ہم میں سے بہت سے لوگوں کے لیے پلاسٹک کے ڈبے روزمرہ کی زندگی کا حصہ ہیں۔ ہم اسے ذخیرہ کرنے، فریج میں رکھنے، گرم کرنے اور کھانے کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ لیکن کچھ سائنسدانوں کو تشویش ہے کہ پلاسٹک میں موجود کیمیکلز ہمارے جسموں کو نقصان پہنچانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
یہ عین ممکن ہے کہ آپدفتر میں سینڈوچز یا اپنا کھانا لے جانے کے لیے پلاسٹک کے ڈبوں کا استعمال کر رہے ہوں یا گھر میں کھانا فریزر میں محفوظ کرنے کے لیے بھی انھی ڈبوں کا استعمال کر رہے ہوں۔ بہت سے افراد ایسے بھی ہیں جو پلاسٹک کے ڈبوں یا پلیٹوں میں ہی کھانا مائیکروویو میں گرم بھی کر لیتے ہیں۔
لیکن کیا ان سب مقاصد کے لیے پلاسٹک کے ڈبوں یا برتنوں کا استعمال صحت کے لیے محفوظ ہے؟
ہم میں سے بہت سے لوگوں کے لیے پلاسٹک کے ڈبے روزمرہ کی زندگی کا حصہ ہیں۔ ہم ان ڈبوں کو کھانے پینے کی اشیا رکھنے اور کھانے کی ایک جگہ سے دوسری جگہ ترسیل کے لیے عموماً استعمال کرتے ہیں۔ فوڈ ڈیلیوری والے حضرات بھی انھی پلاسٹ کے ڈبوں میں ہمیں کھانا فراہم کرتے ہیں۔
لیکن کچھ سائنسدانوں کو تشویش ہے کہ پلاسٹک میں موجود کیمیکلز ہمارے جسموں کو نقصان پہنچانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
ایک تحقیق سے پتا چلا ہے کہ پلاسٹک کی اشیا بنانے کے لیے استعمال ہونے والے مضر صحت اجزا ہمارے کھانے اور مشروبات میں شامل سکتے ہیں۔
لیکن پلاسٹک کے ڈبے بنانے والے اور فوڈ سیفٹی حکام کا دعویٰ ہے کہ یہ مقدار اتنی معمولی ہوتی ہے کہ اس کا انسانی صحت پر کوئی خاص منفی اثر نہیں پڑے گا۔
فوڈ سٹینڈرڈز ایجنسی کے ذریعہ تیار کردہ رہنما اصول یہ بتاتے ہیں کہ کھانا سٹور کرنے کے لیے استعمال ہونے والی پلاسٹک کی تیاری میں کون سے اجزا کو استعمال کرنا چاہیے اور کون سے اجزا کو استعمال نہیں کرنا چاہیے۔
ان ضوابط کے تحت مینوفیکچررز کے لیے ایسے اجزا کا استعمال کرنا غیر قانونی ہے جو کیمیکلز کو اس حد تک چھوڑتے ہیں کہ وہ کھانے کے لیے نقصان دہ ہوں۔
تاہم کچھ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ان ضوابط کو نافذ نہیں کیا جا رہا ہے اور ان دعوؤں کی تصدیق کے لیے کافی اعداد و شمار موجود نہیں ہیں کہ پلاسٹک کے کھانے کے برتن، خاص طور پر وہ جن میں گرم کھانا رکھا جاتا ہے ہیں یا کھانا گرم کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں، جسم کو نقصان نہیں پہنچاتے ہیں۔
اعداد و شمار کی کمی
برٹش پلاسٹک فیڈریشن کے مطابق کھانے کی پیکنگ کے لیے سب سے زیادہ استعمال ہونے والی چیز پلاسٹک ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ پلاسٹک کے ڈبوں کی تیاری کے دوران پلاسٹک کے علاوہ بہت سے دوسرے کیمیکل بھی اس میں شامل ہو جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر رنگ اور ایڈیٹیو (وہ مواد جو پلاسٹک کے ڈبے کو نرم کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے)۔
ڈاکٹر جین منچ کہتی ہیں کہ پلاسٹک کی کیمیائی ساخت بہت پیچیدہ ہے۔‘
ان کے مطابق پلاسٹک تیار کرنے کے مرحلے میں جو کیمیکل ایک دوسرے کے رابطے میں آتے ہیں وہ نہ صرف انھیں تبدیل کر سکتے ہیں، بلکہ اس مواد میں نامعلوم عناصر کو بھی شامل کر سکتے ہیں۔
اُن کے مطابق اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پلاسٹک کے کچھ کیمیکلز کھانے پینے کی چیزوں میں جذب ہوتے ہیں جو آگے چل کر ہمارے جسموں میں جذب ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
ڈاکٹر منچ کہتی ہیں: ’ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ کھانے کی کچھ اقسام بڑی مقدار میں کیمیکلز کی ہمارے جسم میں منتقلی کا سبب بن سکتی ہیں۔‘
مثال کے طور پر تیزابیت یا چکنائی والی غذائیں جو دیگر کھانوں کے مقابلے میں پلاسٹک کے برتنوں سے زیادہ کیمیکل جذب کرتی ہیں۔
’گرم کھانے کے پلاسٹک سے رابطے میں آنے سے بھی ایسی مضر اشیا کی بہت زیادہ منتقلی ہوتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر آپ مائیکرو ویو میں اسی پلاسٹک کے برتن میں کھانا گرم کرتے ہیں جو آپ سلاد کو ذخیرہ کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں تو اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ کیمیکلز کی بڑی مقدار آپ کے کھانوں کے ذریعے آپ کے جسم میں داخل ہو جائے۔‘
سنہ 2022 میں سائنسدانوں کے ایک گروپ نے 388 ایسے ’تشویش کے حامل کیمیکلز‘ کی فہرست شائع کی جو کھانے سے رابطہ میں آنے والی پلاسٹک کی مصنوعات میں استعمال ہو سکتے ہیں۔
’تشویش کے حامل کیمیکلز‘ ایسے کیمیائی مادے ہیں جنھیں خطرناک سمجھا جاتا ہے کیونکہ ان کی ممکنہ صلاحیت کینسر یا صحت کو نقصان پہنچانے والی دیگر بیماریوں کا باعث بن سکتی ہے۔
تشویش کے ان 388 مادوں میں سے 197 فوڈ کانٹیکٹ پلاسٹک کی تیاری میں استعمال ہوتے ہیں۔ اس میں فوڈ پیکجنگ، فوڈ سٹوریج کنٹینرز، ڈنر پلیٹس، کٹلری اور بہت سی دوسری اشیا شامل ہیں۔ اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ ان میں سے بہت سے کیمیکل کھانے سے رابطے میں آنے کے بعد کھانے میں منتقل ہوتے ہیں اور پھر جسم میں جاتے ہیں۔
ڈاکٹر منچ نے کہا: ’یہ یقینی نہیں ہے کہ روزانہ ان میں سے کسی ایک کیمیکل کا استعمال آپ کے لیے کینسر یا دیگر صحت کے مسائل کا باعث بن سکتا ہے۔‘
باعث تشویش کیمیائی مادے
ہاورڈ میڈیکل سکول کے ماہرین کے مطابق پلاسٹک میں موجود بہت سے کیمیکلز باعث تشویش ہیں۔ اگرچہ ہم ان کے ساتھ بہت کم وقت کے لیے رابطے میں آتے ہیں لیکن یہ نادانستہ طور پر خوراک کے ساتھ مل کر جسم میں داخل ہو جاتے ہیں۔
ہاورڈ میڈیکل سکول کی ویب سائٹ پر ڈاکٹر روس ہاوسر لکھتے ہیں کہ ’نتیجتا زندگی کے کسی مرحلے میں آپ کے جسم پر اس کے مضر صحت اثرات رونما ہو سکتے ہیں۔‘
پلاسٹک میں پائے جانے والے دو کیمیکلز خاص طور پر متنازع ہیں۔ ایک Phthalates (پلاسٹک کو نرم اور دیرپا بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے) ہے اور دوسرا Bisphenol A(بہت سخت پلاسٹک بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے) ہے۔
ان دونوں کو ’اینڈوکرائن ڈسٹرپٹرس‘ یعنی غدود اور اعضا کو متاثر کرنے والے کیمیکلز کے طور پر جانا جاتا ہے۔ یعنی یہ جسم میں موجود ہارمونز میں مداخلت کرتے ہیں اور ممکنہ طور پر حیاتیاتی عمل جیسا کہ جسم اور اعضا کی نارمل نشوونما، تولید اور عمل تولید کو متاثر کر سکتے ہیں۔
حال ہی میں یورپی فوڈ سیفٹی اتھارٹی (ای ایف ایس اے) نے ان دونوں کیمیکلز کے متعلق شواہد کی جانچ کی اور انھیں صحت کے لیے خطرہ قرار دیا۔
انگلینڈ میں نوزائیدہ اور چھوٹے بچوں کے استعمال کے لیے بنائی گئی اشیا جیسا کہ فیڈر، جوس کے کپ اور پیمائش کرنے والے کپوں میں یہ دونوں کیمیکلز نہیں ہونے چاہییں۔
ایف ایس اے اور حکومت کی آزاد کمیٹی جو کہ اشیائے خوردونوش اور ماحولیات میں زہریلے کیمیکلز پر کام کر رہی ہے فی الحال اس معاملے پر تازہ ترین شواہد کی جانچ کر رہی ہے۔
برٹش پلاسٹک فیڈریشن کا کہنا ہے کہ پولی پروپیلین یا پولی تھیلین یا دونوں کے مرکب سے بنے پلاسٹک کے کھانے کے کنٹینرز میں عام طور پر بی پی اے یا phthalates نہیں ہوتے۔
کیا احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہییں؟
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کس قسم کے برتن استعمال کیے جائیں تاکہ ہمارے کھانے میں کوئی کیمیکل جذب نہ ہو؟
ڈاکٹر ڈیانا زکرمین کہتی ہیں: ’ایک مسئلہ یہ ہے کہ پلاسٹک کی ساخت مسلسل بدل رہی ہے۔‘
’زیادہ تر لوگوں کی طرح، میرا باورچی خانہ پرانے پلاسٹک کے ڈبوں سے بھرا ہوا ہے اور مجھے نہیں معلوم کہ ان کی تیاری میں کیا کچھ استعمال ہوا ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ پلاسٹک کی تیاری میں استعمال ہونے والے کیمیکل وقت کے ساتھ ٹوٹ جاتے ہیں اور کسی حد تک کھانے میں اپنے نشانات چھوڑ سکتے ہیں۔
’یہ اس وقت ہوتا ہے جب پلاسٹک کو گرم کیا جاتا ہے یا وہ پرانا ہو جاتا ہے یا اسے بار بار استعمال کیا جاتا ہے یا دھویا جاتا ہے۔‘
پلاسٹک میں موجود کیمیکلز کے بارے میں معلومات کی کمی اور وہ کھانے پر کس حد تک چپک سکتے ہیں اس بارے میں معلومات میں کمی کی وجہ سے ڈاکٹر زکرمین شیشے یا سرامک کے برتنوں کے استعمال کی سفارش کرتی ہیں، خاص طور پر گرم کھانے کے لیے اور مائیکرو ویو میں کھانا گرم کرنے کے لیے۔
ڈاکٹر زکرمین کہتی ہیں: ’جب کوئی کمپنی یہ کہے کہ ان کا پلاسٹک کنٹینر مائیکروویو کے لیے محفوظ ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ اس کی تیاری میں استعمال کردہ اجزا کھانے میں شامل نہیں ہوں گے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’میں پلاسٹک میں کچھ بھی گرم نہیں کرتی ہوں۔ میں اسے شیشے یا پیریکس کنٹینر میں رکھتی ہوں اور کھانے کو کاغذ یا پلیٹ سے ڈھانپ دیتی ہوں۔ میں دوسروں کو بھی ایسا کرنے کا مشورہ دوں گی۔‘
کون سا پلاسٹک فوڈ سٹوریج کے لیے محفوظ ہے؟
امریکن اکیڈمی آف نیوٹریشن اینڈ ڈائٹیٹکس دنیا کی خوراک اور غذائیت کے پیشہ ور افراد کی سب سے بڑی تنظیم ہے۔ یہ صارفین کو مشورہ دیتی ہے کہ وہ صرف ٹھنڈے کھانے کو ذخیرہ کرنے کے لیے پلاسٹک کے کنٹینرز استعمال کریں۔
زیادہ تر غذا کو ذخیرہ کرنے والے پلاسٹک ڈبوں کے نیچے ایک مثلث بنا ہوتا ہے۔ اس میں ایک سے سات تک کا نمبر ہوتا ہے، جو اس کو بنانے میں استعمال ہونے والے پلاسٹک کی قسم کی نشاندہی کرتا ہے۔
اکیڈمی کے مطابق کھانے کے آپشن نمبر ایک، دو، چار اور پانچ سب سے محفوظ ہیں۔ امریکن اکیڈمی آف پیڈیاٹرکس نے تین، چھ اور سات کوڈ والے پلاسٹک کے کنٹینرز سے پرہیز کرنے کی سفارش کی ہے۔
بی پی اے کے ترجمان نے کہا کہ کسی بھی پلاسٹک کی مصنوعات جو کھانے کے ساتھ رابطے میں آتی ہے اسے منظور ہونے سے پہلے ایف ایس اے کے ’انتہائی سخت‘ معیارات پر پورا اترنا چاہیے۔ جان بوجھ کر شامل کردہ اجزا عام طور پر صرف ری سائیکل پلاسٹک میں پائے جاتے ہیں۔
تمام ماہرین اس بات پر یقین نہیں رکھتے کہ پلاسٹک کے برتن صحت کے لیے خطرناک ہیں۔ کینسر ریسرچ انگلینڈ کی ڈاکٹر ریچل اورٹ کا کہنا ہے کہ اس بات کا کوئی پختہ ثبوت نہیں ہے کہ پلاسٹک کا استعمال کینسر کا باعث بنتا ہے۔
وہ کہتی ہیں: ’اس میں پلاسٹک کی بوتلوں اور پلاسٹک کے برتنوں اور کھانے کو ذخیرہ کرنے کے لیے پلاسٹک کا استعمال شامل ہے۔‘