برطانیہ میں لیبر پارٹی کی رکن اور سابق وزیر ٹیولپ صدیق کو بنگلہ دیش میں دو سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ بنگلہ دیش میں غیر حاضری کے باوجود انھیں اور دیگر 16 افراد کو بدعنوانی کے مقدمے کا سامنا تھا۔
ٹیولپ صدیق سنہ 2015 سے لیبر پارٹی کی ٹکٹ پر پارلیمنٹ کی رُکن منتخب ہو رہی ہیںبرطانیہ میں لیبر پارٹی کی رکن اور سابق وزیر ٹیولپ صدیق کو بنگلہ دیش میں دو سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ بنگلہ دیش میں غیر حاضری کے باوجود انھیں اور دیگر 16 افراد کو بدعنوانی کے مقدمے کا سامنا تھا۔
انھیں اس الزام میں قصوروار قرار دیا گیا کہ انھوں نے اپنی خالہ اور بنگلہ دیش کی سابق وزیرِاعظم شیخ حسینہ کے ذریعے اثر و رسوخ حاصل کر کے دارالحکومت ڈھاکہ کے نواح میں اپنی فیملی کے لیے پلاٹ حاصل کیا۔ لندن میں مقیم صدیق اس الزام کی تردید کرتی ہیں۔ یہ سمجھا جا رہا ہے کہ وہ بنگلہ دیش میں کبھی یہ سزا نہیں کاٹیں گی۔
ہیمپسٹڈ اور ہائی گیٹ سے منتخب رکنِ پارلیمنٹ اب بھی بنگلہ دیش میں کئی زیر التوا مقدمات کا سامنا کر رہی ہیں۔
شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد بنگلہ دیش میں پراسیکیوٹرز نے سابق رہنما، ان کے ساتھیوں اور اہلِ خانہ کے خلاف کئی وسیع قانونی کارروائیاں شروع کی ہیں۔
صدیق سے متعلق مقدمہ اگست سے ڈھاکا میں چل رہا تھا۔ انھوں نے جنوری میں اپنی خالہ سے تعلقات پر تنازع کے باعث وزیر کے عہدے سے استعفیٰ دیا تھا۔
عدالتی دستاویزات میں دعویٰ کیا گیا کہ صدیق نے 'اپنی طاقت استعمال کرتے ہوئے اپنی خالہ اور سابق وزیرِاعظم شیخ حسینہ کو متاثر کیا تاکہ اپنی والدہ ریحانہ صدیق، بہن عظمیٰ صدیق اور بھائی ردوان صدیق کے لیے زمین کا پلاٹ حاصل کر سکیں۔'
بنگلہ دیش کے اینٹی کرپشن کمیشن (اے سی سی) کے ایک پراسیکیوٹر نے کہا تھا کہ صدیق کو بنگلہ دیشی شہری کے طور پر اس لیے مقدمے میں شامل کیا گیا کیونکہ حکام نے ان کا بنگلہ دیشی پاسپورٹ، شناختی کارڈ اور ٹیکس نمبر حاصل کر لیا تھا۔
صدیق کے وکلا نے اس کی تردید کرتے ہوئے اخبار فنانشل ٹائمز کو بتایا کہ ان کے پاس 'کبھی شناختی کارڈ یا ووٹر آئی ڈی نہیں رہا' اور 'بچپن کے بعد سے پاسپورٹ نہیں رکھا۔'
جج ربیع الاسلام نے انھیں دو سال قید اور ایک لاکھ بنگلہ دیشی ٹکا (تقریباً 821 امریکی ڈالر) جرمانے کی سزا سنائی۔ اگر وہ ادائیگی میں ناکام رہیں تو مزید چھ ماہ سزا میں شامل کیے جائیں گے۔
مقدمے کے آغاز پر رکنِ پارلیمنٹ نے کہا تھا کہ پراسیکیوٹرز نے 'جھوٹے اور بدنیتی پر مبنی الزامات پھیلائے ہیں جو میڈیا کو دیے گئے لیکن کبھی باضابطہ طور پر مجھے نہیں بتائے گئے۔'
ان کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا: 'میں ابتدا سے واضح رہی ہوں کہ میں نے کچھ غلط نہیں کیا اور میرے سامنے پیش کیے گئے کسی بھی قابلِ اعتبار ثبوت کا جواب دوں گی۔ سیاسی پوائنٹس حاصل کرنے کے لیے میرا نام خراب کرنا بے بنیاد اور نقصان دہ ہے۔'
فیصلہ سنائے جانے کے بعد انھوں نے عوامی طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
لیبر پارٹی کے ترجمان نے کہا کہ پارٹی اس فیصلے کو تسلیم نہیں کر سکتی۔ ترجمان نے کہا کہ 'جیسا کہ رپورٹ کیا گیا ہے، معتبر سینئر قانونی ماہرین نے واضح کیا ہے کہ ٹیولپ صدیق کو اس مقدمے میں منصفانہ قانونی عمل تک رسائی نہیں ملی اور انہیں کبھی الزامات کی تفصیلات سے آگاہ نہیں کیا گیا۔'
'یہ اس کے باوجود ہے کہ ان کی قانونی ٹیم نے بار بار بنگلہ دیشی حکام سے درخواستیں کی ہیں۔ کسی بھی الزام کا سامنا کرنے والے کو ہمیشہ قانونی نمائندگی کا حق دیا جانا چاہیے۔'
یہ سمجھا جاتا ہے کہ صدیق کسی تحقیقات یا پارٹی کی تادیبی کارروائی کا سامنا نہیں کر رہیں اور وہ لیبر پارٹی کی رکنیت اور ہاؤس آف کامنز میں لیبر پارٹی کی حمایت برقرار رکھتی ہیں۔
گذشتہ ہفتے سینیئر وکلا کے ایک گروپ نے برطانیہ میں بنگلہ دیشی نمائندے کے ساتھ مقدمے کے طریقہ کار پر تشویش ظاہر کی۔
اس بیان پر دستخط کرنے والوں میں سابق جسٹس سیکریٹری رابرٹ بکلینڈ، سابق اٹارنی جنرل ڈومینک گریو، اور لیڈی شیری بلئیر شامل تھیں، جو انسانی حقوق کی وکیل اور سابق وزیرِاعظم سر ٹونی بلئیر کی اہلیہ ہیں۔
گارڈین کے مطابق ایک خط میں انھوں نے کہا کہ صدیق مقدمے کے دوران مناسب قانونی نمائندگی حاصل نہیں کر سکیں، اور مزید کہا: 'ایسا عمل مقدمہ چلانے کا مصنوعی، من گھڑت اور غیر منصفانہ طریقہ ہے۔'
جنوری میں برطانوی کابینہ کی رکن ٹیولپ صدیق نے بنگلہ دیش میں اپنے خلاف بدعنوانی کے مقدمے کی تحقیقات کی وجہ سے استعفیٰ دیا تھا برطانوی کابینہ سے استعفیٰ
جنوری میں برطانوی کابینہ کی رکن ٹیولپ صدیق نے بنگلہ دیش میں اپنے خلاف بدعنوانی کے مقدمے کی تحقیقات کی وجہ سے استعفیٰ دیا تھا۔
42 سالہ ٹیولپ صدیق برطانوی وزارت خزانہ میں اقتصادی وزیر تھیں اور وہ بنگلہ دیش میں گذشتہ برس عوامی احتجاج کے بعد حکومت چھوڑنے والی سابق وزیرِاعظم شیخ حسینہ واجد کی بھانجی ہیں۔
ٹیولپ صدیق پر الزام ہے کہ انھوں نے سنہ 2013 میں بنگلہ دیش اور روس کے درمیان ایک معاہدہ کروایا جس کے باعث بنگلہ دیش میں نیوکلیئر پاور پلانٹ کی کُل قیمت میں اضافہ ہوا۔
ٹیولپ صدیق کے قریبی ذرائع نے الزامات کو ’جھوٹا‘ قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ یہ ’مکمل طور پر سیاسی‘ الزامات ہیں جن کا مقصد ان کی خالہ شیخ حسینہ واجد کو نقصان پہنچانا ہے۔
رواں برس پُرتشدد مظاہروں کے دوران شیخ حسینہ واجد کی حکومت ختم ہوئی تھیٹیولپ صدیق کا نام بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کی حکومت کے دوران بدعنوانی کی تحقیقات کے حوالے سے سامنے آیا ہے اور الزام لگایا گیا ہے کہ بنگلہ دیش میں ان کا خاندان مبینہ طور پر تین اعشاریہ نو ارب پاؤنڈ کی خُورد بُرد میں ملوث ہے۔
برطانوی وزیر کے طور پر خدمات انجام دینے کے دوران، ٹیولپ کا کام ملک کی مالیاتی منڈیوں میں ہونے والی بے ضابطگیوں سے نمٹنا بھی تھا۔
بنگلہ دیشی نژاد وزیر کی جانب سے وزارت چھوڑنے کا فیصلہ بنگلہ دیش میں بدعنوانی کی ایک اور تحقیقات میں شامل کیے جانے کے بعد کیا گیا۔
ٹیولپ کا استعفیٰ قبول کرتے ہوئے برطانوی وزیراعظم کیئر سٹارمر نے کہا کہ ان کے لیے دروازے ہمیشہ کھلے رہیں گے۔
ادھر برطانوی وزیر اعظم کے مشیروں سر لاؤری میگنس نے کہا ہے کہ انھیں 'بےضابطگیوں کے ثبوت' نہیں ملے تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ٹیولپ کو اپنی خالہ کے ساتھ تعلقات کی وجہ سے اپنی ساکھ کو پہنچنے والے خطرے سے ہوشیار رہنا چاہیے تھا۔
ٹیولپ صدیق کا خاندانی پسِ منظر
ٹیولپ صدیق سنہ 2015 سے لیبر پارٹی کی ٹکٹ پر پارلیمنٹ کی رُکن منتخب ہو رہی ہیں۔
ان کے نانا شیخ مجیب الرحمان بنگلہ دیش کے پہلے صدر تھے۔ 1975 میں جب ڈھاکہ میں فوجی بغاوت ہوئی تو مجیب الرحمان اور ان کے خاندان کے بیشتر افراد مارے گئے تاہم ٹیولپ کی والدہ ریحانہ اور ان کی بہن شیخ حسینہ بیرون ملک ہونے کی وجہ سے بچ گئی تھیں۔
ان کی والدہ کو برطانیہ نے اس وقت سیاسی پناہ دی جب وہ بہت چھوٹی تھیں۔
ان کے والد ڈھاکہ میں ایک یونیورسٹی کے پروفیسر تھے اور ان کی ٹیولپ کی والدہ سے لندن میں ملاقات ہوئی تھی جہاں انھوں نے شادی کرلی اور اپنے خاندان کو لندن منتقل کردیا۔
ٹیولپ صدیق کے مطابق ان کی پرورش بطور ایک مسلمان ہوئی تھی اور ان کے خاندان نے 'کثیرالثقافتی برطانیہ کو اپنا لیا۔'
بچپن میں انھوں نے نیلسن منڈیلا، بِل کلنٹن اور مدر ٹریسا سے بھی ملاقاتیں کی تھیں اور ان کے خاندان کو وائٹ ہاؤس بھی مدعو کیا گیا تھا۔
بنگلہ دیش میں جاری تحقیقات بوبی حجاج کے الزامات کے بعد شروع ہوئی تھیں جو کہ شیخ حسینہ کے دیرینہ سیاسی مخالف ہیںٹیولپ صدیق نے 16 برس کی عمر میں لیبر پارٹی میں شمولیت اختیار کی تھی۔ سیاست میں متحرک ہونے سے قبل وہ ایمنیسٹی انٹرنیشنل، سیو دا چلڈرن اور دا گریٹ لندن اتھارٹی کے ساتھ کام کر چکی تھیں۔
سنہ 2017 میں چینل 4 کے ایک انٹرویو کے دوران میزبان نے ٹیولپ صدیق سے پوچھا تھا کہ انھوں نے بنگلہ دیش میں کبھی اپنی خالہ کو چیلنج کیوں نہیں کیا جن پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام ہے۔
اس بحث کے بعد پروگرام کے ایڈیٹر نے شکایت کی تھی کہ ٹیولپ صدیق کا رویہ ایک حاملہ پروڈیوسر کے ساتھ ’دھمکی آمیز‘ تھا، جس کے بعد ٹیولپ صدیق نے اپنے رویے پر معافی مانگ لی تھی۔