اے ٹی ایم پر بنی مقناطیسی پٹی آپ کے فون کو کیسے نقصان پہنچاتی ہے؟

یونیورسٹی کالج لندن کے سکیورٹی ریسرچر سٹیون مرڈوک کئی سال سے اس بات کا دھیان رکھتے تھے کہ اپنی جیب میں مقناطیسی پٹیوں والے ٹکٹ یا کارڈ کو کبھی بھی اپنے سمارٹ فون کے ساتھ نہ رکھیں۔
اے ٹی ایم
Getty Images

انھوں نے اپنے ہوٹل کے کمرے کے دروازے کے لاک میں کارڈ ڈالا اور ہینڈل گھمایا لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔۔۔ انھیں احساس ہو گیا کہ انھوں نے کیا کر دیا ہے۔

یونیورسٹی کالج لندن کے سکیورٹی ریسرچر سٹیون مرڈوک کئی سال سے اس بات کا دھیان رکھتے تھے کہ اپنی جیب میں مقناطیسی پٹیوں والے ٹکٹ یا کارڈ کو کبھی بھی اپنے سمارٹ فون کے ساتھ نہ رکھیں۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ سمارٹ فونز میں مقناطیس بعض اوقات اتنے مضبوط ہوتے ہیں کہ وہ ان کارڈز پر موجود مقناطیسی پٹی کے ڈیٹا کو مٹا دیتے ہیں۔

لیکن یہ ہوٹل کے میگ سٹرائپ کارڈ ان دنوں نایاب ہوتے جا رہے ہیں جن کی جگہ ریڈیو فریکوئنسی آئیڈینٹیفیکیشن (آر آیف آئی ڈی) چپس والے کارڈز نے لے لی ہے۔

اس سال جنوری میں ہوٹل میں قیام کے دوران پروفیسر مرڈوک احتیاطی تدابیر اختیار کرنا بھول گئے تھے۔

وہ کہتے ہیں ’مجھے یاد رکھنا چاہیے تھا کہ یہ وہ چیز ہے جس کے بارے میں، میں پہلے سے جانتا ہوں۔‘

ہوٹل کے استقبالیہ پر واپس پہنچنے کے بعد انھیں احساس ہوا کہ وہ اکیلے نہیں تھے۔

میگ سٹرائپ
Getty Images

وہ بتاتے ہیں ’وہاں لوگوں کی ایک قطار تھی اور انھیں بالکل میری طرح کا ہی مسئلہ درپیش تھا۔‘

مقناطیسی پٹی 1960 کی دہائی میں آئی بی ایم کے ایک انجینیئر نے ایجاد کی تھی۔ ان کی اہلیہ نے اس عمل میں اہم کردار ادا کیا تھا کیونکہ انھوں نے کپڑوں کی استری کا استعمال کرتے ہوئے کارڈ پر مقناطیسی ٹیپ کی پٹی چپکانے کا مشورہ دیا تھا۔

بعد کی دہائیوں میں بینک کارڈز، ریل ٹکٹوں، شناختی کارڈز اور یہاں تک کہ طبی معلومات پر مشتمل کارڈز پر بھی میگ سٹرپس کا استعمال کیا جاتا رہا ہے۔

لیکن آلودگی پھیلانے والی بھاری دھاتوں سے بنی پلاسٹک کی یہ بھوری پٹی زیادہ دیر تک استمعال میں نہیں رہے گی۔

مثال کے طور پر اس سال سے ماسٹر کارڈ کے لیے بینکوں کو ڈیبٹ اور کریڈٹ کارڈز پر مقناطیسی پٹی لگانے کی ضرورت نہیں ہو گی۔

اب پرنٹ ایبل بار کوڈز اور دوبارہ قابلِ استعمال کانٹیکٹ لیس کارڈز سمیت نئی ٹیکنالوجیز نہ صرف زیادہ ماحول دوستہیں بلکہ استعمال میں ممکنہ طور پر زیادہ آسان ہیں۔

اور اگر آپ نے غلطی سے انھیں اپنے آئی فون کے قریب رکھ بھی دیا تو یہ مٹیں گے نہیں۔

میگ سٹریپ
Getty Images
’سمارٹ فونز اور دیگر اشیا میں مقناطیس یا مقناطیسی اجزا ہوتے ہیں جن سے کم کوریویٹی کارڈز سے مقناطیسی صلاحیت ختم ہونے کا خطرہ ہوسکتا ہے‘

یہ بھی پڑھیے

مقناطیسی پٹی کی دو قسمیں ہیں جنھیں ’ہائی کو‘ اور ’لو کو‘ کہا جاتا ہے۔

میگ سٹرپس اور دیگر مصنوعات بنانے والی کمپنی ’ناگلز‘ میں گلوبل آپریشنز کے سربراہ لی منٹر کہتے ہیں کہ ’لو کو‘ سستا، کم پائیدار اور مقناطیس سے زیادہ متاثر ہونے والا ہوتا ہے۔

حال ہی میں کمپنی نے ایک کسٹمر کی رپورٹس کی جانچ کی جس میں کہا گیا تھا کہ انھوں نے متعدد میگ سٹرائپ ٹکٹخریدے، جو خراب ہو گئے۔

لی منٹر کا کہنا ہے کہ وہ 100 فیصد یقین سے تو نہیں کہہ سکتے لیکن ان کی اور ان کے ساتھیوں کی رائے ہے کہآئی فون کے اندر ایک سرکلر مقناطیس کی وجہ سے ایسا ہوا تھا۔

اس کے جواب میں ایپل کا کہنا ہے کہ ’سمارٹ فونز اور دیگر اشیا میں مقناطیس یا مقناطیسی اجزا ہوتے ہیں جن سے کچھ کارڈز سے مقناطیسی صلاحیت ختم ہونے کا خطرہ ہو سکتا ہے۔ ایسا ہونے سے روکنے کے لیے صارفین کو چاہیے کہ وہ ان کارڈز کو الگ سے محفوظ رکھیں۔‘

اگرچہ اس طرح کے مسائل نایاب ہیں تاہم لی منٹر کہتے ہیں کہ مقناطیسی پٹی کی مقبولیت میں کمی آرہی ہے۔

ان کا اندازہ ہے کہ ناگلز ہر سال پانچ ارب ٹکٹس چھاپتے ہیں جن میں سے اب صرف پانچواں حصہ مقناطیسی پٹیوں کا حامل ہے۔

لی منٹر تھرمل پرنٹ شدہ کاغذی ٹکٹوں پر زور دیتے ہیں جیسا کہ رسیدیں، جو اب برطانیہ بھر کے متعدد ریلوے سٹیشنز پر آزمائشی طور پر استعمال کی جارہی ہیں۔

یہ ایک کیو آر کوڈ کے ساتھ آتے ہیں جسے ٹکٹ سکینرز پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ جعلی ٹکٹوں کی روک تھام کے لیے اس کے پیچھے ایک الگ کوڈ بھی ہے۔

ٹرین آپریٹر اور ریلوے کمپنی ’ناردرن‘ کے سٹورٹ ٹیلر کا کہنا ہے کہ ان کی فرم کے 70 فیصد صارفین اب ڈیجیٹل ٹکٹ خریدتے ہیں اور صرف پانچ سال کے عرصے میں نارنجی رنگ کے مشہور میگ سٹرائپ سپورٹنگ ورژن کو ختم کر دیا جائے گا۔

سٹورٹ ٹیلر کا کہنا ہے کہ ’اس سے واضح ماحولیاتی فائدہ ہے۔‘

میگ سٹرائپ
Getty Images
مقناطیسی پٹی کی مقبولیت میں کمی آرہی ہے

’ویکس ٹیکنالوجی‘ میں نقل و حمل کے نظام کی پروڈکٹ ڈائریکٹر سُو والنٹ کہتی ہیں کہ ان مقناطیسی سٹریپس کا کوئی فائدہ نہیں رہا۔

وہ دلیل دیتی ہیں کہ اب میگ سٹرائپ ٹیکنالوجیکی ضرورت نہیں کیونکہ اب ریل ٹکٹ کی توثیق کے بہت سے مختلف طریقے ہیں۔ مثال کے طور پر فون سکرینوں پر پیش کردہ کیو آر کوڈ، گھر پر پرنٹ ہونے والے ٹکٹ، پری پیڈ کانٹیکٹ لیس کارڈ وغیرہ۔

لیکن میگ سٹرائپ ٹکٹ اور انٹری کارڈ آسانی سے بٹوے اور پرس میں آ جاتے ہیں جبکہ ناردرن اور دیگر ریل کمپنیوں کے کاغذی ٹکٹ بڑے ہیں۔

میگ سٹرائپ کی جانچ کے لیے سازوسامان بنانے والے ’بارنس انٹرنیشنل‘ کے سٹیفن کران فیلڈ کا کہنا ہے کہ میگ سٹرائپ ایک طویل عرصے سے چل رہا ہے کیونکہ یہ نسبتاً سستا ہے اور ان کے لیے مشینیں کئی دہائیوں پہلے نصب کی گئی تھیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اگر آپ نے آج اپنا کارڈ لیا اور اسے 1970 کے میگ سٹرائپ ریڈر میں استعمال کیا تو پھر بھی وہ اسے پڑھ سکیں گے۔‘

ان کی فرم نے مختلف نظاموں پر کام کیا، جن میں گردوں کے مریضوں کو ڈائیلاسس مشین چلانے کے لیے میگ سٹرائپ کارڈ استعمال کرنے کی اجازت دینا شامل ہے۔

گہرے بھورے یا سیاہ میگ سٹریپس کی کثرت کے باوجود وہ اصل میں رنگوں کی ایک پوری رینج میں آسکتے ہیں۔

لیکن اب جبکہ امریکی بینک آخر کار چپ اور پن کارڈز کی طرف منتقل ہو رہے ہیں میگ سٹرائپ کی مارکیٹ واضح طور پر کم ہو رہی ہے۔

پروفیسر مرڈوک کا کہنا ہے کہ اگرچہ میگ سٹرائپ ٹیکنالوجی بہت اچھی طرح سے قائم ہے لیکن ’ناگزیر‘ ہے کہ یہ آہستہ آہستہ ختم ہوجائے گی۔

نئی ٹیکنالوجیز اگرچہ نظریاتی طور پر زیادہ محفوظ اور زیادہ پیچیدہ بھی ہوسکتی ہیں اسی وجہ سے جرائم پیشہ افراد نئے طریقوں کا استعمال کرتے ہوئے استحصال کرسکتے ہیں۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.