اسلام آباد پولیس کے اہلکاروں کی مبینہ بدعنوانی اور شہری پر جھوٹا مقدمہ بنانے کا معاملہ انکوائری رپورٹ سامنے آنے کے بعد سنگین رخ اختیار کر گیا ہے۔
آئی جی اسلام آباد کے احکامات پر کی جانے والی انکوائری میں انکشاف ہوا ہے کہ اسلحہ برآمدگی کیس میں پولیس نے شہری سے 40 لاکھ روپے رشوت طلب کی اور اس کے خلاف بارودی مواد اور ہیروئن خود شامل کی۔
رپورٹ کے مطابق شہری قانونی اسلحہ لے کر جا رہا تھا، مگر پولیس نے اسے چھوٹے مقدمے میں الجھانے کے بعد رشوت طلب کی۔ انکوائری میں ثابت ہوا کہ پولیس ٹیم نے اسلحہ خود شہری کی گاڑی میں منتقل کیا اور مقدمے میں غلط بیانی سے کام لیا۔
مزید برآں، ایف آئی آر میں گاڑی کا نمبر، انجن نمبر اور چیسز نمبر جیسے بنیادی نکات شامل تک نہیں کیے گئے، جس سے جان بوجھ کر کیس کو مشکوک بنانے کی کوشش سامنے آئی۔ انکوائری نے یہ بھی انکشاف کیا کہ ایف آئی آر میں ڈیوٹی سے غیر حاضر اہلکاروں کے نام بھی درج کیے گئے جبکہ کارروائی کیلیے جعلی سپیشل انفارمر کا بہانہ بنایا گیا۔
رپورٹ کے مطابق انسپکٹر شبیر تنولی، جو اس کارروائی کا مرکزی کردار تھا، ریٹائرمنٹ لیکر صورتحال سے بچنے کی کوشش کر چکا ہے۔ انکوائری ٹیم نے ایف آئی علی محمد کے کردار پر بھی سوالات اٹھائے ہیں اور اس بات کی نشاندہی کی کہ اعلیٰ افسران کو واقعے سے متعلق کوئی باضابطہ اطلاع نہیں دی گئی۔
انکوائری کمیٹی نے متعلقہ اہلکاروں کے خلاف سخت محکمانہ کارروائی اور سزا کی سفارش کردی ہے۔
ترجمان پولیس نے موقف اختیار کیا ہے کہ شہری کو جھوٹے مقدمے میں ملوث کرنے والے اہلکاروں کو مثالی اور سخت سزا دی جائے گی تاکہ آئندہ کوئی اہلکار اس قسم کی غیر قانونی کارروائی کا سوچ بھی نہ سکے۔