کولکتہ میں ڈاکٹر کے ریپ اور قتل کے بعد ہزاروں خواتین سڑکوں پر: ’ہماری اوقات گائے، بکریوں سے بھی کم ہے‘

کولکتہ میں ہسپتال کی ایک ڈاکٹر کے ریپ اور قتل کے بعد سے شہر کے حالات کشیدہ ہیں۔ ہزاروں خواتین نے بدھ کی شب احتجاجی مارچ کیا ہے۔ مجموعی طور پر یہ احتجاجی مظاہرے پُرامن رہے لیکن آر جی کار ہسپتال میں کچھ نامعلوم افراد اور پولیس اہلکاروں میں جھڑپیں ہوئیں اور شعبہ ایمرجنسی میں توڑ پھوڑ بھی کی گئی۔

انڈیا کی ریاست مغربی بنگال میں ایک سرکاری ہسپتال کی خاتون ڈاکٹر کے ریپ اور قتل کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے بدھ کی راتہزاروں خواتین سڑکوں پر نکل آئیں۔

کولکتہ کے آر جی کار میڈیکل کالج میں گذشتہ ہفتے جمعے کو 31 سالہ ٹرینی ڈاکٹر کے ریپ اور قتل کے سبب ملک بھر میں غم و غصہ پایا جا رہا ہے۔

آر جی کار میڈیکل کالج کی خاتون ڈاکٹر جمعے کی شب 36 گھنٹے کی سخت شفٹ کے بعد ہسپتال میں خواتین کے لیے آرام کی مخصوص جگہ نہ ہونے کے باعث ایک سیمینار ہال میں سو گئی تھی۔ اگلی صبح، ان کے ساتھیوں کو ہال میںپوڈیم کے قریب ان کی نیم برہنہ لاش ملی تھی جس پر بہت زیادہ زخم تھے۔

اس جرم کے الزام میں پولیس نے ہسپتال کے ایک رضاکار کارکن کو گرفتار کر لیا ہے۔

اس حوالے سے سوشل میڈیا پر بھی ایک مہم چلائی گئی اور اسی وجہ سے بدھ کی رات کو مغربی بنگال میں ہزاروں خواتین سڑکوں پر نکل آئیں اور برسات میں بھی گلیوں میں مارچ کرتی رہیں۔

مجموعی طور پر یہ احتجاجی مظاہرے پُرامن رہے لیکن آر جی کار ہسپتال میں کچھ نامعلوم افراد اور پولیس اہلکاروں میں جھڑپیں ہوئیں اور شعبہ ایمرجنسی میں توڑ پھوڑ بھی کی گئی۔ پولیس کو ان افراد کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کے شیل کا استعمال کرنا پڑا اور اس دوران کچھ گاڑیوں کو بھی نقصان پہنچا۔

خاتون ڈاکٹر کے ریپ اور قتل کے خلاف مغربی بنگال کے علاوہ انڈیا کے دیگر شہروں نئی دہلی، حیدرآباد، ممبئی اور پونے میں بھی احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔

پولیس کے مطابق ریپ اور قتل کا یہ واقعہ راتتین سے صبح چھ بجے کے درمیان پیش آیا۔

انڈین خبر رساں ادارے پی ٹی آئی نے ایک پولیس افسر کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ جائے وقوعہ سے ایسے شواہد ملے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ خاتون ڈاکٹر کو پہلے قتل کیا گیا اور پھر اُن کا ریپ کیا گیا۔

ریپ کیس
AFP
کولکتہ شہر میں احتجاج کا ایک منظر

بدھ کی رات کولکتہ شہر میں خواتین مظاہرین نے ہاتھوں میں پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے اور ان کے چہرے موبائل فون کی روشنیوں میں جگمگا رہے تھے۔ یہ تمام خواتین ایک ہی نعرہ لگا رہی تھیں: ’ہمیں انصاف چاہیے۔‘

جیسے ہی رات کے 12 بجے انڈیا کا 78واں یومِ آزادی شروع ہوگیا لیکن اس وقت بھی کولکتہ شہر خواتین مظاہرین کے نعروں سے گونج رہا تھا۔

وہاں موجود ایک نیوز چینل کے صحافی کا کہنا ہے کہ ’ہم نے اس شہر میں ایسا پہلے کبھی نہیں دیکھا، خواتین کی اتنی بڑی تعداد سڑکوں پر مارچ کر رہی تھی۔‘

یہ غصے اور مایوسی کے اظہار کی ایک رات تھی

گذشتہ شب 12 بجے کے بعد ایک خاتون اپنی 12 برس کی بیٹی کے ساتھ اس احتجاج میں شامل ہوئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’میں اپنی بیٹی کو دکھانا چاہتی ہوں کہ کیا ایک بڑے احتجاج سے چیزیں ٹھیک ہو سکتی ہیں۔ اُسے اپنے حقوق سے آگاہ ہونے دیں۔‘

وہاں موجود ایک اور خاتون نے کہا کہ ’خواتین کی یہاں کوئی عزت نہیں۔ ہماری اوقات گائے اور بکریوں سے بھی کم ہے۔‘

احتجاجی مظاہرے میں شامل ایک طلبہ کا کہنا تھا کہ ’آخر ہمیں آزادی کب ملے گی؟ کسی بھی ڈر کے بغیر کام کرنے کے لیے کیا ہمیں مزید 50 برس لگیں گے؟‘

سنچاری مکھرجی کہتی ہیں کہ تیز بارش کے باوجود وہ جادیوپور کے بس ٹرمینل سے ہزاروں خواتین کے ساتھ مارچ کرتی ہوئی وہاں پہنچی تھیں۔

وہ کہتی ہیں کہ انھوں نے اس احتجاج میں ہر عمر اور طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کو شامل دیکھا۔

ان کے مطابق ’وہاں ایک بزرگ جوڑا بھی موجود تھا، ایک شوہر اپنی بیوی کو چلنے میں مدد دے رہے تھے۔‘

’ایک خاندان اپنی کم عمر بیٹی کو بھی اپنے ساتھ لایا، شاید اس لیے کہ اس موقع کی یادیں اس کے ذہن میں بسائی جا سکیں، کہ کیسے اس کے والدین ناانصافی کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے تھے۔‘

سنچاری احتجاجی مظاہروں کا احوال بتاتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے ہر نوجوان لڑکی تکلیف میں ہو، مایوس ہو کہ اسے 2024 میں بھی ایسے مسائل کا سامنا ہے۔‘

خواتین کے احتجاجی مظاہروں کے منتظمین نے اس حوالے سے ایک ایڈوائزری بھی جاری کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ’ہمارے ساتھ مرد بھی بطور اتحادی اور مبصر شامل ہو سکتے ہیں۔‘

تاہم ان کی جانب سے یہ واضح کیا گیا تھا کہ سیاستدانوں کو مارچ میں حصہ لینے کی اجازت نہیں اور نہ ہی کسی سیاسی جماعت کے جھنڈے کو اس دوران لہرانے کی اجازت ہو گی۔

ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ انڈیا میں ’ری کلیم دا نائٹ مارچ‘ کا انعقاد کیا گیا ہو۔ سنہ 1978 میں ممبئی میں بھی اسی طرح کے احتجاجی مظاہرے ہوئے تھے جب ایک خاتون کے ریپ کے خلاف سڑکوں پر لوگ نکل آئے تھے۔

لیکن کولکتہ میں گذشتہ رات ہونے والا احتجاجی مظاہرہ ممبئی میں ہونے والے مظاہروں سے بڑا تھا۔

احتجاج میں شامل چیتالی سین نامی ایک خاتون کہتی ہیں کہ ’ہم نے یہ رات اپنے نام کر لی ہے۔ ہم نے اس شہر میں ایسا کبھی نہیں دیکھا۔ میں امید کرتی ہوں کہ شاید اب حکام جاگ جائیں گے۔‘

پولیس کا ملزم کو گرفتار کرنے کا دعویٰ

دوسری جانب کولکتہ پولیس کا کہنا ہے کہ انھوں نے خاتون کو ریپ کرنے والے ملزم کو واقعے کے چھ گھنٹے بعد ہی گرفتار کر لیا ہے۔

پولیس کے مطابق اس واردات کے بعد ملزم اپنے گھر گیا اور ثبوت مٹانے کے لیے اپنے کپڑے دھوئے اور پھر وہیں سو گیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ گرفتار ملزم کا ہسپتال سے براہ راست کوئی تعلق نہیں تھا تاہم وہ باقاعدگی سے ہسپتال آتا جاتا تھا۔

ملزم کے بارے میں یہ بھی کہا جا رہا ہے وہ کولکتہ پولیس کے ساتھ بوقتِ ضرورت ایک رضاکار کے طور پر بھی کام کرتے رہے ہیں۔

ابتدائی طور پر پولیس نے اس واقعہ کے حوالے سے دائر ہونے والی ایف آئی آر میں قتل کی دفعات لگائیں مگر مقتولہ کے اہلِ خانہ کے اصرار پر اس میں ریپ کی دفعات بھی شامل کی گئیں۔

میڈیا سے بات کرتے ہوئے مقتولہ کے والد نے کہا تھا کہ ’میری بیٹی کبھی واپس نہیں آئے گی، لیکن کم از کم تفتیش تو ٹھیک سے ہونی چاہیے۔‘

ریپ
Reuters
تمام خواتین ایک ہی نعرہ لگا رہی تھیں: ’ہمیں انصاف چاہیے‘

پولیس نے ملزم کو کیسے پکڑا؟

پولیس نے واقعے کی تحقیقات کے لیے ایک سپیشل انویسٹیگیشن ٹیم تشکیل دی تھی اور ملزم کو تفتیش شروع ہونے کے چھ گھنٹے کے اندر ہی گرفتار کر لیا گیا۔ سی سی ٹی وی ویڈیو کے علاوہ پولیس کو جائے وقوعہ سے کچھ شواہد ملے تھے جنھوں نے پولیس کو براہ راست ملزم تک پہنچنے میں مدد کی۔

پولیس کو ہسپتال کے سیمینار ہال سے ایک ٹوٹا ہوا بلیوٹوتھ ایئر فون ملا تھا۔ جو دورانِ تفتیش ملزم کے فون سے منسلک یعنی کنیکٹ ہو گیا۔

اس کے علاوہ سی سی ٹی وی فوٹیج میں بھی ملزم کو صبح تقریباً چار بجے ہسپتال کی ایمرجنسی بلڈنگ میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا گیا۔ اس وقت ملزم نے ایئرفون لگائے ہوئے تھے لیکن جب وہ تقریباً 40 منٹ بعد ہسپتال سے نکلے تو اُن کے کانوں میں ایئرفون نہیں تھے۔

ریپ
Reuters

ملزم نے 2019 میں رضاکار کے طور مقامی پولیس کے ساتھ کام شروع کیا۔ پولیس کے مطابق یہی وجہ تھی کہ ملزمان کو ہسپتال آنے اور جانے میں کسی بھی قسم کی مداخلت یا روک ٹوک کا سامنا نہیں تھا۔

ملزم کولکتہ پولیس کے ساتھ رضاکار کے طور پر کام کرتے رہے ہیں۔ انھیں کئی بار ہسپتال کے باہر پولیس چوکی پر بھی تعینات کیا گیا تھا۔

پولیس نے میڈیا کو بتایا ہے کہ ملزم کا تعلق پولیس ویلفیئر ایسوسی ایشن سے بھی تھا جس کی وجہ سے انھیں ہسپتال تک آسانی سے رسائی حاصل تھی۔ انھوں نے ہسپتال میں داخل پولیس اہلکاروں کے اہل خانہ کی بھی دیکھ بھال کی تھی۔

ڈاکٹروں کا احتجاج

ریپ
Getty Images
پولیس کو ہسپتال کے سیمینار ہال سے ایک ٹوٹا ہوا بلیوٹوتھ ایئر فون ملا تھا

ملزم کی گرفتاری کے بعد بھی ڈاکٹر احتجاج کر رہے ہیں۔ ہسپتال کے احاطے میں ڈاکٹر کے ریپ اور قتل کے اس معاملے نے خواتین کی حفاظت پر بھی سوال کھڑے کر دیے ہیں۔

وہیں مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے اس معاملے میں بیان دیا ہے کہ اگرچہ وہ خود سزائے موت کے خلاف ہیں لیکن وہ اس معاملے میں ملزم کو سزائے موت دینے کی حمایت کریں گی۔ انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر اس واقعہ کی کسی مرکزی ایجنسی سے تحقیقات کی ضرورت ہے تو انھیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔

آر جی کار میڈیکل کالج مغربی بنگال کے سب سے بڑے ہسپتالوں میں سے ایک ہے۔ 26ایکڑ پر پھیلے اس ہسپتال میں مریضوں کو داخل کرنے کے لیے 1200 بستر ہیں جبکہ او پی ڈی میں روزانہ اوسطاً 2500 مریض آتے ہیں۔ اس کے علاوہ روزانہ ایک ہزار سے زائد مریض ایمرجنسی ڈیپارٹمنٹ میں بھی آتے ہیں۔

اس بڑے ہسپتال میں خاتون ڈاکٹر کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کے بعد ملک بھر کے ہسپتالوں کے ڈاکٹر شدید غم اور غصے کی کیفیت میں ہیں۔

ڈاکٹروں نے آر جی کار میڈیکل کالج باہر دھرنا دیا جبکہ مختلف شہروں میں مظاہرے جاری ہیں۔

فیڈریشن آف ریذیڈنٹ ڈاکٹرز نے پیر کو ملک بھر میں صحت کی غیر ضروری خدمات کو روکنے کا اعلان کیا۔ دہلی کے سرکاری ہسپتالوں نے بھی پیر سے غیر معینہ مدت تک کے لیے ہڑتال کا اعلان کیا۔

کئی ہسپتالوں کی جانب سے جاری بیانات میں کہا گیا کہ پیر سے او پی ڈی، آپریشن تھیٹر اور وارڈ ڈیوٹی بند کردی جائے گی۔

مظاہرین صحت کی دیکھ بھال کرنے والے کارکنوں کی حفاظت اور متاثرہ کے لیے انصاف کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

اسی بارے میں


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.