ہم نے اس جنگ کے مالی و جانی نقصانات کے اعداد و شمار جمع کیے ہیں۔ ساتھ میں ان سے بھی بات کی ہے جو اس جنگ میں سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔
گذشتہ برس سات اکتوبر کو حماس نے اسرائیل کے خلاف غیر معمولی حملہ کیا تھا جسے اس نے ’آپریشن طوفان الاقصیٰ‘ کا نام دیا تھا اور اس حملے میں زیادہ تر اسرائیلی شہریوں کو ہلاک کیا اور 251 افراد کو یرغمال بنا لیا تھا۔
اس حملے نے حماس اور اسرائیل کے درمیان ایک جنگ کا آغاز کر دیا جسے خطے کی حالیہ تاریخ میں سب سے زیادہ خونی اور تباہ کن قرار دیا گیا ہے۔
بی بی سی اب اس جنگ سے ہونے والی مالی و جانی نقصانات کے اعداد و شمار جمع کر رہا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ان سے بھی بات کر رہا ہے جو اس جنگ میں سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں تاکہ ان کہانیوں کو سامنے لایا جائے جو اعداد و شمار میں کھو گئیں ہیں۔
فاطمہ اداما اور ان کا خاندان ہمیشہ سے شمالی غزہ میں رہے ہیں۔ انھوں نے مہینوں تک قتل و غارت، تباہی اور بھوک دیکھی ہے۔
فاطمہ اپنی زندگی کے حالات کو ’غیر انسانی اور شرمناک‘ قرار دیتی ہیں۔
انھیں لگتا ہے کہ جیسے وہ ایک سال سے کسی گہرے کوما میں ہیں اور ایک دن جب وہ کوما سے اٹھیں گی تو انھیں غزہ ویسا ہی ملے گا جیسا انھوں نے دیکھا ’خوبصورت اور زندگی سے بھرپور۔‘
فاطمہ کو امید ہے کہ ’ہم اسے دوبارہ تعمیر کریں گے اور اس کی رونقیں بحال کریں گے۔‘ انھوں نے یہ بات پختہ یقین سے کہی۔
غزہ میں زندگی و موت کا کھیل
اس جنگ نے اشرف العطر کی زندگی کو ہمیشہ کے لیے بدل دیا ہے۔ اشرف جنوبی شہر خان یونس کے یورپین ہسپتال میں بطور نرس کام کرتے ہیں۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی اہلیہ اور چھ بچے چند ہی لمحوں میں وسطی غزہ کے علاقے دیر البلاع میں ایک اسرائیلی فضائی حملے میں مارے گئے تھے۔ اشرف کی اہلیہ ہالہ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے ریلیف اینڈ ورکس ( یو این آر ڈبلیو اے) میں کام کرتی تھیں۔
ان کے سب سے بڑے بیٹے کی عمر 15 برس تھی اور ان کی سب سے چھوٹی بیٹی وطین صرف 20 ماہ کی تھیں۔
اشرف اور ہالہ کے ہاں چار بچے بھی پیدا ہوئے تھے، دو بیٹے اور دو بیٹیاں جن کی عمریں 10 10 برس تھی۔ اشرف اور ہالہ انھیں ’خدا کا تحفہ‘ قرار دیتے تھے۔
اسرائیلی فوج بہت ہی کم کسی ایک مخصوص فضائی حملے کے متعلق تبصرہ کرتی ہے لہذا انھوں نے اس حملے کے متعلق بھی کوئی معلومات فراہم نہیں کی جو 18 اگست کی صبح ہوا تھا جس میں اشرف کے خاندان کی ہلاکت ہوئی تھی۔
اس حملے کے اگلے دن جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا تھا کہ اسرائیلی فوج نے دیر البلاح میں ایک کارروائی کی جس کا مقصد ’دہشت گردوں کا خاتمہ کرنے اور زمین کے اوپر اور نیچے ہتھیاروں کے کمپاؤنڈ تباہ کرنا تھا۔‘
ہالہ اور ان کے چھ بچے اس غزہ جنگ میں مرنے والے 40 ہزار افراد میں شامل ہیں۔ گذشتہ برس کے سات اکتوبر کے حملے کے بعد سے غرب اردن میں بھی تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔
23 ستمبر 2024 تک، اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ مشرقی یروشلم سمیت مقبوضہ مغربی کنارے میں 693 فلسطینی مارے گئے۔ ان میں اسرائیلی فورسز کے ہاتھوں 676 اور اسرائیلی آباد کاروں کے ہاتھوں 12 افراد ہلاک ہوئے۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ مغربی کنارے پر چھاپوں کا مقصد مغربی کنارے اور اسرائیل میں اسرائیلیوں پر فلسطینیوں کے مہلک حملوں کو روکنا ہے۔ موجودہ اسرائیلی حکومت نے وہاں غیر قانونی بستیوں کی توسیع کی نگرانی کی ہے۔
فلسطینیوں کو خدشہ ہے کہ دائیں بازو کی اسرائیلی حکومت مغربی کنارے میں یہودی بستیوں کو مستقل بنانے کے لیے کام کر رہی ہے۔
اسرائیل میں صورتحال
سات اکتوبر 2023 کا حملہ اسرائیلی تاریخ کا بدترین حملہ سمجھا جاتا ہے جس میں 12 سو سے زیادہ افراد ماارے گئے تھے۔ یہ اعداد و شمار اسرائیلی حکام کی جانب سے نومبر 2023 میں جاری کیے گئے تھے۔
نومبر 2023 میں بی بی سی نے شواہد اکٹھے کیے تھے جو یہ ظاہر کرتے تھے کہ پانچ فلسطینی گروہوں نے سات اکتوبر کے حملوں میں حماس کا ساتھ دیا تھا۔ اور اس کے لیے انھوں نے سنہ 2020 سے ایک ساتھ عسکری انداز میں تربیت حاصل کی تھی۔
اسی دن حماس اور متعلقہ گروپوں نے غزہ میں 251 افراد کو یرغمال بھی بنایا تھا۔
گذشتہ ایک سال کے دوران ان یرغمالیوں میں سے کچھ کو سفارتی مذاکرات کے ذریعے اور کچھ کو فوجی آپریشن کے دوران رہا کروایا گیا ہے۔
34 سالہ یاردن بیباس اپنی اہلیہ شیری اور دو بچوں کے ہمراہ حماس کے ہاتھوں یرغمال بنائے جانے والوں میں شامل تھے۔
29 نومبر 2023 کو حماس نے دعویٰ کیا کہ شیری اور ان کے دو بچے اسیری کے دوران اسرائیلی فضائی حملے میں مارے گئے تھے۔ اسرائیلی حکومت نے کہا ہے کہ وہ اس دعوے کی جانچ کر رہی ہے۔
عرفی بیباس لیوی یاردن کی بہن ہے۔ وہ اپنے بھائی اور ان کے خاندان کی قسمت کے بارے میں پریشان ہے، لیکن پھر بھی پرامید ہیں کہ وہ اب بھی زندہ ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ وہ یقین سے نہیں کہہ سکتی کہ وہ قید میں کب تک زندہ رہ سکتے ہیں، ان کی یرغمالی کو وہ ’غیر انسانی‘ قرار دیتی ہیں۔
عرفی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’وہ یقین کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔‘
75 سالہ ادا ساگی ایک اسرائیلی امن کے لیے سرگرم کارکن ہیں۔ انھیں حماس نے کبوتز سے سات اکتوبر کو 53 دنوں کے لیے یرغمال بنایا تھا۔
وہ ان 105 اسرائیلی یرغمالیوں میں سے ایک ہیں جنھیں 24 نومبر 2023 میں ایک ہفتے کی جنگ بندی کے دوران آزاد کروایا گیا تھا۔
ان یرغمالیوں کی رہائی کے تبادلے میں اسرائیلی جیلوں میں قید 240 فلسطینی قیدیوں کو چھوڑا گیا تھا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’اب میں امن میں یقین نہیں رکھتی۔‘ جنگ کو روکنے کی مزید سفارتی کوششیں بھی ناکام ہو چکی ہیں۔
نقل مکانی پر مجبور غزہ کی آبادی: کوئی جگہ بھی محفوظ نہیں
ستمبر 2024 تک، اقوام متحدہ کا تخمینہ ہے کہ غزہ کی تقریباً 21 لاکھ آبادی میں سے نوے فیصد بے گھر ہو چکے ہیں۔
پورا سال جنگ کے دوران اسرائیلی فوج نے لوگوں کو ’محفوظ علاقوں‘ کی طرف جانے کی ہدایت کرتے ہوئے انخلا کے احکامات جاری کیے ہیں۔
اگست 2024 میں یونیسیف کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ غزہ کے 17 لاکھ افراد کو 48 مربع کلومیٹر کے علاقے میں بھیج دیا گیا ہے۔ اس سے فی مربع کلومیٹر میں 35 ہزار سے زیادہ افراد موجود ہیں۔
31 سالہ نجود ابو کلب ان 19 لاکھ میں سے ایک ہیں جو غزہ سے نقل مکانی پر مجبور ہیں۔ نجود اور ان کے چار بچوں کو اسرائیلی حملوں یا انخلا کی ہدایات کے باعث 11 مرتبہ نقل مکانی کرنا پڑی ہے۔
بہت مرتبہ انھیں بہت زیادہ بھیڑ یا بیماری کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے۔
اب وہ المواصی میں ایک خمیہ بستی میں رہتی ہیں جو خان یونس کا ایک ریتلا صحرائی علاقہ ہے۔ پہلے اسرائیل نے اسے محفوظ علاقہ قرار دیا تھا مگر بعدازاں اس پر حملے شروع کر دیے۔ نجود اب دوبارہ نقل مکانی کے بارے میں نہیں سوچتی۔
غزہ میں نقل مکانی کرنے والے بہت سے افراد کی طرح نجود کے پاس اب اس جنگ کے ختم ہونے پر واپس جانے کو کوئی جگہ نہیں ہو گی۔
اس سال مارچ میں اقوام متحدہ کے ماہرین نے کہا تھا کہ اس جنگ کے آغاز سے اب تک غزہ کے تمام گھروں میں سے 70 فیصد سے زیادہ تباہ ہو چکے ہیں۔
جنگ کے پہلے چھ دنوں میں اسرائیلی فضائیہ نے غزہ پر 6000 بم گرائے تھے۔
غزہ میں اسرائیلی آپریشن پٹی کے شمالی حصے سے شروع ہوا اور مصر کے ساتھ سرحد پر واقع رفح تک چلا گیا، جس سے پورے علاقے میں بہت زیادہ نقصان ہوا۔
لیکن جولائی 2024 کے اوائل تک، اقوام متحدہ نے اندازہ لگایا کہ غزہ میں انفراسٹرکچر کی تباہی سے 40 ملین ٹن سے زیادہ ملبہ جمع ہو چکا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ غزہ میں فی مربع میٹر زمین پر 115 کلو گرام ملبہ پڑا ہوا ہے۔
اقوام متحدہ نے تخمینہ لگایا ہے کہ اس ملبے کو صاف کرنے میں 15 سال سے زیادہ وقت اور 500 ملین ڈالر سے خرچ آ سکتا ہے۔ اور یہ غزہ کے لوگوں کے لیے ایک مہلک خطرہ ہے کیونکہ اس میں بغیر پھٹنے والے ہتھیار اور نقصان دہ مادے موجود ہو سکتے ہیں۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’صرف گھروں کی تعمیر میں کم از کم 2040 تک کا وقت لگے گا جو جنگ کے دوران مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں۔ اور ’یہ مثبت اور پرامید صورتحالکے تحت‘ ہے جس کا اندازہ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام نے مئی 2024 میں اپنی رپورٹ میں لگایا تھا۔
اصیل نے اس جنگ میں اپنے بھائی کو کھو دیا ہے۔ ان کی والدہ کو کینسر ہے اور ان کے خاندان کی جانب سے والدہ کو غزہ سے باہر نکالنے کی تمام تر کوششیں ناکام رہی ہیں۔
ان کے والد کو بھی گردے کا مرض لاحق ہے۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’مشکل دنوں میں انھیں محسوس ہوتا ہے کہ ان کے جینے کا اب کوئی مقصد نہیں بچا ہے۔‘
مگر ایک پرعزم دن اصیل کہتی ہیں کہ وہ بس اتنا چاہتی ہیں کہ ان کی والدہ اور والد کا علاج ہو جائے اور جب جنگ ختم ہو تو وہ غزہ سے قبرص جا کر اپنے منگیتر سے مل سکیں۔
ان افراد کے لیے جن کی زندگیاں اس جنگ سے تباہ ہو گئی ہیں ایک پائیدار جنگ بندی کے معاہدے کے تحت جنگ کے خاتمے کے طریقے تلاش کرنا گزرتے وقت کے ساتھ مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
صورتحال اس کے برعکس مزید پیچیدہ ہوتی جا رہی ہے اور نہ صرف تشدد بڑھتا جا رہا ہے بلکہ جنگ مشرق وسطیٰ میں پھیلتی جا رہی ہے۔