وہ ملک جہاں اسلامی ریاست کی تشکیل کے نعرے نے خوف اور خون کی ’سیاہ دہائی‘ کو جنم دیا

ملک کی سب سے بڑی اسلامی جماعت اور الجزائر میں اخوان المسلمون سے منسلک تحریک برائے سوسائٹی فار پیس کے سربراہ عبدالعلی حسنی الجزائر کے صدارتی انتخابات کے لیے موجودہ صدر کے خلاف کھڑے ہو رہے ہیں۔ یہ صدراتی انتخاب رواں برس سات ستمبر کو ہوگا۔ انھیں ملک کی ایک اور اسلامی سیاسی جماعت کی حمایت بھی حاصل ہے۔

ملک کی سب سے بڑی اسلامی جماعت اور الجزائر میں اخوان المسلمون سے منسلک تحریک برائے سوسائٹی فار پیس کے سربراہ عبدالعلی حسنی الجزائر کے صدارتی انتخابات کے لیے موجودہ صدر کے خلاف کھڑے ہو رہے ہیں۔

یہ صدراتی انتخاب رواں برس سات ستمبر کو ہو گا۔ انھیں ملک کی ایک اور اسلامی سیاسی جماعت کی حمایت بھی حاصل ہے۔

مگر الجزائر کی ریاست کی اسلام پسند مذہبی جماعتوں کے ساتھ تنازعات اور مفاہمت کی ایک تاریخ ہے۔ الجزائر نوے کی دہائی سے اسلام پسند جماعتوں کے خلاف برسرپیکار ہے۔ وہ ان جماعتوں کو انتہا پسند قرار دیتا ہے۔ یہ تنازع اس وقت شروع ہوا جب سنہ 1991 میں اسلامی سالویشن فرنٹ نامی تنظیم نے قانون ساز اسمبلی کے انتخابات کے پہلے مرحلے میں کامیابی حاصل کی مگر ان انتخابات کے نتائج کو منسوخ کر دیا گیا۔

اس اقدام سے ملک میں ایک خوفناک خانہ جنگی کا آغاز ہوا جسے ’سیاہ دہائی‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ الجزائر کا تجربہ بہت منفرد رہا ہے کیونکہ الجزائر کی ریاست اور سخت گیر اسلام پسندوں کے درمیان تنازع ایک مفاہمتی معاہدے میں تبدیل ہو گیا تھا، اور کچھ دوسری اسلامی جماعتیں جو اعتدال پسندتھیں کو قانون سازی اور صدارتی انتخابات میں سیاسی طور پر حصہ لینے کی اجازت ہے۔

سنہ 1991 کے انتخابات میں اسلام پسندوں کی بھاری اکثریت سے فتح سیاسی منظر نامے پر ان کے ابھرنے کا آغاز نہیں تھا بلکہ ان کے تقویت پانے کا عمل سنہ 1988 میں ہی شروع ہو گیا تھا۔

سنہ 1988 اکتوبر کے واقعات

پانچ اکتوبر 1988 کو الجزائر کی متعدد ریاستوں میں بڑھتی بے روزگاری اور بگڑتی معاشی صورتحال کے پیش نظر مظاہروں شروع ہو گئے تھے۔

ان مظاہروں کی وجہ سنہ 1986 میں عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی کے باعث یہاں کے عوام کی قوت خرید کا کم ہونا تھا۔ یہ مظاہرے الجزائر کی آزادی کے بعد سب سے بڑے احتجاج کی شکل اختیار کر گئے تھے۔

یہ مظاہرے بڑھتے ہوئے ریاست کے پسماندہ اور غریب ترین علاقوں اور قصبوں تک پھیل گئے، ہزاروں مظاہرین کی پولیس سے پرتشدد جھڑپیں ہوئی اور پولیس نے مظاہرین کو منشتر کرنے کے لیے آنسو گیس کے شیلز کا آزادانہ استعمال کیا۔

الجزائر کے مشہور باب ال اوید علاقے سمیت دیگر علاقے بھی ان پرتشدد مظاہروں کی لپیٹ میں آئے جن میں مظاہرین نے لوٹ مار اور توڑ پھوڑ بھی کی۔

ان مظاہروں کے پھوٹ پڑنے کے کچھ دن بعد صورتحال نے ایک سنگین موڑ اس وقت لیا جب ان مظاہروں نے مذہبی رنگ اختیار کر لیا اور ملک بھر میں جمعے کی نماز کے بعد مظاہروں کے اعلانات شروع ہو گئے۔ جس میں دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں داڑھیوں والے نوجوان سفید چوغے پہنے اور مذہبی نعرے لگاتے سڑکوں پر نکل آئے تھے۔

ایک مظاہرے میں 20 ہزار سے زیادہ اسلام پسند مظاہرین شریک ہوئے تھے۔

اس کے بعد ملک میں امن و عامہ کے حالات تیزی سے بگڑے اور ان مظاہروں کے دوران لوٹ مار کے واقعات میں بہت زیادہ اضافہ ہوا۔ اس کو’بلیک اکتوبر کے واقعات‘ کا نام دیا گیا۔

ملک کی تیزی سے بگڑتی سکیورٹی صورتحال کو قابو میں کرنےاور مظاہروں کو روکنے کے لیے فوج کو طلب کیا گیا جو نو روز بعد حالات پر قابو پانے میں کامیاب ہوئی۔

آئین میں ترمیم

الجزائر میں حالات قابو میں آنے کے فوراً بعد اس وقت کے صدر الشاذلی بن جديد نے سیاسی اصلاحات کی اور آئین میں ترمیم کی جس نے الجزائر میں سیاسی تکثیریت کے ایک نئے دور کا آغاز کیا جبکہاس وقت صرف حکمران نیشنل لبریشن فرنٹ پارٹی ہی ملک کے سیاسی منظر نامے پر سب سے آگے تھی۔

الجزائر کی قومی عوامی اسمبلی (پارلیمان) نے نئی سیاسی جماعتوں کے قیام پر پابندی ختم کر دی اور ایک نیا قانون منظور کیا جس کے تحت اپوزیشن جماعتوں کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی گئی۔

پھر سنہ 1989 میں 20 سیاسی جماعتوں کی بنیاد رکھی گئی اور انھیں سیاست میں حصہ لینے کی اجازت دی گئی۔ ان میں عباسی مدنی اور علی بن الحاج کی قائم کردہ سیاسی جماعت اسلامی سالویشن فرنٹ بھی شامل تھی۔

اس کے بعد سنہ 1991 میں اسلام پسند سیاسی جماعت ’موومنٹ فار سوسائٹی فار پیس‘ قائم ہوئی جس کے امیدوار رواں برس صدارتی انتخاب لڑ رہے ہیں۔

سنہ 1991 میں اس جماعت کے سربراہ عباسی مدنی تھے اور ملک میں جاری احتجاج کے بعد خالی ہونے والے خلا کے نتیجے میں اسلام پسند ایک غالب قوت بن کر ابھرے تھے۔

اس بارے میں الجزائر یونیورسٹی میں سیاسیات اور بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر ڈاکٹر توفیق بوقیدہ کہتے ہیں کہ ’اسلام پسند گروہ ستر اور اسی کی دہائی میں خفیہ طور پر سرگرم تھے اور جب وہ منظر عام پر آئے تو ان کے بیانیے کی بنیاد یہ تھی کہ وہ تبدیلی کے لیے لڑ رہے تھے، اور اس زمانے اسلام پسند جماعتوں کے متعلق عوام میں کوئی آگاہی نہیں تھی جیسی کہ آج ہے۔‘

سنہ 1990 کی دہائی کے اوائل میں اسلامک سالویشن فرنٹ کے سربراہ عباسی مدنی نے ایک ویڈیو تقریر کی جس میں انھوں نے کہا کہ وہ ’قرآن و سنت کی روشنی میں اسلامی ریاست‘ قائم کریں گے۔

مدنی نے حاضرین کے ایک بڑے ہجوم کے سامنے کہا کہ ’اگر وہ انتخاب کا کہتے ہیں تو ہم ووٹ ڈالیں گے اور اگر وہ جہاد کا کہتے ہیں تو ہم لڑیں گے۔‘ جس کے بعد بڑے مجمع نے ’جہاد، جہاد‘ کے نعرے لگائے، جسے بعض حلقوں نے الجزائر کی ریاست کے خلاف اکسانا سے تشبیہ دیا۔

دسمبر 1991 میں اس جماعت نے قانون ساز اسمبلی کے انتخابات کے پہلے مرحلے میں زبردست کامیابی حاصل کرتے ہوئے 231 میں سے 188 نشتیں جیتی تھیں۔

ڈاکٹر بوقیدہ انتخابات میں اسلامک سالویشن فرنٹ کی بھاری اکثریت سے جیت کا سہرا جماعت کے اس وقت کی بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال سے فائدہ اٹھانے کے بیانیے ہو قرار دیتے ہیں۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ ’اسلامک سالویشن فرنٹ نے اپنے انتخابی بیانیے میں کھل کر عوامی جذبات کے ساتھ کھیلا کیونکہ ان کا انتخابی بیانیہ اسلامی ریاست کی تشکیل تھا۔‘

بوقیدہ کے مطابق، بہت سے اشرافیہ نے اسلامک سوسائٹی فار پیس اوررینسانس موومنٹ جیسی اسلامی جماعتوں کا انتخاب کیا جنھوں نے اسلامک سالویشن فرنٹ کے مقابلے میں کم بنیاد پرست بیانیہ اپنایا تھا۔

کچھ سیکولرز نے سوشلسٹ فورسز پارٹی کا بھی انتخاب کیا، لیکن حکمران نیشنل لبریشن فرنٹ اور اسلامک سالویشن فرنٹ کا بیانیہ سب سے مقبول تھا۔

اسلام پسند جماعت نے انتخاب میں کامیابی کیوں حاصل کی تھی؟

الجزائر کے امور پر ماہر صحافی عمیمہ احمد کا خیال ہے کہ سنہ 1991 کے انتخابات میں اسلامک سالویشن فرنٹ کی زبردست فتح ’حکمران نیشنل لبریشن فرنٹ پارٹی‘ کے خلاف عوامی انتقام کا نتیجہ تھا۔ یہ حکمران جماعت الجزائر کی آزادی کے بعد سے واحد سیاسی جماعت تھی اور اس نے بڑے پیمانے پر بدعنوانی کی تھی۔ جبکہ اسلامک فرنٹ کی انتخابی تقریر میں دولت کی منصفانہ تقسیم، احتساب اور انصاف کا وعدہ کیا گیا تھا۔‘

ڈاکٹر توفیق بوقیدہ کہتے ہیں کہ اسلامک فرنٹ کے انتخابی مہم میں ’ملکی دولت بڑھانے اور قومی آمدنی کا انتظام کرنے کے بارے میں کہا گیا تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ اسلامک سالویشن فرنٹ نے کچھ کمرشل اقدامات بھی اٹھائے اور اسلامی بازاروں کے قیام کی بات کی جہاں اشیا کی قیمتیں دیگر مارکیٹوں سے کم تھی۔ اس اقدام سے ان کی غریب اور کم آمدن والے افراد میں حمایت بڑھی۔‘

فوج کی حمایت یافتہ الجزائر کی حکومت نے سنہ 1991 میں انتخابات کے نتائج کو نہ صرف کالعدم قرار دیا بلکہ پارلیمنٹ بھی تحلیل کر دی اور ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی۔

اس کے ساتھ ساتھ فوج نے اسلامک سالویشن فرنٹ پر پابندی لگاتے ہوئے اسے بھی ختم کر دیا۔

الجزائر کے امور کے ماہرین کے خیال میں اسلامک سالویشن فرنٹ کی بھاری اکثریت سے کامیابی کے بعد وہ حکومت بنانے کی پوزیشن میں آگئی تھی کیونکہ اس کے لیے انھیں 116 نشستیں درکار تھیں۔

اس لیے اگر اسلامک فرنٹ حکومت بنانے میں کامیاب ہو جاتی تو پارلیمان پر اس کا قبضہ ہو جاتا اور وہ اپنی انتخابی مہم میں کیے گئے اسلامی ریاست کی تشکیل کے وعدہ کو پورا کرنے کے قابل ہو جاتی۔

ڈاکٹر توفیق بوقیدہ کا خیال ہے کہ فوج کو خوف تھا کہ ایک اسلامی جماعت ریاست کے ثقافتی اور تاریخی ورثے اور اس کی شناخت کو بدل دے گی۔

تاہم ان کے مطابق اس وقت کچھ ایسی جماعتیں بھی تھیں جو حکومت کی جانب سے انتخابی نتائج کو منسوخ کرنے کے فیصلے پر تنقید کر رہی تھی۔

ان میں نیشنل لبریشن فرنٹ اور سوشلسٹ فورسز پارٹی شامل تھیں جن کا خیال تھا کہ حکام کے پاس اسلامک لبریشن فرنٹ کو غیر مقبول کرنے کا ایک دوسرا رستہ بھی ہے۔

اور وہ یہ تھا کہ انتخاب کو کالعدم قرار دینے کی بجائے اسلامک سالویشن فرنٹ کو پارلیمان میں نشستیں دے دی جائیں اور جو وہ عوامی توقعات اور انتخابی وعدوں کے مطابق اسلامی نظام کا نفاذ کرنے میں ناکام ہو جاتی تو اس کی مقبولیت خود ہی کم پڑ جاتی۔

خون اور خوف کی ’سیاہ دہائی‘

انتخابی نتائج کو کالعدم قرار دینے کے فوراً بعد الجزائر کی فوج نے جمہوریہ کے صدر، الشاذلی کو برطرف کر دیا، اور ان کی جگہ سپریم کونسل تشکیل پائی۔

فوج نے محمد بوضياف کو سپریم کونسل کی سربراہی کے لیے کہا، وہ فرانس سے لڑی گئی الجزائر کی جنگ آزادی کے نمایاں جنگجو تھے۔

جنوری 1992 میں بوضیاف مراکش میں اپنی 27 سالہ خود ساختہ جلا وطنی گزارنے کے بعد سپریم کونسل کی سربراہی کے لیے الجزائر پہنچے۔

ڈاکٹر بوقیدہ کا کہنا ہے کہ فوج نے محمد بوضیاف کا انتخاب اس لیے کیا کہ وہ الجزائر سے بہت دور تھے اور اس دور میں حکومت کے ستونوں کے درمیان اختلافات کی وجہ سے وہ ایک انقلابی شخصیت تھے جنھوں نے الجزائر کی جنگ آزادی میں اپنا کردار ادا کیا تھا۔ اور اس لیے وہ بہترین شخص تھے جس پر سب کا اتفاق تھا۔

مارچ 1992 میں جب بوضیاف نے اقتدار میں آ کر اسلامک سالویشن فرنٹ پر پابندی لگا دی اور اس کے رہنماؤں عباسی مدنی اور علی بن الحاج کو ہزاروں اراکین سمیت گرفتار کر لیا گیا۔

نتیجے کے طور پر اسلامک فرنٹ کے ارکان پہاڑوں کی طرف فرار گئے اور ’اسلامک سالویشن آرمی‘ کے نام سے ایک مسلح ونگ کے قیام کا اعلان کیا اور سکیورٹی اہلکاروں پر حملے شروع کر دیے، اور یوں ملک میں پرتشدد کارروائیوں میں اضافہ ہوا۔

بوضياف کا قتل

29 جون 1992 کو بوضياف مشرقی الجزائر کے شہر انابا میں ایک ثقافتی مرکز کے اندر تقریر کر رہے تھے، جس کو براہ راست نشر کیا گیا۔ الجزائر کے سرکاری میڈیا کے مطابق اچانک اس جگہ پر افراتفری پھیل گئی، جب صدر کے محافظ نے انھیں پیٹھ اور سر میں گولی مار دی، جس سے وہ ہلاک ہو گئے۔ محافظ کی اسلامک سالویشن فرنٹ سے ہمدردیاں تھیں جس کی وجہ سے انھوں نے صدر پر گولی چلائی۔

الجزائر کے امور میں مہارت رکھنے والی صحافی عمائمہ احمد، کہتی ہیں کہ صدر بوضيافکا قتل ملکی حالات میں ایک خاص موڑ تھا کیونکہ وہ طاقت کے بجائے اس معاملے کے سیاسی حل کے حامی تھے۔وہ حکام کی سوچ کے برعکس اسلام پسندوں سے نمٹنے کے لیے ’سکیورٹی حل‘ کو ترجیح نہیں دیتے تھے۔

الجزائر ایک تلخ، خونریز تنازع کا شکار ہوا، اور قتل اور بم دھماکوں کے دہشت گردی کے واقعات پورے دس سال تک ’نیشنل سالویشن آرمی‘ کہلانے والے ارکان نے انجام دیے، جسے ’سیاہ دہائی‘ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ اس دوران کم از کم 100,000 لوگ مارے گئے۔

اخوان المسلمین سے وابستہ جماعتوں کا عروج

شیخ محفوظ نحنہ کی قیادت میں تحریک برائے امن کی تحریک اور عبداللہ جبلہ کی قیادت میں تحریک النہضہ کا موقف سالویشن فرنٹ کے موقف سے مختلف تھا۔

الجزائر یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر ڈاکٹر توفیق بوقیدہ کہتے ہیں کہ دونوں تحریکیں ہی خانہ جنگی کی حامی نہیں تھیں۔

انھوں نے اس مرحلے (سیاہ دہائی) کے دوران سکیورٹی افراتفری کا ذمہ دار فرنٹ کو بھی ٹھہرایا، اس بنیاد پر کہ ان کے پاس عقلی انتخاب نہیں تھا اور انھوں نے اقتدار پر اجارہ داری قائم کرنے کی کوشش کی، حتیٰ کہ اس کے قریب ترین اسلامی جماعتوں کے ساتھ بھی شرکت نہیں کی۔

سنہ 1997 میں نئی قائم ہونے والی نیشنل ڈیموکریٹک ریلی پارٹی نے پارلیمانی انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ اس کے بعد اعتدال پسند اسلامی تحریک ’سوسائٹی فار پیس پارٹی‘ نے کامیابی حاصل کی۔

عمائمہ احمد کہتی ہیں کہ ’موومنٹ فار سوسائٹی آف پیس نے اسلامک سالویشن فرنٹ کی حمایت نہیں کی، بلکہ اسے ایک مضبوط حریف سمجھا، اور فرنٹ کے باضابطہ طور پر تحلیل ہونے کے بعد یہ فرنٹ ایک طرح سے اس سوسائٹی کے لوگوں کی صفوں میں شامل ہو گیا۔

سول ہم آہنگی کا قانون

سنہ 1997 میں الجزائر کی ریاست اور اسلامی سالویشن فرنٹ کے درمیان تنازع میں ایک پیش رفت کا آغاز ہوا، جب نام نہاد ’اسلامک سالویشن آرمی‘ نے الجزائر کی فوج کے ساتھ معاہدے میں جنگ بندی کا اعلان کیا۔

صدر عبدالعزیز بوتفلیقہ کے الجزائر میں برسراقتدار آنے کے فوراً بعد سنہ 1999 میں انھوں نے ’شہری ہم آہنگی‘ کے قانون کی منظوری کے لیے ایک ریفرنڈم کرایا، جس کی وجہ سے تقریباً چھ ہزار اسلامی عسکریت پسندوں نے لڑائی ترک کر دی اور عام معافی کی شرط کا فائدہ اٹھایا۔

ڈاکٹر بوقادہ کا کہنا ہے کہ صدر بوتفلیقہ نے اس قانون کو ’سیاسی رنگ‘ دیا، جو الجزائر کی فوج اور نام نہاد ’اسلامک سالویشن آرمی‘ کے درمیان طویل اور خفیہ مذاکرات کے نتیجے میں سامنے آیا۔ اس قانون کے تحت کالعدم اسلامک سالویشن فرنٹ کے نائب سربراہ علی بلحاج کو سنہ 2003 میں جیل سے رہا کیا گیا تھا۔

سنہ 1997 میں اسلامک سالویشن فرنٹ کے سربراہ عباسی مدنی کو سنہ 2003 میں مکمل طور پر رہا ہونے سے پہلے گھر میں نظر بند کر دیا گیا۔ اس کے فوراً بعد علاج کی غرض سے ملائیشیا چلے گئے اور پھر قطر میں سکونت اختیار کر لی۔

ستمبر 2005 میں ریاست اور اسلامک سالویشن فرنٹ کی فوج کے عسکریت پسندوں کے درمیان ایک اور مفاہمتی منصوبے جسے ’امن اور مصالحت کا معاہدہ‘ کہا جاتا ہے، کو ایک مقبول ریفرنڈم میں ووٹروں کی حمایت ملی۔ اسلامی عسکریت پسند اپنے ہتھیار چھوڑنے کے بعد الجزائر کے معاشرے کے عام شہری بن گئے۔

معاویہ
Getty Images

معاویہ کی وراثت

ڈاکٹر توفیق بوقیدہ نے بی بی سی کو ایک انٹرویو میں کہا کہ الجزائر کی ریاست اس انتہا پسند اسلامی تحریک کے ساتھ ’معاویہ کی وراثت‘ کو برقرار رکھے ہوئے ہے، اور یہی چیز اسے ’امن قائم کرنے‘ میں مدد فراہم کرتی ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ ’حکام ان لوگوں کے خلاف ہیں جنھوں نے تشدد کا انتخاب کیا نہ کہ اس اسلامی تحریک سے جس سے وہ تعلق رکھتے ہیں۔‘

اگرچہ الجزائر کی ریاست نے اسلامی سالویشن فرنٹ پر پابندی لگا دی تھی بشمول اس فرنٹ کے ان لوگوں پر بھی جو ارکان قومی اسمبلی تھے۔ ان میں سابق وزیر مذہبی امور احمد میرانی بھی اس فرنٹ کے رہنما بھی شامل تھے۔

صرف اتنا ہی نہیں جیسا کہ بوقیدہ کہتے ہیں بلکہ ’اسلامک سالویشن آرمی کے رہنما مدنی مرزق کو ایک قومی شخصیت کے طور پر سیاسی مکالمے کے لیے بلایا جاتا ہے، اور اس لیے حکام نے اسلام پسندوں کے ساتھ بہت احتیاط سے معاملات آگے بڑھائے اور تنازع کو ہوا بھی نہیں دی۔

سالویشن فرنٹ سے وابستہ لوگوں کو مصالحت کے لیے مدد طلب کی اور وہ انھیں قوم کو آگے لے جانے والے مددگاروں کو طور پر دیکھتے ہیں۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.