بھارتی کرکٹ بورڈ کو ان کے نامناسب فیصلوں کی وجہ سے شدید تنقید اور شرمندگی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
بدھ کو بھارت اور ساؤتھ افریقہ کا چوتھا ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل بغیر ایک بال ہوئے ترک کردیا گیا جس سے بھارتی کرکٹ بورڈ کی کافی جگ ہنسائی ہوئی ہے۔
سابق بھارتی کھلاڑیوں، میڈیا اور کرکٹ فینز نے بی سی سی آئی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے سوالات اٹھائے ہیں کہ یہ جانتے ہوئے کہ بھارت شمال کے شہروں میں دسمبر میں ٹھنڈے موسم، دھند اور کور کی وجہ سے میچ کرانا ناممکن ہے تو یہ میچ لکھنؤ میں کیوں رکھا گیا؟
تنقید یہ بھی ہو رہی ہے کہ ایسے موسم میں بھارتی کرکٹ بورڈ نے پچھلا میچ بھی چندی گڑھ میں کیوں کرایا تھا؟ جبکہ وہاں بھی موسم بہت خراب تھا۔
کرکٹ کی تاریخ میں صرف ایک ٹیسٹ میچ آج تک دھند کی وجہ سے نہ ہوسکا اور یہ 1998 میں ہوا جب پاکستان اور زمبابوے کا میچ فیصل آباد میں میچ نہ ہو پایا۔
ناقدین نے یہ بات بھی اٹھائی ہے کہ اس وقت بھارت کے کئی شہروں میں فضائی آلودگی خطرناک حد سے بھی بڑھ چکی ہے اور یہی حال لکھنؤ میں بھی تھا اور بی سی سی آئی کو اس بات کا پتہ تھا۔ بی سی سی آئی پر یہ بھی الزام عائد ہو رہا ہے کہ انہوں نے ساؤتھ افریقہ کے خلاف میچز چندی گڑھ اور لکھنؤ میں صرف اس لیے رکھے کہ وہ اپنے کچھ ممبران کو خوش کرنا چاہ رہے تھے۔ وجہ جو بھی تھی لکھنؤ میں جو ہوا اس سے بھارتی کرکٹ کو بہت نقصان پہنچا ہے۔
سوشل میڈیا پر اس بات کا بھی مذاق اڑایا جا رہا ہے کہ لکھنؤ میں فضائی آلودگی، دھند، کور کا جو حال تھا یہ جانتے بوجھتے کہ میچ ہو ہی نہیں سکتا تھا پھر بھی ایمپائرز نے ڈرامائی انداز میں کوئی چھ دفعہ گراؤنڈ پر آکر معائنہ کیا کہ میچ کب شروع کریں۔
تماشائیوں نے بی سی سی آئی سے مطالبہ کیا ہے کہ جو انہوں نے ٹکٹ خریدے تھے اس کی رقم ان کو واپس دی جائے۔ کچھ دن پہلے بھارت کو پہلے ہی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا جب دنیا کے عظیم فٹبالر لیونل میسی کی تقریبات میں بد نظمی عروج پر پہنچ گئی اور کلکتہ میں تو میںسی گراؤنڈ چھوڑ کر چلے گئے۔