بنگلہ دیشی پولیس ایک ہفتے کی ہڑتال کے بعد واپس ڈیوٹی پر آ گئی

image
بنگلہ دیش کی پولیس ایک ہفتے کی ہڑتال کے بعد دالحکومت ڈھاکہ میں ڈیوٹی پر واپس آ گئی ہے۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق گذشتہ ہفتے شیخ حسینہ واجد کے استعفے اور ملک سے چلے جانے کے بعد جہاں ان کے 15 سال اقتدار کا خاتمہ ہوا وہیں دو کروڑ کی آبادی پر مشتمل شہر کی پولیس سڑکوں سے غائب ہو گئی تھی۔

کئی ہفتوں سے جاری مظاہروں، جن کی وجہ سے حسینہ واجد کو اقتدار چھوڑنا پڑا، کے دوران پولیس نے طاقت کا بہیمانہ استعمال کیا جس کی وجہ سے اس کے خلاف لوگوں کا غم و غصہ بڑھ گیا۔ مظاہرین اور پولیس کی جھڑپوں میں 42 پولیس اہلکاروں سمیت 450 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔

پولیس والوں نے اعلان کیا تھا کہ جب تک ڈیوٹی پر ان کی حفاظت کی ضمانت نہیں دی جاتی، وہ کام دوبارہ شروع نہیں کریں گے لیکن نوبل انعام یافتہ محمد یونس کی زیرِقیادت نئی عبوری حکومت کے ساتھ رات گئے بات چیت کے بعد وہ واپس ڈیوٹی پر آنے پر رضامند ہو گئے۔

اسسٹنٹ کمشنر سنیہایش داس نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’واپس آنا اچھا ہے۔ جیسا کے اب ہم محفوظ محسوس کرتے ہیں تو ڈیوٹی پر واپس آ گئے ہیں۔‘

بنگالی طلبا کے شیخ حسینہ کی حکومت کے خلاف مظاہرے تب تک پرامن رہے جب تک پولیس نے انہیں منتشر کرنے کے لیے تشدد کا استعمال نہیں کیا۔

نئی عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بنگلہ دیش شیخ حسینہ کی برطرفی کے بعد ایک ’انقلاب کے تجربے‘ سے گزر رہا ہے۔

کئی ہفتوں سے جاری مظاہروں کے دوران پولیس نے طاقت کا بہیمانہ استعمال کیا۔ (فوٹو: روئٹرز)خیال رہے کہ بنگلہ دیش کی سابق وزیراعظم اور عوامی لیگ کی سربراہ شیخ حسینہ واجد نے اپنی اقتدار سے بے دخلی کا الزام میں امریکہ پر عائد کیا ہے۔

انڈیا سے اپنے حامیوں کے نام جاری پیغام میں شیخ حسینہ واجد نے کہا کہ ’ان کو اقتدار سے ہٹانے کے پیچھے امریکہ ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’میں نے اس لیے استعفیٰ دیا تاکہ مزید لاشیں نہ دیکھ سکوں۔ وہ طلبا کی لاشوں پر اقتدار میں آنا چاہتے تھے لیکن میں نے اس کی اجازت نہیں دی اور وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہو گئیں۔ میں مزید اقتدار میں رہ سکتی تھی اگر میں سینٹ مارٹن جزیرے پر بنگلہ دیش کی حاکمیت سے دستبردار ہو جاتی اور امریکہ کو خلیج بنگال پر اختیار دے دیتی۔‘


News Source   News Source Text

مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.