متحدہ ہندوستان کی وہ آخری رات جو گاندھی نے مستقبل کے پاکستانی وزیراعظم کے ساتھ گزاری

ماؤنٹ بیٹن اور نہرو دونوں نے گاندھی سے 15 اگست 1947 کو انڈیا کی آزادی کے دن دہلی میں رہنے کی درخواست کی تھی لیکن گاندھی نے یہ کہتے ہوئے درخواست قبول نہیں کی کہ کلکتہ میں ان کی مزید ضرورت ہے۔

نو اگست 1947 کو گاندھی نواکھلی جاتے ہوئے کلکتہ میں رکے۔ ان دنوں کلکتہ میں فرقہ وارانہ فسادات کی وجہ سے مسلمانوں کے ذہنوں میں خوف تھا۔

انھوں نے گاندھی سے درخواست کی کہ وہ نواکھلی جانے سے پہلے کلکتہ میں کچھ وقت گزاریں تاکہ شہر کو جلانے والی فرقہ پرستی کی خوفناک آگ پر کچھ پانی چھڑکا جا سکے۔

جیسے ہی حسین شہید سہروردی نے، جو ان دنوں دہلی کے دورے پر تھے، سنا کہ گاندھی جی کلکتہ میں ہیں، انھوں نے اپنا سفر مختصر کرکے کلکتہ واپس آنے کا فیصلہ کیا۔

آزادی سے چار دن پہلے، بی بی سی نے برطانوی سلطنت کے اس بڑے مخالف سے ایک پیغام کی درخواست کی۔

پیارے لال، جو گاندھی جی کے سیکرٹری تھے، اپنی کتاب 'مہاتما گاندھی دی لاسٹ فیز' میں لکھتے ہیں، 'جیت کے ساتھ ساتھ یہ غم کا بھی وقت تھا اور گاندھی کو لگا کہ ان کے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہے۔

بی بی سی نے زور دیا کہ ان کے پیغام کا متعدد زبانوں میں ترجمہ اور نشر کیا جائے گا۔

لیکن نرمل کمار بوس کے ذریعے موہن داس گاندھی نے بی بی سی کو سخت زبان میں پیغام دیا۔ انھوں نے بوس سے کہا، ’مجھے اس لالچ کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ ان سے کہو کہ بھول جائیں کہ میں انگریزی جانتا ہوں۔‘

سہروردی نے گاندھی کو کلکتہ میں رہنے کو کہا

اس شام، جب حسین شہید سہروردی نے کہا کہ کلکتہ کو کچھ عرصے کے لیے گاندھی کی ضرورت ہے، تو گاندھی نے جواب دیا، ’ٹھیک ہے، میں نواکھلی کا سفر ملتوی کر دوں گا، بشرطیکہ آپ میرے ساتھ رہنے پر راضی ہوں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں اس وقت تک کام کرنا پڑے گا جب تک کلکتہ میں ہر ہندو اور مسلمان اس جگہ پر واپس نہیں آ جاتا جہاں وہ پہلے رہ رہا تھا۔ ہم اپنی آخری سانس تک اپنی کوششیں جاری رکھیں گے۔ میں نہیں چاہتا کہ آپ اس پر جلد فیصلہ لیں۔ آپ گھر جائیں اور اپنی بیٹی سے مشورہ کریں۔‘

سہروردی نے گاندھی کی تجویز قبول کر لی۔

12 اگست کو منعقدہ ایک دعائیہ اجلاس میں گاندھی نے کہا کہ انھیں کچھ ہندوؤں نے خبردار کیا ہے کہ وہ حسین شہید سہروردی پر بھروسہ نہ کریں لیکن وہ سہروردی پر بھروسہ کریں گے اور بدلے میں وہ (سہروردی) بھی بھروسہ کرنا چاہیں گے۔ گاندھی نے کہا، ’ہم دونوں ایک ہی چھت کے نیچے رہیں گے اور ایک دوسرے سے کچھ نہیں چھپائیں گے۔ لوگوں میں ہر حال میں سچ بولنے کا حوصلہ ہونا چاہیے۔‘

13 اگست کی صبح، گاندھی سودے پور آشرم سے نکلے اور سہروردی اپنے گھر سے نکلے اور حیدری منزل پہنچے، جو بیلیا گھاٹ میں ایک خستہ حال مسلمان کا گھر تھا۔

تشار گاندھی اپنی کتاب 'Let's Kill Gandhi' میں لکھتے ہیں، ’ٹھیک 2:28 بجے، گاندھی اپنے کمرے سے نکلے، 2:30 پر وہ ڈرائیور کے ساتھ کار میں بیٹھ کر حیدری منزل کی طرف روانہ ہوئے۔

حیدری منزل کلکتہ کے ایک گندے علاقے بیلیا گھاٹ میں واقع تھی۔ اس گھر کو 12 گھنٹے میں صاف کر کے رہنے کے قابل بنایا گیا۔ یہ گھر ہر طرف سے کھلا ہوا تھا۔ گاندھی اور ان کے ساتھیوں کے لیے تین کمرے خالی کر دیے گئے۔ ایک کمرے میں گاندھی کے ٹھہرنے کا انتظام کیا گیا۔ ان کا سامان اور ساتھی دوسرے کمرے میں موجود تھے جبکہ گاندھی کا دفتر تیسرے کمرے میں بنایا گیا تھا۔

جیسے ہی گاندھی اور سہروردی کی گاڑیاں وہاں پہنچیں، ایک مشتعل ہجوم نے ان کا استقبال کیا۔ پیارے لال لکھتے ہیں، ’ہجوم ابھی احتجاج کر ہی رہا تھا کہ ایک انگریز ہوریس الیگزینڈر وہاں پہنچا تو مظاہرین نے اسے روکنے کی کوشش کی۔ جب اس کے ساتھ ایک ہندوستانی نے ہجوم کو سمجھانے کی کوشش کی تو لوگوںنے 'گاندھی گو بیک' کے نعرے لگائے۔

’کچھ نوجوان کھڑکی پر چڑھ گئے اور اس کمرے میں داخل ہونے کی کوشش کی جس میں گاندھی ٹھہرے ہوئے تھے۔ جیسے ہی ہوریس نے کھڑکیاں بند کرنے کی کوشش کی، ان پر پتھروں کی بارش شروع ہو گئی اور کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹ کر ہر طرف اڑنے لگے۔‘

گاندھی پر مسلمان نواز ہونے کا الزام

وہاں موجود ہندوؤں نے گاندھی پر مسلم نواز ہونے کا الزام لگایا اور انھیں بیلیا گھاٹ چھوڑنے کو کہا۔

پیارے لال لکھتے ہیں، ’گاندھی ان لوگوں سے دو بار ملے۔ ان لوگوں نے گاندھی سے شکایت کی کہ وہ کہاں تھے جب پچھلے سال 16 اگست کو ان کے خلاف 'براہ راست ایکشن' شروع کیا گیا تھا؟ اب مسلمانوں کے علاقے میں، جب کچھ پریشانی تھی۔ تم ان کو بچانے کے لیے بھاگے آئے ہو۔‘

گاندھی نے جواب دیا، ’اگست 1946 کے بعد سے، ہگلی کے پل کے نیچے سے بہت پانی بہہ چکا ہے، اس وقت مسلمانوں نے جو کچھ کیا وہ غلط تھا، لیکن 1946 کا بدلہ 1947 میں لینے کا کیا فائدہ؟‘

اگر بیلیا گھاٹ کے ہندو اپنے مسلمان پڑوسیوں کو واپس آنے کی دعوت دیتے ہیں، تو وہ مسلم اکثریتی علاقے میں جائیں گے اور ان سے ہندوؤں کو بھی واپس بلانے کی درخواست کریں گے۔

گاندھی کے اس اشارے سے ہندوؤں کا غصہ کچھ دور ہوا۔ گاندھی نے کہا، ’میں خود کو آپ کی حفاظت میں پیش کر رہا ہوں۔ آپ کو میرے خلاف ہونے کی آزادی ہے۔ میں اپنی زندگی کے آخری مرحلے پر پہنچ چکا ہوں۔

’میں نے نواکھلی کے مسلمانوں سے بھی اسی انداز میں بات کی ہے۔ آپ کیوں نہیں دیکھتے کہ اس قدم سے میں نے ایک طرح سے نواکھلی میں ہندوؤں کی حفاظت کی ذمہ داری شہید سہروردی اور ان کے ساتھیوں پر چھوڑ دی ہے۔‘

لیکن جب دہلی میں سردار پٹیل نے سنا کہ گاندھی جی حیدری منزل میں رہنے کے لیے گئے ہیں تو انھوں نے گاندھی کو خط لکھا اور اپنی تشویش کا اظہار کیا۔

انھوں نے لکھا، ’آپ کو کلکتہ میں روک دیا گیا ہے، وہ بھی ایک ایسے گھر میں جو کھنڈر ہے اور جو غنڈوں اور بدمعاشوں کا اڈہ ہے۔ کیا آپ کی صحت اس تناؤ کو برداشت کر سکے گی؟ مجھے یقین ہے کہ یہ بہت گندی جگہ ہوگی۔ مجھے اپنے بارے میں بتاتے رہیں۔‘

اس شام حیدری منزل کے صحن میں منعقدہ دعائیہ اجتماع میں دس ہزار سے زائد لوگ موجود تھے۔

گاندھی نے لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ’کل 15 اگست کو ہم برطانوی راج سے آزاد ہو جائیں گے، لیکن آج آدھی رات کو ہندوستان دو ملکوں میں تقسیم ہو جائے گا، کل خوشی کا دن بھی ہوگا اور غم کا دن بھی۔ اگر بیس لاکھ ہندو اور مسلمان ایک دوسرے کی جان کے پیاسے ہیں تو میں نواکھلی جا کر مسلمانوں کے سامنے ہندوؤں کا کیس کیسے پیش کروں گا؟‘

اس خطاب کے بعد گاندھی اپنے کمرے میں آئے۔ کچھ دیر بعد وہ سڑک کی طرف کھلتی کھڑکی کے سامنے پہنچ گئے جہاں نیچے کھڑا ہجوم سہروردی کے خلاف نعرے لگا رہا تھا۔

تشار گاندھی لکھتے ہیں، گاندھی نے سہروردی کو اپنے پاس آنے کو کہا۔ انھوں نے ایک ہاتھ سہروردی پر اور دوسرا منو کے کندھے پر رکھا۔ ہجوم میں سے کسی نے چیخ کر سہروردی سے پوچھا، کیا ایک سال قبل کلکتہ میں ہونے والے قتل کے آپ ذمہ دار نہیں تھے؟ سہروردی نے قتال میں اپنے کردار کا اعتراف کرتے ہوئے کہا، 'ہاں، میں ان کا ذمہ دار تھا۔'

14 اگست کی رات جب ہندوستان آزاد ہو رہا تھا اور نہرو پارلیمنٹ کے مرکزی ہال میں تقریر کر رہے تھے، ہندوستان کی تین دہائیوں سے جدوجہد آزادی کے سب سے بڑے رہنما حیدری منزل کے ایک تاریک کمرے میں فرش پر گہری نیند سو رہے تھے۔ .

ماؤنٹ بیٹن اور نہرو دونوں نے گاندھی سے آزادی کے دن دہلی میں رہنے کی درخواست کی تھی لیکن گاندھی نے یہ کہتے ہوئے درخواست قبول نہیں کی کہ کلکتہ میں ان کی مزید ضرورت ہے۔ 15 اگست 1947 ہندوستان کے کروڑوں لوگوں کے لیے ایک تاریخی دن تھا، لیکن وہ دن گاندھی جی کے لیے ایک اور وجہ سے بھی بہت خاص تھا۔

اس دن ان کے قریبی ساتھی مہادیو دیسائی کی پانچویں برسی تھی۔ پرمود کپور اپنی کتاب 'گاندھی این السٹریٹڈ بائیوگرافی' میں لکھتے ہیں، 'اس دن گاندھی حیدری منزل میں اپنے مقررہ وقت سے ایک گھنٹہ پہلے رات دو بجے بیدار ہوئے۔ پچھلے پانچ سالوں میں 15 اگست کی طرح اس دن بھی انھوں نے برت رکھا اور اپنے سیکریٹری کی یاد میں پوری گیتا پڑھی۔‘

گاندھی سے ملاقات کرنے والوں کا ہجوم

گاندھی کے مسلمان میزبانوں نے پورے گھر کو ترنگے جھنڈوں سے سجا دیا تھا۔ فجر سے پہلے ہی نوجوان لڑکیوں کا ایک گروپ رابندر ناتھ ٹیگور کے گیت گاتا ہوا وہاں پہنچ گیا۔

جب وہ گاندھی کی قیام گاہ کی کھڑکی کے نیچے پہنچیں تو گانا چھوڑ کر وہاں ہونے والی دعا میں شامل ہو گئیں۔ کچھ دیر بعد لڑکیوں کا ایک اور گروپ وہاں پہنچ گیا اور گیت بھی گائے جانے لگے۔

دوپہر میں گاندھی بیلیا گھاٹ کے ایک گراؤنڈ میں ایک دعائیہ اجلاس میں گئے جہاں ہندو، مسلمان اور سماج کے تمام طبقات کے لوگوں نے شرکت کی۔ وہاں سب نے ایک آواز میں نعرہ بلند کیا، 'ہندو اور مسلمانوں کو متحد ہونا چاہیے۔'

اس دن، آزادی کے استقبال کے لیے کلکتہ میں ہر طرف چراغاں کیے گئے تھے، لیکن گاندھی ان سب سے دور رہے۔ راج موہن گاندھی، گاندھی کی سوانح عمری 'موہن داس' میں لکھتے ہیں، اس دن حیدری منزل پر گاندھی سے ملنے والوں کا ایک مستقل سلسلہ تھا۔ ملاقات کرنے والوں میں پرفل گھوش کی سربراہی میں وزرا کی نئی کونسل، مغربی بنگال کے گورنر راج گوپال اچاری، طلبا، کمیونسٹ اور بہت سے عام لوگ شامل تھے۔

برطانوی عوام کے لیے نیک تمناؤں کا پیغام

gandhi
Getty Images

اسی شام انھوں نے انگلینڈ میں اپنی دوست اگاتھا ہیریسن کو خط لکھا، 'ڈیئر اگاتھا، میں یہ خط آپ کو گھومتے ہوئے لکھ رہا ہوں۔ آپ جانتی ہیں، آج جیسے بڑے مواقع منانے کا میرا اپنا طریقہ دعا کرنا اور بھگوان کا شکر ادا کرنا ہے۔ اس کے بعد برت کا وقت اور پھر غریبوں سے اپنا تعلق ظاہر کرنے کے لیے چرخہ کاتنا۔ برطانیہ میں اپنے تمام دوستوں کے لیے پیار۔‘

اس طرح برطانوی سلطنت کے بڑے مخالف نے اپنے ملک کی آزادی کے دن تمام برطانویوں کو اپنا پیار بھیجا۔ اسی دن گاندھی نے شہزادی امرت کور کو خط بھی لکھا۔ انھوں نے لکھا 'میں ایک مسلمان کے گھر میں رہ رہا ہوں۔ وہ سب بہت اچھے ہیں۔ مجھے جس بھی مدد کی ضرورت ہے، میں اپنے مسلمان دوستوں سے حاصل کر رہا ہوں، مجھے اپنے جنوبی افریقہ کے دن اور خلافت کے دن یاد ہیں۔ ہندو اور مسلمان ایک ہی دن میں دوست بن گئے ہیں۔ نہیں جانتا یہ کب تک چلے گا؟ لگتا ہے اب سہروردی بھی بدل گیا ہے۔‘

کلکتہ شہر کا گاڑی پر دورہ

اپنی دعائیہ تقریب میں گاندھی جی نے کلکتہ میں لوگوں کے دلوں میں تبدیلی پر اپنی خوشی اور لاہور سے آنے والی جھڑپوں اور چٹاگانگ میں اچانک سیلاب کی خبروں پر اپنی تشویش کا اظہار کیا جو اب پاکستان کا حصہ بن چکے تھے۔

انھوں نے کلکتہ کے لوگوں پر زور دیا کہ وہ ہندوستان میں ہی قیام کرنے کا فیصلہ کرنے والے انگریزوں کے ساتھ وہی سلوک کریں جیسی انھیں اپنے ساتھ سلوک کی توقع تھی۔ اس کے بعد اس نے یہ غیر معمولی درخواست کی کہ وہ کلکتہ کی سڑکوں پر گاڑی میں گھومنا چاہتے ہیں تاکہ اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں کہ کلکتہ کے لوگوں کے دلوں میں تبدیلی واقعی کوئی معجزہ تھی یا حادثہ۔

اگلے دن یعنی 16 اگست کو گاندھی نے 'ہریجن' کے شمارے میں لکھا، 'ہر جگہ مجھے کلکتہ کے لوگوں کے دلوں میں تبدیلی کا کریڈٹ دیا جا رہا ہے، جس کا نہ میں حقدار ہوں اور نہ ہی حسین شہید سہروردی اس کے مستحق ہیں۔ یہ تبدیلی ایک یا دو افراد کی کوششوں سے نہیں آسکتی۔ ہم بھگوان کے ہاتھ میں کھلونے ہیں۔ وہ ہمیں اپنی دھن پر رقص کرواتا ہے۔‘

18 اگست کو عید تھی۔ اس دن، محمدن سپورٹنگ فٹ بال کلب کے میدان میں منعقدہ گاندھی کی دعائیہ تقریب میں تقریباً پانچ لاکھ ہندو اور مسلمانوں نے شرکت کی۔ ان کے جلسوں میں ہجوم روز بروز بڑھتا جا رہا تھا۔

15 اگست کو گاندھی کو پٹنہ سے ٹیلی فون پر پیغام ملا کہ کلکتہ کے جادو کا اثر وہاں بھی محسوس ہو رہا ہے۔ 24 اگست کو دستور ساز اسمبلی کے اجلاس میں مسلم لیگ نے کلکتہ میں امن کی بحالی اور دونوں ملکوں کے درمیان بھائی چارہ بڑھانے کے لیے گاندھی کی کوششوں کو سراہتے ہوئے ایک قرارداد منظور کی اور کہا کہ اس سے ہزاروں بے گناہ لوگوں کی جانیں بچ گئیں۔

لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے مہاتما گاندھی کو بھی خط لکھا اور کہا کہ 'پنجاب میں ہمارے 55 ہزار فوجیوں کی موجودگی کے باوجود وہاں فسادات جاری ہیں۔ بنگال میں ہمارا صرف ایک آدمی ہے، آپ اور وہاں کے فسادات بالکل تھم چکے ہیں۔ ایک منتظم کے طور پر جو آپ نے کیا، کیا مجھے اجازت ہے کہ میں ون مین بارڈر فورس اور اس کے نمبر دو سہروردی کو خراج تحسین پیش کروں؟ آپ کو 15 اگست کو دستور ساز اسمبلی میں جب آپ کا نام آیا تو آپ کو تالیوں کی گرج سننی چاہیے تھی۔ اس وقت ہم سب آپ کے بارے میں سوچ رہے تھے۔‘

امن کے لیے برت

گاندھی
Getty Images

گاندھی جی حسین سہروردی کے ساتھ نواکھلی جانے کا ارادہ کر رہے تھے لیکن وہ نہرو اور پٹیل کے دباؤ میں تھے کہ وہ پنجاب جائیں جہاں حالات دن بدن خراب ہوتے جا رہے تھے۔

لیکن 31 اگست کو حیدری منزل میں پرتشدد مظاہرے نے گاندھی کو دوبارہ اپنے منصوبے بدلنے پر مجبور کردیا۔ رات 10 بجے مشتعل ہندوؤں نے گھر کی کھڑکیاں، دروازے اور چھت کے پنکھے توڑ ڈالے۔ گاندھی پر پتھر اور لاٹھیاں برسائی گئیں۔

راج موہن گاندھی لکھتے ہیں، 'اس دور میں ابھا اور منو نے گاندھی کو نہیں چھوڑا۔ گاندھی نے ہاتھ جوڑ کر شرپسندوں کو جانے کو کہا لیکن وہ تبھی گئے جب سپرنٹنڈنٹ آف پولیس وہاں پہنچے۔ گاندھی رات ساڑھے بارہ بجے سو گئے لیکن تین گھنٹے کے اندر دوبارہ جاگ گئے۔ اس نے سردار پٹیل کو خط لکھ کر واقعے کی تفصیلات بتائیں۔ صبح جب کلکتہ کے تشدد میں تقریباً 50 لوگوں کی موت کی خبر گاندھی تک پہنچی تو انھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ نہ نواکھلی جائیں گے اور نہ ہی پنجاب۔ وہ حیدری منزل میں رہیں گے اور کلکتہ میں امن بحال ہونے تک برت رکھیں گے۔

گاندھی کے امن برت کا فوری اثر ہوا اور حیرت انگیز طور پر کلکتہ میں خونریزی رک گئی۔ ہندوؤں اور مسلمانوں نے مل کر شہر میں امن مارچ نکالا۔ کلکتہ کے تقریباً 500 پولیس والوں نے بھی گاندھی کی حمایت میں ڈیوٹی کے دوران برت رکھا۔

امن کے وعدے پر برت کا خاتمہ

سوشلسٹ رہنما رام منوہر لوہیا گاندھی کے پاس ان نوجوان ہندوؤں کو لے گئے جنہوں نے تشدد میں اپنے ملوث ہونے کا اعتراف کیا۔ انھوں نے اپنے تمام ہتھیار گاندھی کے سامنے رکھ دیے جنھیں دیکھ کر گاندھی نے کہا، 'میں اپنی زندگی میں پہلی بار سٹین گن دیکھ رہا ہوں۔'

جب چار ستمبر کو ایک اور گروپ گاندھی کے سامنے آیا اور کہا کہ وہ کسی بھی سزا کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں بشرطیکہ وہ اپنا برت ختم کر دیں۔ گاندھی کا جواب تھا، 'آپ مسلمانوں کے گھر جا کر انھیں یقین دلائیں کہ ان کی جانیں اب پوری طرح محفوظ ہیں۔‘

گاندھی نے تمام مذاہب کے لوگوں کے درمیان امن برقرار رکھنے کا وعدہ کرتے ہوئے چار ستمبر کو 72 گھنٹے کے بعد اپنا برت ختم کر دیا۔

مغربی بنگال کے گورنر چکرورتی راجگوپالاچاری نے شہر کے روٹری کلب میں ایک تقریر میں کہا، 'گاندھی نے اپنی زندگی میں بہت سی چیزیں حاصل کی ہیں۔ لیکن میں نہیں سمجھتا کہ وہ کامیابیاں کلکتہ کے امن کی کامیاب بحالی سے بڑی ہیں۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.