حکومت کا پہلے پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کا فیصلہ اور اب مذاکرات کی دعوت، وجہ کیا؟

image

پاکستان کی وفاقی حکومت نے حالیہ دنوں میں اپوزیشن جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) پر پابندی لگانے اور عمران خان پر غداری کا مقدمہ چلانے کا اعلان کیا تھا جس کے بعد بانی پی ٹی آئی اور اُن کی جماعت کے لیے صورتحال مزید خراب ہو گئی تھی۔

تاہم اب وفاقی حکومت نے ایک بار پھر تحریک انصاف اور بانی پی ٹی آئی کو مذاکرات کی پیشکش کی ہے۔ مذاکرات کی اِس پیشکش کے بعد یہ سوال پیدا ہو رہا ہے کہ کیا پی ٹی آئی کو لے کر حکومتی پالیسی میں کوئی تبدیلی آئی ہے یا پی ٹی آئی کی حکمت عملی نے حکومت کو بیک فُٹ پر کر دیا ہے؟

جہاں ایک طرف حکومت نے پی ٹی آئی کو مذاکرات کی پیشکش کی ہے وہیں اتوار کو پاکستان تحریکِ انصاف نے اعلان کیا کہ وہ عمران خان کی گرفتاری کا ایک برس مکمل ہونے پر پانچ اگست کو ملک بھر میں جلسے اور احتجاجی مظاہرے کریں گے۔

اتوار کو پی ٹی آئی کے دیگر رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے اسد قیصر کا کہنا تھا کہ ’پانچ اگست کو ہم دو ایشوز پر پورے پاکستان میں جلسے اور بڑے بڑے مظاہرے کریں گے۔ ایک تو پانچ اگست عمران خان کی گرفتاری کا دن ہے، ان کو غیرقانونی طریقے سے من گھڑت مقدمات میں گرفتار کیا گیا تھا۔‘

سیاسی مبصرین کے خیال میں حکومت کے پاس تحریک انصاف پر پابندی عائد کرنے یا اُن کے ساتھ مذاکرات کے لیے کوئی واضح حکمت موجود نہیں ہے۔ اُن کے خیال میں اس وقت حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان مذاکرات ہونے کے بھی کوئی امکانات نہیں ہیں۔ کیونکہ دونوں طرف سے مذاکرات کے لیے سنجیدگی ہی نہیں دکھائی جا رہی۔

پابندی عائد کرنے کا حکومتی بیاناس سے قبل وفاقی حکومت نے پاکستان تحریک انصاف پر پابندی عائد کرنے کے فیصلے کا اعلان کیا تھا۔ 15 جولائی کو وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ وفاقی حکومت نے تحریک انصاف پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ حکومت پی ٹی آئی پر پابندی کے لیے سپریم کورٹ میں کیس دائر کرے گی۔ بہت واضح ثبوت موجود ہیں کہ پی ٹی آئی پر پابندی لگائی جائے۔ آئین حکومت کو ملک مخالف سرگرمیوں میں ملوث جماعت پر پابندی لگانے کا اختیار دیتا ہے۔

انہوں نے اس فیصلے کی وجوہات کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’گذشتہ چند روز سے ملک میں ہیجانی کیفیت پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ سات خون معاف کے نام سے ایک فلمی ٹریلر چلایا جارہا ہے۔ بتایا جارہا ہے کہ ہم بہت طاقتور ہیں۔ بس اب بہت ہو گیا۔‘

وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کے ساتھ ساتھ سابق صدر عارف علوی، بانی پی ٹی آئی عمران خان اور ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کے خلاف آرٹیکل 6 کا کیس چلایا جائے گا۔ تینوں افراد کے خلاف وفاقی کابینہ سے منظوری کے بعد ریفرنس سپریم کورٹ کو بھجوایا جائے گا اور ان کے پاسپورٹ اور شناختی کارڈ بلاک کیے جائیں گے۔

دوبارہ مذاکرات کی دعوتحکومت کی جانب سے تحریک انصاف پر پابندی لگائے جانے کے فیصلے کے بعد گذشتہ روز وفاقی وزیر ڈاکٹر مصدق ملک نے اپنی پریس کانفرنس کے دوران پاکستان تحریک انصاف کو پھر مذاکرات کی دعوت دی ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ’پی ٹی آئی والے آئیں، بیٹھیں اوربات کریں۔ صرف ملک دشمن عناصر ترقی میں رکاوٹیں کھڑی کر رہے ہیں۔‘

ڈاکٹر مصدق ملک نے اپنی پریس کانفرنس کے دوان مزید کہا کہ ’جب ہم مذاکرات کا کہتے ہیں تو جواب میں دھرنا دیا جاتا ہے۔ حکومت کو ہٹانا ہے تو ہٹا دیں لیکن ملک کے بچوں کا مستقبل تباہ نہ کریں۔ انتشار کی سیاست کرنے والے ملک کے خیر خواہ نہیں۔ جب مقصد صرف ملک کو برباد کرنا ہو تو پھر ہمیں بتائیں ہم کیا کریں، کہتے ہیں پہیہ جام کریں گے۔‘

حسن عسکری نے کہا کہ ایک وزیر کہتا ہے کہ ہم پی ٹی آئی پر پابندی لگائیں گے جبکہ دوسرا انہیں مزاکرات کی دعوت دے دیتا ہے (فوٹو اے ایف پی)وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ’ہم کہتے ہیں دہشت گردی کو ختم کریں آپ کہتے ہیں کہ آپریشن نہیں ہونے دیں گے، اگر آپریشن نہیں ہونے دیں گے تو آپ کیا ہونے دیں گے؟ آپ بھتہ خوری اور دہشت گردی ہونے دیں گے۔‘

حکومت کی جانب سے پی ٹی آئی پر پابندی اور پھر دوبارہ مذاکرات کی دعوت دینے کے معاملے پر سیاسی تجزیہ کار ڈاکٹر حسن عسکری رضوی کہتے ہیں کہ بظاہر وفاقی حکومت کوئی بڑا فیصلہ کرنے میں ’کنفیوز‘ نظر آتی ہے۔ ایک وزیر پریس کانفرنس میں کہتا ہے کہ ہم پی ٹی آئی پر پابندی لگائیں گے جبکہ دوسرا انہیں مزاکرات کی دعوت دے دیتا ہے۔

دونوں فیصلوں کے اٹل ہونے کا اس صورت میں پتا چلے گا جب حکومت پابندی کا مذاکرات کا باضابطہ اعلان کرے گی یا وزیراعظم خود اس معاملے پر گفتگو کریں گے یا پھر کابینہ اجلاس میں اس ہر گفتگو کی جائے گی۔ تاہم ابھی تک کی پیشرفت میں دونوں چیزیں نہیں ہوئی۔

ڈاکٹر حسن عسکری سمجھتے ہیں کہ حکومت اس وقت پاکستان تحریک انصاف پر پابندی لگانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ اس معاملے پر اتحادی جماعتوں کا متفق نہ ہونا اور پھر پی ٹی آئی کی جانب سے عدالتوں سے رجوع کرنا حکومت کے لیے مشکلات کھڑی کر سکتا ہے۔

’مذاکرات کے لیے سازگار ماحول کی بھی ضرورت ہوتی ہے‘سینیئر تجزیہ کار رسول بخش رئیس نے اُردو نیوز سے گفتگو میں کہا ہے کہ حکومت اگر مذاکرات کے لیے واقعی سنجیدہ ہے تو اُسے پہلے ایک سازگار ماحول بھی بنانا ہو گا۔

رسول بخش ریئس نے کہا کہ پریس کانفرنسز کے بجائے حکومت باقاعدہ خط لکھ کر پی ٹی آئی کو دعوت دے (فوٹو اے ایف پی)اُن کے خیال میں اگر پاکستان تحریک انصاف کی قیادت پابند سلاسل ہو گی اور نئی گرفتاریاں بھی عمل میں لائی جائیں گی تو اس صورتحال میں مخالف جماعت مذاکرات پر متفق نہیں ہو گی۔

اُنہوں نے مزید کہا کہ اگر حکومت پی ٹی آئی کے ساتھ واقعی مذاکرات چاہتی ہے تو پریس کانفرنسز کے بجائے باقاعدہ خط لکھ کر پی ٹی آئی کو دعوت دی جائے۔

رسول بخش رئیس کے مطابق اس وقت جماعت اسلامی نے راولپنڈی میں دھرنا دے کر عوام کو درپیش مسائل حکومت کے سامنے رکھ دیے ہیں اور حکومت جانتی ہے کہ ان مسائل کے سامنا سب کو کرنا پڑ رہا ہے۔ اب حکومت اس اہم معاملے سے توجہ ہٹانے کے لیے پی ٹی آئی سے مذاکرات کی بات چیت موضوع بحث بنانا چاہ رہی ہے۔


News Source   News Source Text

مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.