پاکستان اور چین نے خدشات ظاہر کیے ہیں کہ بھارتی خفیہ ایجنسی RAW طالبان کو خصوصی ’’کامی akazi ڈرونز‘‘ فراہم کر رہی ہے۔ ان ڈرونز کو حالیہ جھڑپ میں استعمال کیا گیا، جس میں 2 چینی کارکن ہلاک ہوئے۔
غیر ملکی ٹی وی کو موصول ہونے والی مصدقہ اطلاعات کے مطابق گزشتہ چھ ماہ کے دوران تاجکستان اور افغانستان کی سرحد پر کم از کم 10 شدید مسلح جھڑپیں ریکارڈ کی گئی ہیں، جن میں جدید جنگی ہتھیاروں اور ڈرون ٹیکنالوجی کے استعمال کے شواہد سامنے آئے ہیں۔
ذرائع کے مطابق طالبان نے تاجک۔افغان سرحد کے قریب ایک حملے میں ایسے ڈرونز استعمال کیے جو عمارتوں یا مقامات سے براہ راست ٹکرانے کے لیے تیار کیے جاتے ہیں۔ حملے کے بعد دونوں ممالک کے سیکیورٹی اداروں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔
مصدقہ سفارتی اور انٹیلی جنس ذرائع کے مطابق، بھارت مبینہ طور پر TTP، BLA اور دیگر ممنوعہ گروہوں کو جدید کواڈ کاپٹر فراہم کر رہا ہے۔ یہ ڈرونز خلیجی ریاستوں کے ذریعے پراکسی نیٹ ورک سے منتقل کیے جاتے ہیں۔ ان کواڈ کاپٹرز پر IED نصب کرکے انہیں کامی akazi ڈرون میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
ان طریقوں کو روس ـ یوکرین جنگ میں استعمال کرکے تباہ کن نتائج حاصل کیے گئے، اور اب انہی ماڈلز کو خطے میں غیر مستحکم گروہ اپنا رہے ہیں۔
سیکیورٹی تجزیہ کاروں کے مطابق ایسے اقدامات پاکستان کے صبر اور اسٹریٹیجک ریڈ لائنز کو چیلنج کر رہے ہیں، سرحدی خطے میں عدم استحکام کو بڑھا رہے ہیں، اور مستقبل میں بھارت کے لیے بھی سنگین نتائج سامنے لانے کا باعث بن سکتے ہیں۔
پاکستانی حکام نے خبردار کیا ہے کہ اگر علاقائی پراکسیز کو جدید ہتھیاروں کی فراہمی جاری رہی تو خطے کی سلامتی کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس نئی ہائبرڈ وارفیئر لہر نے جنوبی ایشیا میں ایک نئے محاذ کو جنم دے دیا ہے، جس کے اثرات آنے والے مہینوں میں مزید واضح ہوں گے۔