وہ ماں جو 10 برس سے صرف بستر تک محدود اپنے بیٹے کے لیے موت کا حق مانگ رہی ہیں

30 سالہ ہریش رانا 2013 سے بستر پر ہیں۔ اُن کے والدین اس تکلیف کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔
نرملا، ہریش
BBC/Rana family

60 سالہ نرملا رانا اپنے 30 سالہ بیمار بیٹے ہریش کے بستر کے پاس بیٹھی ایک سوال کرتی ہیں کہ ’کوئی کیسے اپنے بیٹے کی موت کا پوچھ سکتا ہے؟‘

2013 میں سول انجینئرنگ کے طالب علم ہریش انڈیا کے شمالی شہر چندی گڑھ میں ایک عمارت کی چوتھی منزل سے گر گئے تھے اور جس کی وجہ سے اُن کے سر پر شدید چوٹیں آئی تھیں۔

اس حادثے کے بعد سے وہ بستر پر ہیں۔ 11 سال سے وہ نہ تو بول سکتے ہیں اور نہ ہی کچھ محسوس کر سکتے ہیں۔

اُن کے والد اشوک کہتے ہیں کہ ’ہم انھیں سرکاری اور پرائیویٹ ہسپتالوں میں حتیٰ کہ ہر جگہ لے جا چُکے ہیں لیکن کہیں سے کُچھ فائدہ نہیں ہوا۔‘

اُن کا مزید کہنا ہے کہ ’ہم معجزات کے بارے میں سنتے اور پڑھتے رہے ہیں لیکن ہمارے بیٹے کے لیے تو نہ تو دعائیں اور نہ ہی دوائیں کارگر ثابت ہوئیں۔‘

ہریش کے کمرے کی ایک دیوار پر گھڑی لٹکی ہوئی ہے اور دوسری پر ایک مذہبی کیلنڈر۔ گھڑی کی سوئیاں حرکت میں ہیں لیکن حادثے کے بعد سے اُن کے والدین کے لیے وقت جیسے ٹھہر سا گیا ہو۔

ہریش کوما میں نہیں بلکہ وہ جاگ رہے ہیں لیکن حادثے میں اُن کے دماغ کو پہنچنے والی چوٹ کی وجہ سے وہ اپنے ارد گرد کے حالات سے بالکل بے خبر اور ایک جگہ ساکت ہیں۔

دوپہر کا وقت ہے لیکن نرملا، جن کا چہرہ بے رونق اور افسردہ ہے، کو ناشتہ کرنے کا وقت نہیں ملا۔ ان کی زندگی ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے اپنے بیٹے کے گرد گھوم رہی ہے۔ بستر تیار کرنا، اس کے کپڑے بدلنا، اس کی ہر ضرورت کا خیال رکھنا، بس اب یہی اُن کی زندگی ہے۔

ایک سابق باڈی بلڈر، ہریش اب ایک 30 سالہ شخص کی طرح نہیں لگتے۔ حادثے کے بعد ایک جگہ ساکت رہنے کی وجہ سے ان کے بھرے ہوئے چہرے سے گوشت غائب اور بس ہڈیوں کا مجموعہ رہ گیا ہے۔

ان کے بستر سے پیشاب کا بیگ لٹکا ہوا ہے اور ان کے پیٹ پر خوراک کی نالی لگی ہوئی ہے۔ گزشتہ 11 سال سے بستر پر پڑے رہنے کی وجہ سے ہریش کی کمر پر گہرے اور بڑے زخم ہو گئے ہیں جو اب مزید انفیکشن کا سبب بن رہے ہیں۔

وہ اب بھی بستر پر ہی ہیں، اُن سے بات کرنے اور اپنا پیغام پہنچانے کا واحد ذریعہ اُن کی آنکھیں ہیں۔

اُن کی والدہ کہتی ہیں کہ ’میں تو یہ بھی بھول گئی ہوں کہ رونا کیسا لگتا ہے۔‘

نرملا، ہریش، یوتھنیزیا
BBC/Rana family
ہریش سنہ 2013 میں ایک عمارت کی چوتھی منزل سے حادثاتی طور پر گر گئے

برسوں کی مسلسل کوششوں کے بعد ہریش کے والدین نے گزشتہ سال ان کی تکلیف کو ختم کرنے کے لیے یوتھنیزیا کے لیے ایک میڈیکل ٹیم تشکیل دینے کی درخواست کی تھی۔

یوتھنیزیا کسی بھی فرد کی ناقابلِ برداشت تکلیف کو دور کرنے کے لیے جان بوجھ کر کسی شخص کی زندگی کو ختم کرنے کا عمل ہے، جس میں ایک قانونی دوا ایک معالج کے ذریعہ دی جاتی ہے۔

ہریش کی والدہ کہتی ہیں کہ ’میں بہت تھک چُکی ہوں۔ اگر مجھے کچھ ہو گیا، تو اس کی دیکھ بھال کون کرے گا؟‘

ان کا کہنا ہے کہ ’ہم ان کے اعضا عطیہ کرنا چاہتے ہیں جو اب ان کے کام نہیں آتے مگر ہاں یہ ضرور ہے کہ وہ دوسروں کی مدد کر سکتے ہیں۔‘

اُن کا مزید کہنا ہے کہ ’ہم اُن میں اپنے بیٹے کو دیکھیں گے اور اسے سکون ملے گا۔‘

دہلی کی ایک عدالت نے ان کی درخواست کو مسترد کر دیا۔ عدالتی حکم میں کہا گیا کہ ’حقائق سے پتا چلتا ہے کہ درخواست گزار کو مشینی طور پر زندہ نہیں رکھا جا رہا اور وہ کسی اضافی بیرونی امداد کے بغیر زندہ رہنے کے قابل ہیں۔‘

عدالتی حکم میں مزید کہا گیا کہ ’ڈاکٹر سمیت کسی کو بھی کسی بھی مہلک دوا کے استعمال سے کسی دوسرے شخص کی موت کا سبب بننے کی اجازت نہیں، چاہے اس کا مقصد مریض کو درد اور تکلیف سے نجات دلانا ہی کیوں نہ ہو۔‘

متنازعہ مسئلہ

سنہ 2011 میں انڈیا کی سپریم کورٹ کو اس وقت اخلاقی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا جب اُن کی جانب سے ایک نرس ارونا شان باغ کی موت کی درخواست مسترد کر دی گئی تھی، جو 1973 میں وارڈ اٹینڈنٹ کے وحشیانہ حملے کے بعد کئی دہائیوں سے بستر پر تھیں۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ طبی شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ شان باغ دماغی طور پر مردہ نہیں اور انھیں زندہ رہنا چاہیے۔ شان باغ 2015 تک اسی حالت میں رہیں تاہم بعد ازاں اُن کی طبعی موت ہوئی۔

بہرحال 2011 میں عدالت کا یہ فیصلہ انڈیا کے قانونی موقف کے لیے ایک اہم لمحہ تھا۔

اس سے پہلے انڈیا میں یوتھنیزیا کی تمام شکلیں غیر قانونی تھیں لیکن ایک پیچیدہ فیصلے میں عدالت نے کہا کہ مخصوص حالات میں یوتھنیزیا پر غور کیا جا سکتا ہے۔

2018 میں ایک اہم تبدیلی میں سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ مستقل بستر پر رہنے والے افراد کے لیے غیر فعال یوتھنیزیا کو قانونی طور پر اپنایا جا سکتا ہے۔

اس میں واضح کیا گیا کہ غیر فعال یوتھنیزیا کے لیے درخواستیں عدالت میں دائر کی جانی چاہئیں اور اس کی ذمہ داری ڈاکٹروں کی تصدیق ہونی چاہیے۔

یہ متنازعہ معاملہ ہریش رانا کے ساتھ ایک بار پھر سامنے آیا ہے، جن کے اہلخانہ اب ان کی درخواست کو ماتحت عدالت کی طرف سے مسترد کیے جانے کے بعد انڈیا کی سپریم کورٹ میں لے جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

ناکامیوں کے باوجود ہریش کا خاندان یہ اُمید لگائے بیٹھا ہے کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت بالآخر ان کے حق میں فیصلہ دے گی۔

یہ بھی پڑھیے

اگست کا وہ دن

یہ 5 اگست 2013 کی شام تھی جب اشوک رانا کو ایک فون کال موصول ہوئی جس میں بتایا گیا کہ ان کا بیٹا ’زخمی‘ ہو گیا ہے۔

اشوک رانا کہتے ہیں کہ ’ڈاکٹر نے ہمیں بتایا کہ ان کا دماغ چوٹ لگنے کی وجہ سے شدید متاثر ہوا ہے اور اُن کے دماغی اعصاب مکمل طور پر خشک ہو چکے ہیں۔‘

ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے ہریش کو خوراک کی نالی کے ذریعے کھانا کھلایا جاتا ہے، یہ ایک ایسا طریقہ کار ہے کہ جس کی قیمت 15 ہزار انڈین روپے ماہانہ تک ہوتی ہے۔ ہریش کے ماہانہ طبی اخراجات 25،000 سے 30،000 انڈین روپے کے درمیان ہوتے ہیں۔

اخراجات پورے کرنے کے لیے ان کے والدین نے دہلی میں اپنا گھر بیچ دیا اور دارلحکومت کے مضافات میں واقع دو کمروں کے فلیٹ میں منتقل ہو گئے۔

اشوک رانا کی 3600 روپے ماہانہ پنشن سے ہریش کی طبی دیکھ بھال تو دور کی بات، گھر کے اخراجات بھی مشکل سے پورے ہوتے ہیں۔ اپنی آمدنی کو پورا کرنے کے لیے، اشوک ہفتے کے آخر میں مقامی کرکٹ گراؤنڈ میں سینڈوچ اور برگر بیچتے ہیں۔

اگر سپریم کورٹ یوتھنیزیا کی درخواست کو مسترد کر دیتی ہے، تو اُن کا خاندان یہ چاہتا ہے کہ ہریش کی دیکھ بھال سرکاری خرچ پر ہسپتال میں جاری رکھی جائے۔

ہریش، والد اشوک
BBC/Rana family
ہریش کے والد اشوک اپنے بیٹے کی دیکھ بھال کا خرچ اٹھانے کے لیے کوششوں میں مصروف ہیں، اور فکر مند ہیں کہ اگر انھیں کُچھ ہو گیا تو ان کے بیٹے کی دیکھ بھال کون کرے گا

اس وقت سوئٹزرلینڈ، سپین، آسٹریلیا اور امریکہ کی 11 ریاستوں سمیت چند ممالک یوتھنیزیا کی اجازت دیتے ہیں تاہم زیادہ تر ممالک میں یہ عمل غیر قانونی ہے۔

مثال کے طور پر برطانیہ بھر میں قوانین لوگوں کو مرنے کے لیے طبی مدد مانگنے سے روکتے ہیں، حالانکہ اس موسم خزاں میں سکاٹش پارلیمنٹ میں یوتھنیزیا کی اجازت دینے کے لیے ایک نیا بل زیر بحث آنے کی توقع ہے۔

سپریم کورٹ کے وکیل اور انڈین سوسائٹی فار ہیلتھ اینڈ لا ایتھکس کے صدر آر کشور کہتے ہیں کہ ’لوگ مانتے ہیں کہ خدا زندگی دیتا ہے اور صرف اسی کو اسے چھیننے کا حق ہے۔‘

اُن کا مزید کہنا ہے کہ ’ہمیشہ غیر یقینی کا عنصر ہوتا ہے، جو شخص آج بے ہوش ہے وہ کل ہوش میں آ سکتا ہے لیکن اگر ہم کسی کی زندگی ختم کر دیتے ہیں، تو ہم اس کی صحتیابی کا موقع بھی چھین لیتے ہیں۔ یہ ایک ناقص طریقہ ہے۔‘

آر کشور کہتے ہیں کہ ’ہریش کے معاملے میں، میرا ماننا ہے کہ ایک میڈیکل بورڈ تشکیل دیا جائے جس میں کارڈیالوجسٹ، فزیولوجسٹ اور ایک جنرل فزیشن شامل ہوں تاکہ یہ طے کیا جا سکے کہ لائف سپورٹ واپس لی جانی چاہیے یا نہیں۔‘

’بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ عدالت میں مریض کی کلینیکل حالت کا براہ راست اندازہ نہیں۔‘

نرملا کو ایک وقت تک یہ اُمید تھی کہ ہریش کسی دن ٹھیک ہو جائے گا لیکن دن مہینوں میں اور مہینے برسوں میں بدل گئے مگر وہ دن کبھی نہیں آیا۔

ہریش کی والدہ یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’مجھے یاد ہے کہ وہ گھر میں میرے اردگرد ہی رہتا تھا، باڈی بلڈنگ کا اُس پر ایک جنون سوار تھا اور بس اُسی کے بارے میں بات کرتا تھا۔‘

مگر اب وہی ماں اپنے بیٹے کی موت کا انتظار کر رہی ہیں۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.