کملا ہیرس کو صدارتی نامزدگی کے لیے درکار حمایت حاصل، کیا وہ ٹرمپ کے خلاف ’مضبوط امیدوار‘ ثابت ہو سکتی ہیں؟

جو بائیڈن نے امریکی انتخابات کا رخ اور اس کی تصویر بدل دی۔ ہفتوں تک سختی کے ساتھ صدارتی انتخابات میں ڈیموکریٹک امیدوار رہنے پر اصرار کے بعد وہ دباؤ کے سامنے جھک گئے اور دوڑ سے باہر ہو گئے ہیں۔
کملا
Reuters

امریکہ کی نائب صدر کملا ہیرس نے ملک کے آئندہ صدراتی الیکشن میں اپنی پارٹی کی جانب سے امیدوار نامزد ہونے کے لیے ڈیموکریٹک نمائندوں کی اکثریت کی حمایت حاصل کر لی ہے۔

سوموار کے روز ایسوسی ایٹڈ پریس کے ایک سروے میں کہا گیا کہ کملا کو نامزدگی حاصل کرنے کے لیے ووٹنگ کے پہلے مرحلے میں 1,976 سے زیادہ ڈیلیگیٹس کی حمایت ملی۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ کملا ہیرس نومبر کے صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کا مقابلہ کریں گی۔

ڈیلیگیٹس (جو پارٹی کے ہی اراکین ہوتے ہیں) وہ لوگ ہوتے ہیں جنھیں اپنے انتخابی علاقے کی نمائندگی کے لیے منتخب کیا جاتا ہے۔ یہ کسی بھی صدارتی امیدوار کے لیے اپنی حمایت تبدیل کر سکتے ہیں تاہم ایسا عام طور پر ہوتا نہیں۔

کملا ہیرس کو یکم سے سات اگست تک ہونے والی ووٹنگ میں اپنی پارٹی کے 1976 ووٹ درکار ہوں گے اور اسی کے بعد ہی وہ باضابطہ طور پر پارٹی کی نامزدگی حاصل کریں گی۔

اتوار کے روز صدر جو بائیڈن کی جانب سے صدارتی دوڑ سے باہر نکلنے کے اعلان کے بعد اب تک کسی نے بھی کملا ہیرس کو چیلنج نہیں کیا۔ ٹرمپ کے خلاف صدارتی مباحثے کے دوران ہچکچاہٹ کے شکار بائیڈن کو اپنی جماعت کی جانب سے شدید دباؤ کا سامنا تھا۔

کملا ہیرس کے ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے امیدوار ہونے کے امکانات کو بائیڈن کی توثیق سے بہت تقویت ملی۔

صدر بائیڈن نے ان کی مکمل حمایت کی اور چار سال قبل انھیں نائب صدر بنانے کے اپنے فیصلے کو اب تک کا بہترین فیصلہ قرار دیا۔

ان کی حمایت پر کملا ہیرس کا کہنا ہے کہ انھیں بائیڈن کی توثیق حاصل کرنے پر فخر ہے اور وہ نامزدگی جیتنے کی ہر ممکن کوشش کریں گی۔

کملا
Reuters

امریکی صدر جو بائیڈن نے اتوار کے دن امریکی عوام کو اس وقت سرپرائز دیا جب انھوں نے کئی ہفتوں تک صدارتی انتخاب سے دستبردار ہونے کے مطالبات کی مزاحمت کرنے کے بعد اچانک یہ اعلان کیا کہ وہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف اس مقابلے میں اپنی جگہ نائب صدر کملا ہیرس کو ڈیموکریٹ پارٹی کا امیدوار نامزد کر رہے ہیں۔

جو بائیڈن اپنی باقی صدارتی مدت مکمل کریں گے لیکن اسی سال صدارتی انتخاب میں امیدوار نہیں ہوں گے۔ ان کے اس فیصلے نے ڈیموکریٹک پارٹی کو مشکل میں ڈال دیا، جسے اب صرف ایک ماہ کے اندر ریپبلکن پارٹی کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک نیا امیدوار چننا ہو گا۔

امریکہ میں 1968 میں بھی ایسا ہی ہوا تھا جب صدر لنڈن بی جانسن نے اعلان کیا تھا کہ وہ دوسری بار صدارتی امیدوار نہیں بنیں گے۔

صدر بائیڈن پہلے ہی اپنی جماعت کی نامزدگی حاصل کرنے کے لیے درکار ووٹ حاصل کر چکے تھے۔ ایسے میں ان کی جانب سے کملا ہیرس کی نامزدگی موجودہ نائب صدر کو سب سے واضح امیدوار بنا سکتی ہے۔

اگر کسی بھی امیدوار کو تقریباً چار ہزار ڈیلیگیٹس (جو پارٹی کے ہی اراکین ہوتے ہیں) میں سے اکثریت نہیں ملتی تو ایک دوسرا مرحلہ بھی ہو سکتا ہے جس میں سپر ڈیلیگیٹس شامل ہو جائیں گے جو پارٹی رہنما اور منتخب اراکین ہوتے ہیں۔ کسی بھی امیدوار کو نامزدگی حاصل کرنے کے لیے 1976 ووٹ درکار ہوتے ہیں۔

اب تک کئی ڈیموکریٹ کملا کی حمایت کا اعلان بھی کر چکے ہیں جن میں کیلیفورنیا کے گورنر گیون نیوسوم بھی شامل ہیں۔ یاد رہے ان کا نام ممکنہ امیدوار کے طور پر لیا جا رہا تھا۔

انھوں نے ایکس پر لکھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا مقابلہ کرنے کے لیے کملا سے بہتر کوئی نہیں۔

ٹرانسپورٹیشن سیکریٹری پیٹ بٹیگیگ اور پنسلوینیا کے گورنر جوش شپیرو نے بھی کملا ہیرس کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے۔

ان کے علاوہ ہیلری کلنٹن اور ان کے شوہر سابق صدر بل کلنٹن سمیت سابق سیکرٹری خارجہ جان کیری بھی کملا کی حمایت کا اعلان کر چکے ہیں۔

اس سے قبل کیلیفورنیا کے گورنر گیون نیوسوم، ٹرانسپورٹیشن کے وفاقی سیکریٹری پیٹ بٹیگیگ اور پنسلوینیا کے گورنر جوش شیپیرو کا نام بھور ممکنہ صدارتی امیدوارکے طور پر لیا جا رہا تھا۔

اگر کملا ہیرس اپنی جماعت کی صدارتی نامزدگی حاصل کر لیتی ہیں تو یہ نام ان کے نائب صدر کے امیدوار بھی ہو سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

ایسا بھی ممکن ہے کہ زیادہ تر ڈیموکریٹس جو بائیڈن کی بات مانتے ہوئے کملا ہیرس کی حمایت کا اعلان کر دیں تاکہ ڈیموکریٹک کنونشن سے ایک ماہ سے بھی کم عرصے پہلے ابھرنے والی غیر یقینی صورتحال سے بچا جا سکے۔

ایسا کرنے کی عملی اور سیاسی وجوہات ہیں۔

وہ جانشینی کی قطار میں سب سے آگے ہیں۔ صدارتی ٹکٹ پر پہلی سیاہ فام خاتون کو نظر انداز کرنا پارٹی کے لیے خوفناک ہوگا۔ ان کی نامزدگی کے ساتھ ہی انھیں فوری طور پر تقریباً 100 ملین ڈالر کے فنڈز تک رسائی حاصل ہو جائے گی جو صدارتی مہم کے لیے اب تک جمع کیے گئے ہیں۔

لیکن خطرات بھی ہیں۔ رائے عامہ کے جائزوں سے پتا چلتا ہے کہ ہیرس کو منظور کیے جانے کی ریٹنگ بائیڈن کی طرح کم ہے اور ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف مقابلے میں وہ تقریباً بائیڈن کی ہی پوزیشن پر ہیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ نائب صدر کی حیثیت سے بعض مواقع پر انھیں مشکلات کا بھی سامنا رہا۔ انتظامیہ کے ابتدائی دور میں انھیں امریکہ-میکسیکو سرحد پر ہجرت اور نقل مکانی کے بحران کی بنیادی وجوہات حل کرنے کا کام سونپا گیا تھا۔

یہ ایک مشکل چیلنج تھا اور متعدد غلطیوں اور غلط بیانیوں کی وجہ سے انھیں تنقید کا سامنا رہا۔ اگرچہ بعد میں وہ اسقاط حمل کے حقوق پر بھی انتظامیہ کی نمائندگی کر رہی تھیں اور اسے انھوں نے زیادہ مؤثر طریقے سے سنبھالا ہے۔ لیکن ان کا ابتدائی دنوں کا تاثر امریکی عوام کے ذہنوں میں اب بھی قائم ہے۔

آخری اور شاید سب سے اہم بات یہ ہے کہ کملا ہیرس پہلے ہی صدارتی عہدے کے لیے انتخاب لڑ چکی ہیں۔ وہ ڈیموکریٹک پارٹی کی صدارتی نامزدگی کے لیے سنہ 2020 میں سامنے آئی تھیں لیکن انھیں بڑی شکست کا سامنا رہا تھا۔

شروع میں جب وہ اپنی امیدواری کے لیے آگے آئیں تو انھوں نے کئی ایسے انٹرویوز دیے جو غلطیوں سے بھرے تھے، ان کی الیکشن کیمپین کا کوئی واضح وژن نہیں تھا اور اسی باعث وہ ابتدائی پرائمری سے پہلے ہی میدان چھوڑ گئیں۔

ہیرس کا انتخاب ڈیموکریٹس کے لیے خطرہ ہے لیکن ایسے وقت میں جب ڈونلڈ ٹرمپ کی ممکنہ جیت کا امکان بڑھتا جا رہا ہے، ان کے پاس کوئی بھی محفوظ آپشن نہیں۔

کملا
Reuters

ڈیموکریٹک کنونشن سے کیا توقعات ہیں

پچھلی نصف صدی سے سیاسی کنونشن بیزار کن تقریبات بن چکی ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ چونکہ یہ کنونشن ٹی وی پر دکھائے جاتے ہیں اسی لیے ان تقریبات میں بولا جانے والا ہر لفظ انتہائی احتیاط سے لکھا جاتا ہے اور ایسے میں یہ صدارتی اشتہار کا تاثر دیتے ہیں۔

پچھلے ہفتے منعقد ہونے والا ریپبلکن کنونشن بھی ایسا ہی تھا جس میں نامزدگی کی منظوری کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بہت لمبی سی تقریر کر ڈالی۔

تاہم اگلے ماہ شکاگو میں ہونے والا ڈیموکریٹک کنونش روایت سے ہٹ کر کافی مختلف نظر آ رہا ہے۔

پارٹی اور بائیڈن کی مہم والے جو منصوبہ بندی کر کے بیٹھے تھے، بائیڈن کی دستبرداری کے بعد اب وہ قابلِ عمل نہیں رہی۔

حتیٰ تک کہ اگر پارٹی ہیرس کو اپنا امیدوار مان بھی لیتی ہے تو بھی کنونشن فلور پر اس دن کیا ہو گا، اس کی پہلے سے منصوبہ بندی اور کنٹرول کرنا مشکل نظر آ رہا ہے۔

اور اگر ہیرس پارٹی کو متحد کرنے میں کامیاب نہیں ہوتیں تو یہ کنونشن سب اراکین کے لیے ’اوپن سیزن‘ بن سکتا ہے جس میں کئی افراد صدارتی دوڑ کا حصہ بننے کی کوشش کرتے نظر آئیں گے۔

اور یہ سب بند دروازوں کے پیچھے کیمروں اور میڈیا سے دور ہو رہا ہو گا۔

یہ براہِ راست دکھایا جانے والے ایک ایسا سیاسی تھیٹر ہو گا جسے امریکی عوام نے پہلے کبھی نہیں دیکھا ہوگا۔

رواں سال ہونے والے ریپبلکن کنونشن کی منصوبہ بندی بہت احتیاط سے کی گئی تھی جس میں پارٹی کے ایجنڈا میں شامل سب سے زیادہ مقبول آئٹمز پر توجہ دی گئی اور ایک ہی شخص یعنی صدر جو بائیڈن کو تنقید کا ہدف بنایا گیا تاہم اب پتہ چلا ہے کہ ریپبلکن پارٹی غلط آدمی کو نشانہ بنا رہی تھی۔

بائیڈن کی انتخابی مہم سے دستبرداری کے ساتھ ہی ریپبلکنز کی الیکشن کے حوالے سے کی گئی ساری منصوبہ بندی رائیگاں گئی۔

ریپبلکنز نے ڈیموکریٹس کو نیچا دکھانے کے لیے پورا ہفتہ ایسے پروگرام ترتیب دیے جن میں ان کی توجہ اپنے حریف کی غلط کمزوریوں پر رہی بائیڈن کی ظاہری کمزوریوں کو اجاگر کرتے ہوئے نوجوان مرد ووٹروں کو اپنی جانب راغب کرنے کی حکمت عملی واضح تھی لیکن اب صورت حال یہ ہے کہ ڈیموکریٹکس کے کسی بھی نئے امیدوار کی عمر صدر بائیڈن سے کم ہی ہو گی۔

نائب صدر کملا ہیرس یا کسی بھی دوسرے ڈیموکریٹ امیدوار کے خلاف اب مضبوط بمقابلہ کمزور والی حکمت عملی زیادہ کارگر نظر نہیں آ رہی۔

اگر ہیرس نامزد ہوتی ہیں تو توقع ہے کہ ریپبلکن انھیں موجودہ انتظامیہ کی ناکامیوں سے جوڑنے کی کوشش کریں گے۔ مہینوں سے وہ کملا ہیرس کو ’بارڈر زار‘ پکارتے آ رہے ہیں۔

اگرچہ سابق پراسیکیوٹر کا تعلق کسی بھی طرح سے پارٹی کے ترقی پسند حلقوں سے نہیں رہا لیکن ماضی میں ان پر ریپبلکن تنقید سے پتا چلتا ہے کہ وہ انھیں ’بائیں بازو کی بنیاد پرست شخصیت‘ کے طور پر بھی دکھانے کی کوشش کریں گے۔

الیکشن میں چند ماہ رہ گئے ہیں مگر اب تک کسی کو کچھ معلوم نہیں اورہر کوئی بس ہوا میں تیر چلا رہا ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.