکمرانی کرتی تھی اور اگرچہ شہریوں پر بہت بوجھ تھا لیکن حکومت جیسی بھی ہو مسلح گروہوں یا گینگز سے بہتر ہوتی ہے۔‘

غزہ شہر کے ایک اور رہائشی ظاہر دولہ نے کہا کہ ’یہ گروہ جو قبضے یعنی اسرائیل کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں جنگ کی سب سے بدترین پیداوار ہیں ان میں شامل ہونا نہ صرف خطرناک ہے بلکہ یہ غداری ہے۔‘

31 سالہ مونتاصر مسعود نے مجھے بتایا کہ وہ اپنی اہلیہ اور چار بچوں کے ساتھ دو ماہ قبل الاستل کی نئی خیمہ بستی میں گئے۔ وہ رات کے وقت اسرائیلی انتظامیہ سے رابطے اور اجازت کے بعد پیلی لکیر عبور کر کے آئے تاکہ حماس سے بچ سکیں۔

لیکن انھوں نے کہا کہ ان کے وہ رشتہ دار جو حماس کے زیرِ کنٹرول علاقوں میں رہے اس فیصلے پر تنقید کر رہے ہیں۔

انھوں نے مُجھے بتایا کہ ’وہ ہمیں ہراساں کر رہے ہیں، ہمیں کہتے ہیں کہ جو ہم کر رہے ہیں وہ غلط ہے اور اس کا کوئی مستقبل نہیں۔‘

جب ہم فون پر بات کر رہے تھے تو ہمارے اردگرد شدید فائرنگ کی آواز بار بار گفتگو میں خلل ڈال رہی تھی۔

انھوں نے وضاحت کی کہ ’یہ اسرائیلی فوج ہے جو قریب ہے۔‘

’لیکن یہ کوئی مسئلہ نہیں کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ ہم ان کا ہدف نہیں ہیں۔‘

خطرناک اسرائیلی جوا

اب متعدد مسلح گروہ حماس کا مقابلہ کر رہے ہیں جن کے باہمی تعلقات پیچیدہ اور ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔

مثال کے طور پر ابو شباب کے گروہ پر الزام لگایا گیا ہے کہ اس نے جنگ کے دوران غزہ بھیجے گئے امدادی ٹرکوں کو لوٹا اور اسرائیل میں ایسی اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں کہ اس کے دو ارکان کے ماضی میں خود ساختہ دولتِ اسلامیہ گروہ سے روابط رہے ہیں۔

اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامن نیتن یاہو نے گزشتہ ماہ ان خبروں کے جواب میں کہا کہ ان کا ملک خفیہ طور پر ملیشیا گروہوں کی حمایت کر رہا تھا۔ اُن کا کہنا تھا کہ ’یہ اچھی بات ہے۔ یہ فوجیوں کی جانیں بچاتا ہے۔ اس میں کیا غلط ہے؟‘

انھوں نے مزید کہا کہ اس معاملے پر بات کرنے سے یا حقائق کو ظاہر کرنے سے ’صرف حماس کی مدد‘ ہوئی ہے۔

BBC
BBC

نیتن یاہو نے اصرار کیا ہے کہ غزہ پر نہ حماس حکومت کرے گی اور نہ ہی اس کی حریف فلسطینی اتھارٹی۔ امریکی امن منصوبے کے مطابق فلسطینیوں کی ایک تکنیکی اور غیر سیاسی کمیٹی غزہ کا قلیل المدتی انتظام بین الاقوامی نگرانی میں چلائے گی۔ جب تک کہ فلسطینی اتھارٹی کی اصلاحات مکمل نہیں ہو جاتیں۔

لیکن ایک اعلیٰ فلسطینی عہدیدار نے استل کے اس دعوے کو مسترد کر دیا ہے کہ اس کے جنگجو وہاں کی مستقبل کی پولیس فورس کا حصہ بنیں گے۔

فلسطینی اتھارٹی کی سکیورٹی فورسز کے ترجمان جنرل انور رجب نے بی بی سی کو بتایا کہ غزہ کے مسلح گروہوں کے افراد جن میں سے کچھ کو اسرائیل کی حمایت بھی حاصل ہے کا وسیع پیمانے پر نظام میں شامل ہونا ممکن نہیں۔

انھوں نے مغربی کنارے کے شہر راملہ میں ایک انٹرویو میں کہا کہ ’اسرائیل اپنی مخصوص سیاسی اور سکیورٹی وجوہات کی بنا پر ان ملیشیا گروہوں کے انضمام کا مطالبہ کر سکتا ہے۔‘

’لیکن اسرائیل کے مطالبات لازمی طور پر فلسطینیوں کے مفاد میں نہیں ہوتے۔ اسرائیل چاہتا ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح غزہ کی پٹی پر اپنا کنٹرول برقرار رکھے۔‘

’انھوں نے تاریخ سے سبق نہیں سیکھا‘

غزہ کے نئے ملیشیا گروہوں کا مستقبل ایک پائیدار امن کے تحت کیا ہوگا؟ اس سوال کا جواب تاحال نہیں مل پایا ہے۔

اسرائیلی فوجی انٹیلیجنس کے سابق فلسطینی امور کے سربراہ مائیکل ملشٹین کے مطابق ’اسرائیل کا اپنے دشمن کے دشمن کو غزہ میں مدد فراہم کرنے کا فیصلہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اس نے تاریخ سے سبق نہیں سیکھا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’یہ وہی خطرہ ہے کہ جس کا امریکیوں نے 30 سال قبل افغانستان میں سامنا کیا تھا۔

’انھوں نے (امریکی انتظامیہ) سوویت یونین کے خلاف طالبان کی حمایت کی، پھر طالبان نے امریکیوں سے ہی حاصل ہونے والا اسلحہ انھیں یعنی امریکی فوج کے خلاف ہی استعمال کیا۔‘

انھوں نے کہا کہ اسرائیل اب مشکوک ماضی والے گروہوں پر بھروسہ کر رہا ہے اس امید میں کہ وہ حماس کے لیے سیاسی، سماجی اور نظریاتی متبادل فراہم کریں گے۔

انھوں نے کہا کہ ’ایسا وقت آئے گا جب وہ اپنی بندوقیں جو انھیں اسرائیل سے ملی ہیں، آئی ڈی ایف کے خلاف ہی استعمال کریں گے۔‘

BBC
BBC

حماس کو کمزور کرنے میں مدد دینے کے علاوہ اسرائیل کے مسلح گروہوں کی حمایت فلسطینی اپوزیشن کو تقسیم کرنے میں آسانی پیدا کر سکتی ہے اور اس کی افواج کے انخلا کے بعد غزہ میں اثر و رسوخ برقرار رکھ سکتی ہے۔

کچھ ناقدین نشاندہی کرتے ہیں کہ مختلف مقامی گروہوں کو ہتھیار فراہم کرنے سے حماس کو ہتھیار ڈالنے پر راضی کرنا اور بین الاقوامی افواج کے لیے غزہ میں سکیورٹی کی ذمہ داری سنبھالنا مشکل ہو جائے گا۔

لیکن اسرائیل کے لیے خطرہ یہ ہے کہ وہی گروہ جنھیں وہ ہتھیار فراہم کر رہا ہے ایک دن نئے دشمن بن جائیں جن کا سامنا اسے کرنا پڑے۔

چالیس سال قبل اس نے غزہ میں ایک انتہا پسند اسلامی تنظیم کی حمایت کی تاکہ فلسطینی رہنما یاسر عرفات کی بڑھتی ہوئی طاقت کا مقابلہ کیا جا سکے۔

وہ تنظیم بعد میں ’حماس‘ بن گئی۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US