خضر حیات ٹوانہ جنھیں ’پنجاب پنجابیوں کا‘ نعرہ لگانے پر محمد علی جناح کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا

خضر حیات ٹوانہ برطانوی دورِ حکومت میں برصغیر کے سب سے بڑے اور امیر صوبے پنجاب کے آخری وزیر اعظم تھے اور آزادی سے قبل انھیں اپنی حکومت کے آخری سال مسلم لیگ کی جانب سے شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

اپریل 1944 میں خضر حیات ٹوانہ لاہور میں 22 کوئنز روڈ پر واقع اپنی رہائش گاہ کے باغیچے میں بیٹھے تھے جب بانی پاکستان محمد علی جناح نے انھیں ٹیلی فون کر کے پنجاب یونینسٹ پارٹی کو مسلم لیگ میں ضم کرنے کو کہا۔

جب خضر حیات ٹوانہ نے اس بات کو ماننے سے انکار کر دیا تو جناح نے انھیں دھمکی دی کہ ’آپ کو زندگی بھر اس بات کے لیے پچھتانا پڑے گا‘ اور فون کاٹ دیا۔

خضر حیات ٹوانہ برطانوی دورِ حکومت میں برصغیر کے سب سے بڑے اور امیر صوبے پنجاب کے وزیر اعظم تھے اور ان کی پنجاب یونینسٹ پارٹی تقسیمِ ہند سے پہلے مشترکہ پنجاب میں جاگیرداروں اور راجاؤں کی سیاسی جماعت تھی۔

اس کے بعد بھی مختلف مواقع پر مسلم لیگ کے قائد محمد علی جناح خضر حیات ٹوانہ پر تنقید کرتے رہے اور ان پر یونینسٹ پارٹی کو مسلم لیگ میں ضم کرنے کے لیے دباؤ ڈالتے رہے۔

ایک موقع پر تقریر کرتے ہوئے محمد علی جناح نے یونینسٹ پارٹی کے لیڈروں کو ’غدار‘ بھی کہا اور ان پر پنجابی مسلمانوں کو تقسیم کرنے کا الزام بھی لگایا۔

ایئن ٹیلبٹ ساؤتھمپٹن یونیورسٹی میں جنوبی ایشیا کی جدید تاریخ کے پروفیسر ہیں جنھوں نے خضر حیات ٹوانہ کی سوانح عمری لکھی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’محمد علی جناح کے پاکستان کی بنیاد پنجاب تھا۔‘

انھوں نے خضر حیات ٹوانہ اور محمد علی جناح کے درمیان تنازع کے بارے میں بھی تفصیل سے لکھا ہے۔

ان کے مطابق مسلم لیگ دیگر ریاستوں کی مسلمان آبادی کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب رہی تھی تاہم پنجاب میں یونینسٹ پارٹی اس کی راہ میں رکاوٹ بن گئی تھی۔ اسی لیے پنجاب میں یونینسٹ پارٹی کی سیاست کو مسلم لیگ کے رہنماؤں نے نشانہ بنایا۔

واضح رہے کہ خضر حیات ٹوانہ برطانوی دور میں متحدہ پنجاب کے آخری وزیر اعظم تھے۔

انھیں اپنی حکومت کے آخری سال مسلم لیگ کی جانب سے شدید مخالفت کے باعث شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا اور بالآخر انھیں وزیراعظم کے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا۔ مارچ 1947 میں ان کے استعفیٰ کے بعد پنجاب میں پرتشدد فسادات پھوٹ پڑے جس کے نتیجے میں صوبے بھر میں قتلِ عام اور لاکھوں لوگوں بے گھر ہوئے۔

خضر حیات ٹوانہ سات اگست 1900 کو پنجاب کے علاقے چک مظفر آباد میں پیدا ہوئے۔ یہ علاقہ اب پنجاب کا شہر سرگودھا کہلاتا ہے۔

وہ مسلم لیگ کی ’فرقہ وارانہ بنیادوں پر سیاست‘ کے خلاف سخت موقف اختیار کرنے اور ’پنجاب پنجابیوں کا‘ نعرہ لگانے کے لیے جانے جاتے تھے۔

اشتیاق احمد سویڈن کی سٹاک ہوم یونیورسٹی سے منسلک ہیں اور انڈیا پاکستان کی تقسیم سے متعلق امور کے مورخ ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ 1947 میں دوسرے علاقوں کی نسبت سرگودھا میں خضر حیات ٹوانہ کے اثر و رسوخ کی وجہ سے ہندوؤں اور سکھوں پر بہت کم حملے ہوئے۔

اشتیاق احمد کا کہنا ہے کہ خضر حیات ٹوانہ ایک ’سچے اور پکے پنجابی‘ تھے جنھوں نے پنجاب میں تمام مذاہب کے درمیان ہم آہنگی برقرار رکھنے کی کوشش کی تھی۔

یونینسٹ پارٹی کی بنیاد کیسے پڑی؟

پروفیسر اشتیاق احمد جنھوں نے انڈیا پاکستان کی تقسیم پر کئی کتابیں لکھی ہیں کہتے ہیں کہ یونینسٹ پارٹی 1923 میں وجود میں آئی۔

اس کی بنیاد سر فضلِ حسین نے رکھی تھی جن کا تعلق موجودہ انڈین پنجاب کے علاقے بٹالہ سے تھا۔ وہ سر چھوٹو رام جیسے جٹ رہنماؤں کو بھی اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ سر چھوٹو رام پنجاب (موجودہ ہریانہ) کے امبالہ ڈویژن کے ایک ممتاز جٹ رہنما تھے جو اپنی زرعی اصلاحات کے لیے مشہور تھے۔

پروفیسراشتیاق بتاتے ہیں کہ یونینسٹ پارٹی کا بنیادی منشور دیہی پنجاب کے مفادات کو فروغ دینا تھا۔ سنہ 1937 کے انتخابات میں یونینسٹ پارٹی کی کامیابی کے بعد پنجاب میں سکندر حیات خان کی قیادت میں ایک نئی حکومت وجود میں آئی۔

سکندر حیات خان پنجاب کے بڑے زمینداروں میں سے تھے اور انگریزوں کے وفادار کے طور پر جانے جاتے تھے۔

پروفیسر اشتیاق احمد بتاتے ہیں کہ ’یونینسٹ پارٹی کا خیال تھا کہ انگریز راج پنجاب کے لیے اچھا ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ پنجاب کے لوگوں کو فوج میں بڑے پیمانے پر نوکریاں دی گئی تھیں اور نہروں کا نظام بنایا گیا تھا۔‘

ان دونوں سکیموں کی وجہ سے پنجاب میں خوشحالی اور زراعت کے شعبے میں تبدیلی آئی۔

سنہ 1937 کے انتخابات میں یونینسٹ پارٹی نے پنجاب میں 175 میں سے 98 نشستیں جیتیں جبکہ کانگریس کو 20 سے کم اور مسلم لیگ محض دو نشستیں لینے میں کامیاب رہی تھی۔

پروفیسر اشتیاق احمد کا کہنا ہے کہ یونینسٹ پارٹی میں ہندو، مسلمان، سکھ اور ’دلِت‘ سبھی مذہبوں سے تعلق رکھنے والے افراد اہم عہدوں پر فائز تھے۔

یونینسٹ پارٹی کی حلیف جماعتوں میں سندر سنگھ مجیٹھیا کی ’خالصہ پارٹی‘ اور منوہر لال کی ’نیشنل پروگریسو پارٹی‘ بھی شامل تھی۔

ایئن ٹیلبٹ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ’سکندر حیات نے اپنی کابینہ میں مختلف دھڑوں کے رہنماؤں کو جگہ دینے کے بعد نون ٹوانہ گروپ سے خضر حیات ٹوانہ کا انتخاب کیا۔‘

انھوں نے خضرحیات کو پبلک ورکس اور پنچایتی راج کی وزارتیں دی تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ خضر ٹوانہ کو اپنے والد عمر حیات ٹوانہ اور خاندان کے سیاسی اور سماجی اثر و رسوخ کے باعث وزارتیں ملی تھیں۔

جناح کے یونینسٹ پارٹی کے بارے میں خیالات

محمد علی جناح، لارڈ ماؤنٹ بیٹن اور جواہر لال نہرو
Getty Images
محمد علی جناح، لارڈ ماؤنٹ بیٹن اور جواہر لال نہرو

پروفیسر اشتیاق احمد بتاتے ہیں کہ جب کانگریس نے بڑے پیمانے پر زمینداری کے نظام کو ختم کرنے کا عندیہ دیا تو جناح نے سکندر حیات خان سے کہا کہ اگر آپ خود کو بچانا چاہتے ہیں تو مسلم لیگ سے سمجھوتہ کر لیں۔

پاکستان اور تقسیم ہند پر کئی کتابیں لکھنے والے ایئن ٹیلبٹ لکھتے ہیں کہ سکندر حیات خان اور جناح نے اکتوبر 1937 میں آل انڈیا مسلم لیگ کے لکھنؤ میں ہونے والے اجلاس میں ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے۔

پروفیسر اشتیاق احمد کے مطابق اس معاہدے میں طے پایا یونینسٹ پارٹی پنجاب میں حکومت بنائے گی اور مسلم لیگ اس میں مداخلت نہیں کرے گی۔ اس کے بدلے میں پنجاب کے باہر جب مسلمانوں کی بات آئے گی تو یونینسٹ پارٹی کے ارکان مسلم لیگ کی حمایت کریں گے۔

تاہم یہی معاہدہ بعد میں مسلم لیگ اور یونینسٹ رہنماؤں کے درمیان رسہ کشی کا باعث بنا۔

اشتیاق احمد کہتے ہیں کہ سر چھوٹو رام جیسے رہنماؤں کے جانب سے اس معاہدے پر تنقید دیکھنے میں آئی۔

پھر 1942 میں پنجاب کے وزیر اعظم سکندر حیات خان 50 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔ اس وقت انڈیا کی سیاسی صورتحال کافی سنگین تھی۔

مارچ 1942 میں جب ’کرپس مشن‘ انڈیا آیا تو کانگریس نے اس کی مخالفت میں ’انڈیا چھوڑو تحریک‘ کا آغاز کر دیا۔

سکندر حیات خان جنگ میں حصہ لینے کے حق میں تھے لیکن محمد علی جناح کی جانب سے ان پر بارہا دباؤ ڈالا گیا کہ وہ اس سے دستبردار ہو جائیں۔ اس کے علاوہ مسلم لیگ میں بھی سکندر حیات خان نے خود کو تنہا پایا اور آخری وقت میں انھوں نے استعفیٰ دے دیا۔

جون 1942 میں سکھ رہنماؤں بلدیو سنگھ اور سکندر سنگھ کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا جس کے تحت سکھوں کو ان محکموں میں نمائندگی دینے کا وعدہ کیا گیا جہاں ان کی تعداد 20 فیصد سے کم تھی۔

بلدیو سنگھ پنجاب کے ایک ممتاز سکھ تاجر تھے۔ بعد میں وہ آزاد انڈیا کے پہلے وزیر دفاع بھی بنے۔

خضر حیات ٹوانہ کون تھے؟

ٹوانہ قبیلے کی تاریخ کے بارے میں ایئن ٹیلبٹ لکھتے ہیں کہ یہ سب سے پہلے سندھ میں دوآب کے قریب آباد ہوا۔ وہاں سے ٹوانہ قبیلے کے لوگ لاہور کی طرف دریائے جہلم کے کنارے زیادہ زرخیز علاقوں میں آباد ہوئے۔

خضر ٹوانہ اسی جگہ پلے بڑھے۔ وہ اس زمانے کے امیر ترین زمینداروں میں سے ایک تھے۔ انگریزوں نے بھی اپنی فوج میں ایک الگ ریجمنٹ تشکیل دی جسے ’ٹوانہ لانسرز‘ کہا جاتا تھا۔

عمر حیات ٹوانہ اور ان کے بیٹے خضر حیات ٹوانہ کو فوج میں اعزازی کرنل کا عہدہ بھی دیا گیا تھا۔ فوج اور زمینوں سے حاصل ہونے والی آمدنی نے برطانوی پنجاب میں ان کی پوزیشن کو بہت مضبوط کیا اور وہ پنجاب کے ’فطری لیڈر بن کر ابھرے۔‘

ایئن ٹیلبٹ لکھتے ہیں کہ 1849 میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کی موت کے بعد انگریزوں نے پنجاب پر قبضہ کر لیا۔ سکھوں کی سلطنت کو فتح کرنے کے بعد انگریزوں نے سکھوں کے خلاف ان کا ساتھ دینے والوں کے خاندانوں کو انعامات اور جاگیریں دیں۔

1857 میں غدر کے موقع پر شاہ پور (موجودہ سرگودھا) کے خضر حیات ٹوانہ کے دادا ملک صاحب خان نے انگریزوں کا ساتھ دیا تھا۔ جس کی وجہ سے انگریزوں نے انھیں انتظامی عہدوں سے نوازا۔

خضر اپنے سیاسی نظریات میں برطانوی سلطنت کے کافی قریب سمجھے جاتے تھے۔ وہ انڈیا کی آزادی کے لیے سرگرم کارکن اور قوم پرست رہنماؤں کو حقیقی انڈیا کی سچائی سے بہت دور سمجھتے تھے۔

اس کی وجہ ان کا خاندانی پس منظر تھا۔

ایئن ٹیلبٹ لکھتے ہیں کہ خضر حیات ٹوانہ خود ایک ایماندار اور پرعزم آدمی تھے۔ انھوں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ انگریز اپنے یونینسٹ ساتھیوں کو اتنی جلدی چھوڑ دیں گے۔ تاہم وہ غلط ثابت ہوئے۔

خضر حیات کے والد عمر حیات خان ٹوانہ اور 'نواب آف پٹودی' افتخار علی خان پٹودی
Getty Images
خضر حیات کے والد عمر حیات خان ٹوانہ اور 'نواب آف پٹودی' افتخار علی خان پٹودی

ایئن ٹیلبٹ نے خضر حیات ٹوانہ کے مسلم لیگ میں شامل نہ ہونے کی وجوہات کے بارے میں بھی لکھا ہے۔

’خضر کی انگریزوں سے وفاداری کی وجہ ان کی شخصیت پرستی نہیں تھی۔۔۔ ان کا اس بات پر یقین تھا کہ پنجاب کی خوشحالی کا انحصار ریاست کے ساتھ تعلقات پر ہے۔ اگر ان کا مقصد زیادہ طاقت حاصل کرنا ہوتا تو وہ پہلے سیاست میں داخل ہوتے اور مسلم لیگ میں شامل ہو جاتے۔‘

ایئن ٹیلبٹ لکھتے ہیں کہ خضر حیات ٹوانہ کی شخصیت قائل کرنے والی تھی۔ ان کی پوشاک اور الگ الگ پگڑیوں کا سٹائل ان کی پہچان تھے۔

انھوں نے یہ انداز اپنے والد عمر حیات ٹوانہ سے سیکھا تھا۔

خضر حیات ٹوانہ کو استعفیٰ کیوں دینا پڑا؟

سنہ 1942 میں سکندر حیات کی موت کے بعد جب خضر حیات ٹوانہ پنجاب کے وزیر اعظم بنے تب تک عوام میں یونینسٹ پارٹی کی مقبولیت کافی کم ہو چکی تھی۔

اشتیاق احمد بتاتے ہیں کہ خضر ٹوانہ پنجاب کے وزیر اعظم تو بن گئے لیکن ان کے کئی مخالفین تھے جن میں سکندر حیات کے بیٹے شوکت حیات اور پنجاب کے ممدوٹ کے نواب شامل تھے۔

محمد علی جناح نے ان لوگوں کو مسلم لیگ میں شامل کر کے اپنے ساتھ کر لیا تھا۔ اشتیاق احمد بتاتے ہیں کہ محمد علی جناح نے یہ کہنا شروع کر دیا تھا کہ یونینسٹ پارٹی کی بربادی کی وجہ ’سکندر جناح معاہدہ‘ تھا۔

تاہم اس کے باوجود خضر ٹوانہ سیاست میں دوسری برادریوں کے ساتھ جڑے رہے۔ انھوں نے دیہی اور شہری لوگوں کی کمیونٹی ایسوسی ایشنز کو بھی اپنے ساتھ جوڑا۔

اشتیاق احمد کا کہنا ہے کہ جناح 1944 میں پنجاب آئے اور کہا کہ انھوں نے خضر حیات ٹوانہ کو پارٹی سے نکال دیا ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ انگریزوں نے کانگریس کو روکنے کے لیے مسلم لیگ کا ساتھ دینا شروع کیا جو یونینسٹ پارٹی کے زوال کی بڑی وجہ بنی۔

اسی دوران کئی زمیندار رہنما جو پہلے یونینسٹ پارٹی کے ساتھ تھے مسلم لیگ میں شامل ہو گئے۔

1946 کے صوبائی انتخابات کے بعد انھوں نے پنجاب میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کی آخری کوشش کے طور پر کانگریس اور اکالیوں کو اکٹھا کرنے کی کوشش کی۔

ایئن ٹیلبٹ لکھتے ہیں کہ خضر ٹوانہ کی کوئی واضح سیاسی پالیسی نہیں تھی لیکن اس کے باوجود وہ 1940 کی دہائی میں پنجاب میں فرقہ وارانہ توازن برقرار رکھنے میں کامیاب رہے۔

اس وقت تک انگریزوں نے مسلم لیگ کے حمایتیوں میں اضافہ کر دیا تھا اور یونینسٹ پارٹی کی مخالفت کرنے والے زمیندار بھی مسلم لیگ کے ساتھ شامل ہو گئے تھے۔

1946 کے انتخابات میں یونینسٹ پارٹی کو تقریباً 18 نشستیں حاصل ہوئیں لیکن مسلم لیگ 175 میں سے تقریباً 73 نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوئی۔

اشتیاق احمد کا کہنا ہے کہ ان انتخابات میں بہت سے اشتہارات سامنے آئے جن میں یونینسٹ پارٹی کے رہنماؤں کو ’کافر‘ بھی کہا گیا۔ لیکن اس کے باوجود مسلم لیگ پنجاب میں حکومت نہیں بنا سکی۔ اس کی وجہ کانگریس، پنتھک پارٹی اور ’دلتوں‘ کی مخالفت تھی۔

پھر پنجاب میں سکھ، دلت پارٹیوں اور کانگریس کی حمایت سے خضر حیات ٹوانہ کی قیادت میں حکومت بنائی گئی۔

اس کے بعد 24 جنوری 1947 کو محمد علی جناح نے ’ڈائیریکٹ ایکشن‘ کی کال دی۔

اشتیاق احمد بتاتے ہیں کہ 24 فروری سے 26 فروری 1947 تک پنجاب میں احتجاجی مظاہرے ہوئے اور اس دوران خضر ٹوانہ اور ان کے خاندان کے خلاف نعرے لگائے گئے۔

اشتیاق احمد کے مطابق ’انگریزوں کے انخلا کے اعلان نے ’ٹوانہ خاندان‘ کی ہمت توڑ دی تھی۔ وہ سمجھ گئے تھے کہ جن کے ہم وفادار تھے اگر وہ نہ رہے تو ان کا کوئی عہدہ نہیں ہو گا۔‘

ان کا مزید کہنا ہے کہ خضر حیات ٹوانہ نے دو مارچ کو استعفیٰ دے دیا۔ اشتیاق احمد بتاتے ہیں کہ ’مئی 1947 میں خضر حیات ٹوانہ نے انگریزوں کو مشورہ دیا کہ انڈیا اور پاکستان بنانے کے ساتھ ساتھ آپ متحدہ پنجاب کو تیسری ریاست بنائیں تاہم انگریزوں نے اسے قبول نہیں کیا۔‘

وہ مزید کہتے ہیں ’خضر حیات ٹوانہ ان لوگوں میں سے تھے جو پنجاب کے اتحاد پر یقین رکھتے تھے اور اس کے مطابق سیاست کرتے تھے۔‘

خضر حیات ٹوانہ کی موتسنہ 1975 میں امریکہ میں ہوئی تھی۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.