بنگلہ دیش کی مونا جن کا دل دائیں جبکہ معدہ، جگر سمیت دیگر جسمانی اعضا بائیں جانب تھے

مونا رانی داس میں ’سیٹس انورسس‘ کی بھی تشخیص ہوئی۔ یہ وہ غیر معمولی حالت ہے جس میں اہم اعضا اپنی نارمل جگہ پر نہیں بلکہ ریورس پوزیشن پر ہوتے ہیں۔ ان کے جگر، پھیپھڑوں، تلی اور معدے کو دائیں جانب ہونا چاہیے تھا مگر وہ بائیں جانب تھے۔ یہ انسانی جسم میں ’ہیومن اناٹومی‘ کے اصولوں کے برخلاف تھا۔
Bangladeshi woman Monarani Das after the operation
MANIPAL HOSPITAL BROADWAY
داس میں ڈیکسٹرو کارڈیا کی تشخیص ہوئی تھی جس میں کسی کا دل چھاتی میں بائیں جانب ہونے کی بجائے دائیں جانب ہوتا ہے

بنگلہ دیش کی مونا رانی داس کو دو سال قبل چھاتی کے دائیں جانب درد ہونا شروع ہوئی۔ خاندان والوں کو لگا کہ شاید انھیں تیزابیت یا ’ہارٹ برن‘ کی شکایت ہو گی۔

کسی کو یہ معلوم نہیں تھا کہ 52 سالہ خاتون ایک غیر معمولی بیماری سے متاثرہ ہیں جس کے باعث انھیں علاج کی غرض سے انڈیا جانا پڑے گا۔

بی بی سی بنگلہ کو دیے انٹرویو میں داس بتاتی ہیں کہ یہ علامات کیسے رونما ہوئیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’چھاتی کے دائیں جانب کچھ روز تک تکلیف کے بعد میرے لیے سانس لینا بھی مشکل ہوگیا تھا۔‘ کچھ دن بعد انھیں دل کا دورہ پڑا۔ علاج کے دوران ڈاکٹروں کو احساس ہوا کہ مسئلہ یہ ہے کہ ان کا دل وہاں نہیں جہاں اسے ہونا چاہیے تھا۔

داس کہتی ہیں کہ ’ڈاکٹروں کو معلوم ہوا کہ میرا دل چھاتی کی دائیں جانب تھا۔‘

جنوب مغربی بنگلہ دیش میں واقع ان کے آبائی شہر ساتکھیرا کے ڈاکٹروں نے ان میں ’ڈیکسٹرو کارڈیا‘ کی تشخیص تھی جس میں دل چھاتی کے بائیں جانب ہونے کی بجائے دائیں جانب ہوتا ہے۔

اس کے علاوہ داس میں ’سائیٹس انورسس‘ کی بھی تشخیص ہوئی۔ یہ وہ غیر معمولی حالت ہے جس میں اہم اعضا اپنی نارمل جگہ پر نہیں بلکہ ریورس پوزیشن پر ہوتے ہیں۔ ان کے جگر، پھیپھڑوں، تلی اور معدے کو دائیں جانب ہونا چاہیے تھا مگر وہ بائیں جانب تھے۔ یہ انسانی جسم میں ’ہیومن اناٹومی‘ کے اصولوں کے برخلاف تھا۔

مختلف مطالعوں سے یہ معلوم ہوا ہے کہ 12 ہزار بچوں کی پیدائش میں سے ایک بچہ ڈیکسٹرو کارڈیا سے متاثرہ ہوسکتا ہے۔

Graphic illustration of congenital disorder with abnormal positioning of the heart and other organs
BBC

جب خاندان کو احساس ہوا کہ داس کی حالت میں بہتری نہیں آ رہی تو انھوں نے مشرقی انڈین شہر کلکتہ میں امراض دل کے ماہر ڈاکٹر سے رجوع کا فیصلہ کیا۔

بنگلہ دیش میں کئی شہریوں کو یہ لگتا ہے کہ انڈیا میں بہتر طبی سہولیات ہیں۔ ہر سال علاج کی غرض سے لاکھوں لوگ انڈیا جاتے ہیں۔ داس فیملی نے بھی علاج کے لیے انڈیا جانے کی ٹھانی۔

منیپال ہسپتال بروڈوے کے ڈاکٹر سدھارت مکھرجی نے ان کا معائنہ کیا۔ انھوں نے مئی 2024 میں داس کا آپریشن کیا گیا۔

مکھرجی نے کہا کہ ’ڈیکسٹرو کارڈیا کے مریضوں کا آپریشن بہت مشکل ہوتا ہے۔ ہم خود اکثر دائیں ہاتھ کا استعمال کرتے ہیں اور ہمیں عموماً مریض کے بھی دائیں طرف ہی آپریشن کرنا ہوتا ہے۔‘

’اس کیس میں ہمیں مریض کے بائیں طرف آپریشن کرنا تھا۔ یہ کچھ حد تک نیا تجربہ تھا لیکن ہماری پوری ٹیم نے صورتحال کے مطابق خود کو ڈھال لیا تھا۔‘

یہ آپریشن کامیاب رہا اور اب داس واپس اپنے گھر بنگلہ دیش جا رہی ہیں۔ تاہم انھیں جلد ہی چیک اپ کے لیے انڈیا واپس آنا پڑے گا۔

دل کی پوزیشن میں تبدیلی

حال ہی میں ایک اور غیر معمولی طبی کیس انڈیا میں میڈیا کی توجہ حاصل کر رہا ہے۔ پیدائش کے وقت ایک انڈین مرد کا دل بائیں جانب تھا مگر وقت کے ساتھ اور طویل عرصے تک کھانسی کے دوران اس نے اپنی پوزیشن تبدیل کی۔

مغربی بنگال کے رہائشی 66 سالہ رضا الکریم کو بچپن سے سانس لینے میں دشواری رہتی تھی۔ وہ بی بی سی بنگلہ کو بتاتے ہیں کہ ’میں بچپن میں کھیلوں میں حصہ لیتا تھا لیکن بعض اوقات مجھے سانس نہیں آتا تھا اور بہت کھانسی ہوتی تھی۔‘

’بعد میں، میں نے قریب 25 سال قریب تک سیاست میں حصہ لیا۔ میں ادھر ادھر جاتا رہتا تھا۔ میں نے مقامی ڈاکٹر سے معائنہ کروایا اور وہ مجھے باقاعدگی سے دوا دیتے رہتے تھے۔‘

لیکن کچھ سال قبل کریم کو کمزوری ہونے لگی۔ ان کی پریشان حال بیٹی انھیں کلکتہ میں میڈیکا سپر سپیشلٹی ہسپتال میں ایک ڈاکٹر کو دکھانے لے آئیں۔

Reza-ul Karim waiting at hospital
MEDICA SUPERSPECIALITY HOSPITAL
رضا الکریم کا دل بچپن میں تپ دق کے بعد بائیں سے دائیں جانب آگیا تھا

کریم کہتے ہیں کہ ’سانس لینے میں دشواری اس قدر بڑھ گئی تھی کہ نماز ادا کرتے وقت کھڑا ہونا مشکل تھا۔ میں نماز کے دوران دو، تین بار بے ہوش ہوا۔‘

ڈاکٹروں کو معلوم ہوا کہ بچپن میں وہ تپ دق کی بیماری میں مبتلا ہوئے تھے جس کے بعد ان کا دل بائیں جانب سے دائیں جانب آ گیا تھا۔ ڈاکٹروں نے ان کے دل کو فعال رکھنے اور سانس کا مسئلہ ختم کرنے کے لیے پیس میکر لگانے کا فیصلہ کیا۔

جون میں کریم اور ان کے خاندان کو بغیر مزید معلومات دیے ’فوری آپریشن‘ کا کہا گیا۔ پیس میکر لگانے کی تین گھنٹے طویل سرجری کے بعد انھیں اس غیر معمولی آپریشن کے بارے میں بتایا گیا۔

پیس میکر ایک چھوٹی الیکٹرانک ڈیوائس کو کہتے ہیں جو جسم میں اس لیے نصب کی جاتی ہے تاکہ دل کی دھڑکن کی نگرانی ہوسکے۔ یہ ڈیوائس یقینی بناتی ہے کہ کہیں دل کی دھڑکن آہستہ نہ ہوجائے جو کسی مریض کے لیے بہت خطرناک ہوتا ہے۔

File image of doctors conducting surgery on a patient.
Getty Images
کریم کی سرجری غیر معمولی تھی کیونکہ پیس میکر اکثر بائیں جانب موجود دل پر نصب کیا جاتا ہے

کریم کا آپریشن کرنے والے ڈاکٹر دلیپ کمار کہتے ہیں کہ یہ سرجری بہت غیر معمولی تھی کیونکہ پیس میکر اکثر بائیں جانب موجود دلوں میں نصب کیے جاتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ طبی ٹیم نے کنڈکشن سسٹم پیسنگ (سی ایس پی) کا طریقہ کار استعمال کیا جو کہ کبھی بھی دائیں جانب موجود دل کے لیے نہیں کیا گیا۔

برٹس کارڈیئک سوسائٹی کے مطابق سی ایس پی پیسنگ کا ایک غیر معمولی طریقہ جس میں دل کی دھڑکن کے اپنے نظام کی مدد سے اس کی سرگرمیوں کو فعال رکھا جاتا ہے۔

آسان لفظوں میں یہ کہ سی ایس پی کے ذریعے ایک پیس میکر ڈیوائس دل کی دھڑکن کو رواں اور معمول کے مطابق رکھتی ہے۔

سرجری کے بعد سے کریم کی صحت بہتر ہے اور جلد ان کا دوبارہ معائنہ کیا جائے گا۔ ڈاکٹروں کے مطابق ان انھیں سانس لینے میں دشواری نہیں ہوتی اور وہ بغیر بے ہوشش ہوئے اطمینان سے نماز ادا کر سکتے ہیں۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.