فیض حمید کا کورٹ مارشل: آئی ایس آئی کے سربراہان ریٹائرمنٹ کے بعد بھی تنازعات کی زد میں کیوں رہتے ہیں؟

پاکستان میں خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کے سربراہ کی نہ صرف تعیناتی خبروں کی زینت بنتی ہے بلکہ اس عہدے پر کام کرنے اور ریٹائرمنٹ کے بعد بھی تنازعات کا سلسلہ تھم نہیں پاتا۔
پاکستانی فوج
Getty Images

پاکستان میں خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کے سربراہ کی نہ صرف تعیناتی خبروں کی زینت بنتی ہے بلکہ اس عہدے پر کام کرنے اور ریٹائرمنٹ کے بعد بھی تنازعات کا سلسلہ تھم نہیں پاتا۔

ماضی میں کچھ سابق آئی ایس آئی چیفس کو اپنے دور میں لیے گئے فیصلوں پر وضاحتیں دینا پڑیں تو بعض کے خلاف پاکستانی فوج کو خود انضباطی کارروائی کرنا پڑی۔ ایسا بھی ہوچکا ہے کہ ایک ریٹائرڈ ’سپائی ماسٹر‘ کو عام عدالتوں میں پیش ہونا پڑا۔

اس کی تازہ مثال لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) فیض حمید ہیں جن کے خلاف پاکستان آرمی ایکٹ کی ’خلاف ورزیوں‘ پر کورٹ مارشل کا عمل شروع کیا گیا ہے۔

فیض حمید 2019 سے 2021 کے دوران سابق وزیر اعظم عمران خان کے دورِ میں آئی ایس آئی کے سربراہ رہے تھے اور ان کے پیشرو جنرل عاصم منیر تھے جو اب آرمی چیف ہیں۔ فیض حمید نے دسمبر 2022 کے دوران قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی تھی۔

مگر اب سیاسی اور دفاعی امور کے مبصرین فیض حمید کی گرفتاری کو فوج کی حالیہ تاریخ کا ایک غیر معمولی واقعہ قرار دے رہے ہیں۔

ان کے مطابق اس کے فوج اور ملک کی سیاست پر بھی گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔

ماضی میں آئی ایس آئی کے سربراہان کیوں تنازعات کا شکار ہوئے؟

آئی ایس آئی پاکستان کی ایک ایسی خفیہ ایجنسی ہے جس کے سربراہ کا باس وزیراعظم ہوتا ہے۔ وزیراعظم اپنی مرضی کے کسی بھی شخص کو اس عہدے پر فائز کر سکتا ہے۔ مگر یہ اور بات ہے کہ زیادہ تر اس عہدے پر فوج کا حاضر سروس سینیئر افسر ہی تعینات کیا جاتا ہے جو لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر فائز ہوتا ہے۔

پاکستان کی حالیہ تاریخ میں آئی ایس آئی کے متعدد سربراہان کو دوران ملازمت یا پھر ملازمت کے بعد تحقیقات کا سامنا رہا۔ شجاع نواز نے اپنی کتاب ’کراسڈ سورڈز‘ میں لکھا کہ بینظیر بھٹو جب پہلی بار وزیراعظم بنیں تو انھوں نے آرمی چیف سے بات کر کے حمید گل کو اس عہدے سے ہٹا کر ان کی کور کمانڈر ملتان کے طور پر تعیناتی کرا دی۔

شجاع نواز لکھتے ہیں کہ اس کے بعد پہلی بار جب ایک ریٹائرڈ جنرل شمس الرحمان کلو کو ایجنسی کا سربراہ تعینات کیا گیا تو اس وقت کے آرمی چیف جنرل مرزا اسلم بیگ نے ’ایم آئی‘ یعنی ملٹری انٹیلیجنس پر انحصار بڑھا دیا اور یوں آئی ایس آئی بھی وزیراعظم کو زیادہ اور بروقت معلومات دینے سے قاصر رہی۔

سیاسی مبصرین کے مطابق فوج میں اب یہ روایت مضبوط ہو گئی ہے کہ اس عہدے پر وہی تعینات ہو گا جو حاضر سروس ہو۔ یوں آئی ایس آئی کا عملاً کنٹرول وزیر اعظم کے دفتر کی بجائے فوج کے پاس ہی رہتا ہے۔

شجاعنواز کے مطابق بینظیر کے والد ذوالفقار علی بھٹو نے آئی ایس آئی کے اندر سیاسی سیل قائم کیا جس سے اس ادارے کی سیاسی امور میں مداخلت بڑھی اور پھر جب بینظیر وزیراعظم بنیں تو آئی ایس آئی کے اندر یہ سیل ان کے لیے چیلنج کے طور پر سامنے آیا۔

اسد درانی
BBC

جب اسد درانی پر ’ملک دشمنی‘ کا الزام لگایا گیا

سابق آئی ایس آئی چیف اسد درانی پہلے سنہ 1990 کے انتخابات میں دھاندلی کے معاملے پر اصغر خان کیس میں سپریم کورٹ پیشیاں بھگتتے رہے اور پھر وہ عدالت کے سامنے مہران بینک سکینڈل میں اپنے ملوث ہونے کے اعتراف کے ساتھ وہاں سے باہر نکلے۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں وفاقی تحقیقاتی ادارے کو اس معاملے میں مزید تحقیقات کرنے کا حکم دے کر کیس نمٹا دیا تھا۔

مصنف شجاع نواز کے مطابق فوجی آمر ضیاالحق کی موت کے بعد پنجاب میں بینظیر بھٹو کو ’ہرانے کے لیے‘ ڈی جی آئی ایس آئی حمید گل نے اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان اور آرمی چیف جنرل مرزا اسلم بیگ کے ساتھ مل کر اپوزیشن جماعتوں کا ایک اتحاد ’آئی جے آئی‘ کے نام سے قائم کیا۔

جب اسد درانی ڈی جی آئی ایس آئی بنے تو پھر ان کے ذریعے اس اتحاد میں شامل جماعتوں میں ’پیسے تقسیم کروائے گئے‘ جس کا حلف نامہ اسد درانی نے سپریم کورٹ میں دیا تھا۔

اسد درانی نے بعد میں عدالت کو یہ بتایا کہ انھوں نے جو بھی کیا وہ اپنے باس یعنی اس وقت کے آرمی چیف جنرل اسلم بیگ کے کہنے پر کیا تھا۔

تاہم اسد درانی کو اس وقت جی ایچ کیو کے چکر لگانا پڑے اور سخت تادیبی کارروائی کا سامنا کرنا پڑا جب انھوں نے انڈیا کی خفیہ ایجنسی را کے سابق چیف کے ساتھ مل کر ایک کتاب لکھی۔

وزارت دفاع نے ان پر ’ملک دشمن سرگرمیوں‘ میں ملوث ہونے جیسے الزامات عائد کیے، جن کی اسد درانی نے تردید کی۔ اسد درانی کے مطابق سیاسی معاملات میں فوج کی مداخلت ’ایک حقیقت اور ملک کے لیے نقصان دہ ہے۔‘

اسد درانی نے اپنی کتاب ’پاکستان آ ڈرِفٹ‘ میں لکھا کہ سویلین حکمران بھی فوج کے مزاج سے واقفیت نہیں رکھتے اور وہ ’اپنا بندہ‘ تلاش کرنے کی غلطی کر بیٹھتے ہیں جبکہ ’فوج کا بندہ فوج کی قیادت کو ہی جوابدہ ہوتا ہے۔‘

ضیاالدین بٹ جو وزیر اعظم کے حکم کے باوجود آئی ایس آئی چیف سے آرمی چیف نہ بن سکے

ضیاالدین بٹ
Getty Images

12 اکتوبر 1999 کو سابق وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت کے خلاف فوجی بغاوت ہوئی اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ضیاالدین بٹ کو گرفتار کیا گیا جنھیں نواز شریف نے آرمی چیف تعینات کیا تھا۔

فوجی بغاوت سے قبل لیفٹیننٹ جنرل (ر) ضیاالدین بٹ نے ایک سال تک ڈی جی آئی ایس آئی کے طور پر فرائض سرانجام دیے تھے۔

دفاعی تجزیہ کار عمر فاروق نے 12 اکتوبر 2021 کو بی بی سی کے لیے ایک تحریر میں لکھا تھا کہ ’ڈی جی آئی ایس آئی کے طور پر تعیناتی کے بعد لیفٹیننٹ جنرل ضیاالدین فوجی حلقوں میں ایک ایسے جنرل کے طورپر مشہور ہو گئے تھے جن کا نوازشریف سے خون کا رشتہ ہے۔‘

عمر فاروق کی تحریر کے مطابق ’اقتدار پر قبضے کے بعد پرویز مشرف اپنے دوستوں سے یہ مذاق کرتے تھے کہ 1998 میں چیف آف آرمی سٹاف بننے کے بعد جیسا کہ انھوں نے سوچا تھا کہ وہ جنرل ضیا الدین کو چیف آف جنرل سٹاف اور لیفٹیننٹ جنرل عزیز خان کو ڈی جی آئی ایس آئی لگائیں گے۔ اگر ان کے منصوبے کے مطابق (یہ تقرریاں ہو جاتیں) اور نواز شریف مجھے ہٹانے کی کوشش کرتے تو یہ کوشش کامیاب ہو جاتی۔‘

’جنرل مشرف بطور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ضیاالدین پر اعتماد نہیں کرتے تھے، اول دن سے انھوں نے آئی ایس آئی سے کلیدی فائلیں اور منصوبہ جات واپس لے لیے تھے اور کشمیر و افغانستان سے متعلقہ ذمہ داری اس وقت کے چیف آف جنرل سٹاف لیفٹیننٹ جنرل عزیز خان کو سونپ دی تھی جو اس سے قبل آئی ایس آئی میں اپنی سروس کے دوران کشمیر اور افغانستان سے متعلق امور نبھا چکے تھے۔‘

تاہم ’نوازشریف نے ضیاالدین کو ڈی جی آئی ایس آئی بنا دیا جس کے نتیجے میں مشرف اپنے سابقہ آئی ایس آئی کے قریبی سمجھے جانے والے ساتھی لیفٹیننٹ جنرل عزیز خان کو چیف آف جنرل سٹاف لگانے پر مجبور ہوئے جو مشرف کے مطابق ایک ایسا کلیدی منصب تھا جس کی بنا پر 12 اکتوبر 1999 کی شام وزیراعظم نوازشریف کی انھیں چیف آف آرمی سٹاف کے عہدے سے ہٹانے کی کوشش ناکامی میں بدل گئی۔‘

پرویز مشرف کی کتاب ’ان دی لائن آف فائر‘ کے مطابق جنرل ضیا الدین نے وزیراعظم ہاﺅس کی دہلیز پر اصرار کیا کہ وہ نئے چیف آف آرمی سٹاف ہیں اور ٹرپل وَن بریگیڈ کے دستوں کو ان کی کمانڈ میں ان کے حکم کو ماننا ہو گا۔

تاہم ’کرنل شاہد علی نے ان کی بات سننے سے انکار کر دیا۔ بعدازاں ان کی حفاظت پر مامور ایس ایس جی (سپیشل سروسز گروپ) کمانڈوز نے اپنے ہتھیار ڈال دیے جس کے بعد زبردستی ان سے ’سرنڈر‘ کرایا گیا۔‘

ظہیر الاسلام جو 2014 کے دھرنوں کے باعث متنازع ہوئے

ظہیر الاسلام
AFP

حالیہ تاریخ میں آئی ایس آئی کے سابق سربراہ ظہیر الاسلام سنہ 2014 میں عمران خان کی تحریک انصاف اور طاہر القادری کی جماعت کے دھرنوں کی وجہ سے تنقید کی زد میں آئے۔ پھر ان کی ریٹائرمنٹ سے دو ماہ قبل ہی ان کے جانشین کے نام کا اعلان کر دیا گیا۔

سابق وزیراعظم نواز شریف کی کابینہ کے ایک اہم رکن اور قریبی ساتھی نے اگست 2015 کو بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو دعویٰ کیا تھا کہ اسلام آباد میں تحریکِ انصاف اور عوامی تحریک کے دھرنوں کے دوران آئی ایس آئی کے اس وقت کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام عباسی نے ایک ’سازش تیار کی تھی‘ جس کے ذریعے وہ فوجی اور سول قیادت کو ہٹا کر ملک پر قبضہ کرنا چاہتے تھے۔

چند ماہ قبل نواز شریف نے بھی ایک پریس کانفرنس میں ظہیرالاسلام پر یہی الزامات دہرائے اور کہا کہ انھیں استعفی دینے یا پھر طویل رخصت پر جانے کا پیغام دیا گیا تھا۔ ظہیرالاسلام اس الزام کی تردید کر چکے ہیں۔

جون 2022 کے دوران ظہیر الاسلام پر ایک بار پھر اس وقت تنقید کی گئی جب وہ اپنی ریٹائرمنٹ کے کئی سال بعد پاکستان تحریک انصاف کے ایک سیاسی اجتماع میں تقریر کرتے نظر آئے۔

اس تقریب کی ویڈیو میں جنرل (ر) ظہیر الاسلام کو تقریر کرتے سنا گیا کہ ’میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میں سیاستدان نہیں ہوں، میں ’ایکچویئلی نیوٹرل (سچ میں نیوٹرل)‘ ہوں۔ میں بالکل غیر سیاسی ہو کر آپ سے بات کر رہا ہوں‘، جس کے بعد وہاں موجود لوگوں نے تالیاں بجائیں۔

جنرل (ر) ظہیر الاسلام نے کہا کہ ’ہم نے یہ نہیں دیکھنا کہ امیدوار کون ہیں، ہم نے دیکھنا ہے کہ ہم نے کس سسٹم کو ووٹ دینا ہے اور وہ سسٹم ہمیں پی ٹی آئی میں نظر آتا ہے۔‘

ظہیرالاسلام سے جب ایک بار میں نے اس متعلق سوال کیا تو انھوں نے یہ جواب دیا تھا کہ وہ اپنی مدت ملازمت پوری کر کے ریٹائر ہوئے ہیں اور ان کے خلاف کسی قسم کی کارروائی نہیں کی گئی۔

یاد رہے کہ 2023 کے دوران پاکستان آرمی ایکٹ میں ایک ترمیم منظور کی گئی جس کے تحت جو فوجی افسر دوران سروس ایسے عہدے پر فائز رہا ہو جو آرمی ایکٹ کے تحت آتا ہو اور جسے ’حساس‘ قرار دیا گیا ہے وہ اپنی ریٹائرمنٹ، یا مستعفی ہونے، یا پھر برطرفی کے پانچ سال مکمل ہونے تک سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لے سکتا۔

تنازعے آئی ایس آئی کے سربراہان کا ریٹائرمنٹ کے بعد بھی پیچھا کیوں نہیں چھوڑتے؟

اس سوال پر کہ تنازعے آئی ایس آئی کے سربراہان کا ریٹائرمنٹ کے بعد بھی پیچھا کیوں نہیں چھوڑتے، لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ طلعت مسعود کا ماننا ہے کہ اس کی وجہ فوج کی سیاست میں مداخلت ہے۔

طلعت مسعود کہتے ہیں کہ ’صرف آئی ایس آئی کے سربراہ کی بات نہیں ہے بلکہ فوج پاکستان بننے سے لے کر آج تک کسی نہ کسی طور سیاست میں ملوث رہی ہے اور یہ پورے ادارے کی مداخلت ہے۔ جہاں کہیں اگر فوج کسی معاملے سے دور بھی رہی تو سویلین حکمران انھیں اپنے مقاصد کے لیے سیاست میں گھسیٹ لائے۔‘

یوں ان کی رائے میں فوج کی سیاست میں مداخلت ’ملک کے پورے نظام کی کمزوری کو بھی ظاہر کرتی ہے۔‘

واضح رہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان نے مئی 2022 میں نشر ہونے والی ایک گفتگو کے دوران کہا تھا کہ آئی ایس آئی چیف کی تعیناتی کے معاملے پر اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ان کا اختلاف ہوا تھا کیوں کہ ’میں چاہتا تھا کہ فیض حمید کچھ عرصہ اور رہیں کیوں کہ ہمیں خبریں مل رہی تھیں کہ ن لیگ والے کوئی منصوبہ بنا رہے ہیں۔‘ عمران خان نے اس کی ایک اور وجہ افغانستان کی صورت حال بھی بتائی۔

تاہم عمران خان کے بیان سے واضح ہوتا ہے کہ کیسے پاکستان میں آئی ایس آئی چیف کا عہدہ وزیر اعظم اور آرمی چیف کے درمیان مسائل پیدا کرنے کی وجہ بن جاتا ہے۔

آئی ایس آئی کی تاریخ لکھنے والے تاریخ دان ڈاکٹر ہین جی کیسلنگ نے ’دی آئی ایس آئی آف پاکستان: فیتھ یونٹی اینڈ ڈسپلن‘نامی کتاب میں لکھا ہے کہ کیسے ماضی میں فوجی قیادت آئی ایس آئی ہیڈکوارٹرز میں وزیراعظم کے افراد کو نظرانداز اور نامنظور کرتے آئے ہیں۔ اس موضوع پر ان کی تحقیق سے معلوم ہوا کہ سویلین قیادت نے ہمیشہ یہ کوشش کی کہ وہ آئی ایس آئی ہیڈکوارٹر میں اپنے بندے لائیں جو ہمیشہ مایوسی اور جھنجھلاہٹ سے دوچار ہوئی۔

ایسے میں کیا آئی ایس آئی کا سربراہ صرف سیاسی مداخلت کی وجہ سے ہی متنازع ہوتا ہے یا پھر اس کی کوئی اور وجہ بھی ہوتی ہے؟

تجزیہ کار زاہد حسین نے بی بی سی کو بتایا کہ آئی ایس آئی کے سربراہان جو بھی کر رہے ہوتے ہیں وہ ’لیڈرشپ کی طرف سے ملنے والے احکامات پر ہی ایسا کرتے ہیں۔‘

ان کے مطابق آئی ایس آئی کے سربراہان میڈیا میں زیادہ نمایاں ہو جاتے ہیں مگر انھوں نے جو کچھ اپنی کمانڈ کے کہنے پر کیا ہوتا ہے، ’اس پر ان کا محاسبہ نہیں کیا جاتا۔‘

ان کی رائے میں بعض دفعہ یہ سربراہان ’گرے ایریاز‘ میں بھی چلے جاتے ہیں یعنی ان کی سرگرمیوں کے بارے میں ابہام پیدا ہوتا ہے۔

دفاعی امور کی تجزیہ کار عائشہ صدیقہ کا کہنا ہے کہ ’افغان جہاد کے بعد آئی ایس آئی کی سربراہی غیرمعمولی اہمیت اختیار کر گئی ہے، جس کی وجہ سے آئی ایس آئی کے سربراہان پر زیادہ انگلیاں اٹھتی ہیں۔‘

ان کی رائے میں آئی ایس آئی کے سابق سربراہان کے جن تنازعات کا ذکر کیا جاتا ہے وہ ’ادارے اور ریاستی پالیسی کے عین مطابق تھے۔‘

ان کے مطابق امریکی کنٹریکٹر ریمنڈ ڈیوس کی امریکی حوالگی کی بات ہو یا پھر صدر آصف زرداری کے خلاف میمو گیٹ، ’یہ سب اس وقت کے آئی ایس آئی کے سربراہ شجاع پاشا خود نہیں کر رہے تھے بلکہ وہ اس وقت ریاستی اور ادارے کی پالیسی پر چل رہے تھے۔‘

’فیض حمید ریٹائرمنٹ کے بعد بھی بااختیار تھے‘

یاد رہے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی جنرل فیض حمید کا نام مختلف فورمز پر گونجتا رہا جس میں عدالت عظمیٰ بھی شامل ہے۔ سپریم کورٹ کی طرف سے انھیں فیض آباد دھرنے میں تو کلین چٹ مل گئی مگر پھر ٹاپ سٹی کیس میں ان کے کردار سے متعلق تحقیقات فوج کو سونپ دی گئی تھیں۔

یہ واضح رہے کہ اب تک پاکستان فوج کی جانب سے فیض حمید کے خلاف الزامات کے بارے میں باضابطہ طور پر کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا جس میں یہ تفصیلات بتائی گئی ہوں کہ ان کے خلاف کارروائی کی وجہ کیا ہے۔

مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما اور سینیٹر عرفان صدیقی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ ’فیض حمید عمران خان کی خواہشات کی تکمیل کرتے تھے، عدلیہ میں کھل کر مداخلت کرتے تھے اور یہاں تک کہ اسمبلی بجٹ سمیت دیگر قانون سازی کے لیے دباؤ ڈالتے تھے۔‘

وہ الزام عائد کرتے ہیں کہ ’فیض حمید آئی ایس آئی سے جانے کے بعد بھی تحریک انصاف کے لیے حکمت عملی بناتے رہے۔ ان کے بقول شاید ہی کوئی سابق آئی ایس آئی چیف ملک کی سیاسی تاریخ میں اس حد تک ملوث رہا ہو۔‘

جن تجزیہ کاروں سے بی بی سی نے بات چیت کی ان کا ماننا ہے کہ جنرل فیض حمید کا معاملہ باقی آئی ایس آئی سربراہان سے قدرے مختلف ہے۔

اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے عائشہ صدیقہ کا کہنا تھا کہ ’فیض حمید کو ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ایک حاضر سروس فوجی سربراہ کے خلاف افسران اور اہلکاروں کو اُکسانے جیسے الزامات کا سامنا ہے۔‘

سابق وزیر داخلہ جنرل معین الدین حیدر بھی اس بات سے متفق ہیں۔ ان کے مطابق اس وقت فیض حمید کا معاملہ بظاہر ان کے ریٹائرمنٹ کے بعد کے معاملات سے متعلق ہے اور ’آئی ایس آئی کے دیگر سربراہان سے اس کا موازنہ نہیں کیا جا سکتا ہے۔‘

تجزیہ کار اور سینیئر صحافی حامد میر نے بی بی سی سے بات چیت کرتے ہوئے فیض آباد دھرنا کیس کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ فیض حمید کو اس کیس میں بھی کلین چٹ ملنے سے واضح ہوتا ہے کہ ’وہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی کتنے بااختیار تھے۔‘

حامد میر کا خیال ہے کہ عوام کو یہ بتایا جانا چاہیے کہ فیض حمید کو گرفتار کیوں کیا گیا اور ان کا کورٹ مارشل کن الزامات کی بنیاد پر کیا جا رہا ہے۔ تاہم انھوں نے کہا کہ ’ریاست میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ فیض حمید اور شریک جرم افراد کا بھی محاسبہ کر سکے‘۔

زاہد حسین کا ماننا ہے کہ فیض حمید کے خلاف کارروائی میں آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں زیادہ زور ان کی ’ریٹائرمنٹ کے بعد کی سرگرمیوں‘ پر دیا گیا ہے، یعنی دوران ملازمت انھوں نے جو کیا اس کے لیے بظاہر یہ محاسبہ نہیں ہو رہا ہے کیونکہ جو ہاؤسنگ سوسائٹی والا معاملہ ہے یہ سات سال پرانا کیس ہے جس پر اگر فوج میں واقعی مؤثر احتساب کا عمل ہوتا تو پھر اس وقت ان کا یہ احتساب ہو جاتا۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.