کچے میں ڈاکوؤں کا راج: پولیس کا ’کامیاب‘ گرینڈ آپریشن ناکامی میں کیوں بدلا؟

image

پاکستان کے دو صوبوں پنجاب اور سندھ میں واقع دریائی علاقے میں ڈاکوؤں کی پناہ گاہیں دہائیوں سے موجود ہیں۔ گزشتہ چند سالوں سے کچے کے ڈاکو کسی نہ کسی طرح خبروں میں ضرور رہتے ہیں۔ پچھلے سال صوبہ پنجاب اور سندھ کی حکومتوں نے دریائی علاقے میں چھپے ڈاکوؤں کے گینگز کے خلاف ایک گرینڈ آپریشن بھی کیا اور دعویٰ کیا کہ بڑے ٹھکانے تباہ کر دیے گئے ہیں۔

تاہم جمعرات کی شب پنجاب میں رحیم یار خان کے کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں کے ایک گروہ نے اس وقت پولیس پر حملہ کر دیا جب ان کی ڈیوٹیاں تبدیل کرنے والی بس کیچڑ میں خراب ہوئی پڑی تھی۔

آئی جی پنجاب آفس کے مطابق اس وقت ڈاکوؤں نے راکٹوں سے حملہ کیا اور اس حملے کے نتیجے میں اب تک 12 پولیس اہلکاروں کی موت کی تصدیق کی گئی ہے۔

ڈاکوؤں کے اس حملے نے پورے سسٹم کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور اس حملے کو اب تک کا ڈاکوؤں کی طرف سے سب سے بڑا حملہ قرار دیا جا رہا ہے۔

اس وقت سیکریٹری داخلہ پنجاب، آئی جی پنجاب سمیت تمام اعلٰی افسران رحیم یار خان میں موجود ہیں اور دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ حملہ آور ڈاکوؤں کے سرغنہ بشیر شر کو ہلاک کر دیا گیا ہے جبکہ اب تک حملہ آور گینگ کے مزید پانچ ڈاکو مارے جا چکے ہیں۔

خیال رہے کہ ڈاکوؤں کا پولیس پر یہ حملہ گزشتہ برس اپریل میں شروع کیے جانے والے ’گرینڈ آپریشن‘ کے بعد ہوا ہے۔

آئی جی پنجاب آفس سے دستیاب اعداد و شمار کے مطابق یہ آپریشن ساٹھ ہزار ایکڑ کے کچے کے علاقے میں کیا گیا جس میں اب تک 65 ڈاکوؤں کی ہلاکت ہو چکی ہے، 26 ڈاکوؤں نے خود کو سرنڈر کیا اور 60 سے زائد گرفتار ہوئے۔

آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے جمعے کی صبح رحیم یار خان میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم اپنے شہید پولیس اہلکاروں کی شہادت کا بدلہ لیں گے رات سے ہی ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن میں تیزی کی گئی ہے اس میں سندھ پولیس بھی ہمیں معاونت دے رہی ہے۔‘

ڈاکوؤں نے حملہ تب کیا جب پولیس بس خرابی کے باعث پھنس گئی تھی۔ فوٹو: اے ایف پی

جب ان سے سوال کیا گیا کہ گزشتہ ایک سال سے جاری گرینڈ آپریشن جس کو کامیاب آپریشن کہا جا رہا تھا کے بعد یہ واقع کیوں ہوا ہے؟ آئی جی پنجاب کا کہنا تھا کہ ’یہ محض ڈاکوؤں کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس علاقے کے سماجی اور اقتصادی مسائل سے بھی یہ بات جڑی ہوئی ہے۔‘

انہوں نے کہا حکومت اس مسئلے کو دیکھ رہی ہے اور ان علاقوں میں بڑے پیمانے پر ترقیاتی کام شروع کیے گئے ہیں جس سے فرق پڑے گا۔

’ہمارا آپریشن بہت کامیاب رہا ہے۔ جو ابھی بھی جاری ہے۔ ہمارے جوانوں کے پاس جدید ترین اسلحہ ہے اور وہ بھرپور طریقے سے مقابلہ کر رہے ہیں۔‘

گزشتہ کچھ مہینوں میں کچے کے ڈاکو ہنی ٹریپ اور اغوا برائے تاوان میں ملوث قرار دیے گئے اور پنجاب پولیس نے اس حوالے سے ایک مہم بھی چلائی کہ جنوبی پنجاب خاص طور پر رحیم یار خان کے علاقوں کے لوگ موبائل فون پر اجنبی خواتین کے جھانسے میں نہ آئیں۔

پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ ایک سال میں آپریشن کے دوران ایک پولیس اہلکار کی موت جبکہ کل سات زخمی ہوئے، چالیس نئی چوکیاں قائم کی گئیں جبکہ چودہ بیس کیمپ بنائے گئے ہیں۔

گزشتہ روز انہی چودہ میں سے ایک بیس کیمپ کو ڈاکوؤں نے راکٹوں سے حملے کا نشانہ بنایا۔

اپریل 2023 میں کچے کے ڈاکوؤں کے خلاف گرینڈ آپریشن کیا گیا تھا۔ فوٹو: اے ایف پی

آر پی او بہاولپور رائے بابر نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’یہ ایک انتہائی غیر متوقع حملہ تھا۔ پچھلے ایک سال میں جتنا بڑا آپریشن کیا گیا ہے اس سے ڈاکوؤں کے کئی گروہ تو مکمل طور پر ختم ہو چکے ہیں اور جو باقی ہیں وہ کمزور ہو چکے ہیں۔ ایک ہی وقت میں دو ہزار سے زائد اہلکار فرنٹ پر ہوتے ہیں۔ یہ ایک غیر متوقع حملہ تھا جس کا جواب اب پوری طاقت سے دیا جا رہا ہے۔‘

پولیس کیوں ناکام ہوئی:صورت حال کے بارے میں بات کرتے ہوئے مقامی صحافی فاروق سنھو نے کہا کہ سندھ، پنجاب اور بلوچستان باڈر پر ٹرائی اینگل کی طرح کچے کا علاقہ 7 چھوٹے بڑے جزائر پر مشتمل ہے۔ ان میں کچہ کراچی، کچہ عمرانی، کچہ حیدر آباد، کچی بنو، کچی مورو، کچی جمال اور کچی کپرا کے علاقے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ضلع رحیم یارخان کے دریائی علاقے کچہ کراچی کچہ حیدر آباد ہیں جبکہ دیگر پانچ کچے کے علاقے ضلع راجن پور میں ہیں۔

صحافی فاروق سندھو کا کہنا ہے کہ ’میرے نزدیک کچے کا 15 ہزار مربع کلومیٹر بہترین زرعی علاقہ جس کی سرحد تین صوبوں پنجاب، سندھ اور بلوچستان سے ملتی ہیں، میں امن امان کے قیام کے لیے علیحدہ سے پولیس سسٹم اور انفراسٹرکچر کی ضرورت ہے۔ دو اضلاع رحیم یار خان اور راجن پور کے ڈی پی او مسلسل کئی برس سے کچے میں آپریشنز میں مصروف ہیں، تمام وسائل کچے میں جھونکے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے رحیم یار خان اور راجن پور کے شہری اور دیہی علاقوں میں پولیسنگ کا نظام فعال نہ ہونے کی وجہ سے مسائل دن بہ دن بڑھ رہے ہیں۔‘

یاد رہے کہ ضلع رحیم یار خان 11،880 مربع کلومیٹر پر مشتمل ہے اور اس ضلع کی آبادی لگ بھگ پچاس لاکھ اہے جس کے لیے 27 تھانے اور 13چوکیاں ہے۔

فاروق سندھو سمجھتے ہیں کہ ’ایک ڈی پی او وسیع و عریض پنجاب کے 9ویں بڑے ضلع کو سنبھالے کہ اپنے سارے وسائل اور نفری کچہ آپریشن میں لگائے یہ ایک بڑا مسئلہ اور چیلنج ہے جسے پنجاب حکومت سمجھ نہیں رہی، موٹر وے ایم فائیو کی گزر گاہ کچے کے علاقوں سے ہے  جس کی وجہ سے معاملات مزید حساس ہو گئے۔‘

 


News Source   News Source Text

مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.