انٹرنیشنل سپیس سٹیشن پر پھنسے خلابازوں کو سپیس ایکس واپس زمین پر لائے گی

ناسا کے دو خلاباز جو دو ماہ سے زیادہ عرصے سے خلا میں پھنسے ہوئے ہیں اب وہ فروری سنہ 2025 میں سپیس ایکس کی خلائی گاڑی سے زمین پر واپس آئیں گے۔
سنیتا ولیمز اور بیری ولمور
AFP
سنیتا ولیمز اور بیری ولمور پانچ جون کو بین الاقوامی سپیس سٹیشن کے لیے روانہ ہوئے تھے

ناسا کے دو خلاباز جو دو ماہ سے زیادہ عرصے سے خلا میں پھنسے ہوئے ہیں اب وہفروری سنہ 2025 میں سپیس ایکس کی خلائی گاڑی سے زمین پر واپس آئیں گے۔

امریکی خلائی ایجنسی ناسا نے کہا کہ خلاباز سنیتا ولیمز اور بیری ولمور نے جس بوئنگ سٹار لائنر خلائی جہاز سے بین الاقوامی خلائی سٹیشن (آئی ایس ایس) کا سفر کیا تھا اب وہ ’خالی‘ لوٹے گا۔

یہ دونوں خلاباز رواں سال پانچ جون کو آٹھ روزہ مشن پر روانہ ہوئے تھے لیکن اب وہ وہاں مدار میں تقریباً آٹھ ماہ گزاریں گے۔

سٹار لائنر کو آئی ایس ایس کے راستے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ تمام چیزیں منصوبے کے مطابق نہ ہو سکیں اور دونوں امریکی خلا باز ابھی بھی خلا میں ہی موجود ہیں۔ ان کی خلائی گاڑی کو جو مشکلات پیش آئيں ان میں ہیلیم کا لیک بھی شامل ہے جو ایندھن کو پروپلشن سسٹم میں دھکیلتا ہے۔ اس کے علاوہ کئی تھرسٹرس بھی ٹھیک سے کام نہیں کر رہے تھے۔

اس کے بعد یہ خدشہ ظاہر کیا جانے لگا کہ بیری اور سنیتا غیر معینہ مدت کے لیے خلا میں ہی پھنسے رہ سکتے ہیں اور شاید انھیں کرسمس اور نئے سال کی شام بھی خلا میں ہی گزارنا پڑے۔

61 سالہ بیری اور 58 سالہ سُنیتا بوئنگ کے سٹار لائنر کے ذریعے بین الاقوامی سپیس سٹیشن گئے تھے۔ یہ اپنے طرز کی ایک تجرباتی فلائٹ تھی جس میں پہلی مرتبہ انسانوں کو بھیجا گیا تھا، یہ جانچنے کے لیے کہ ایک سے زائد بار استعمال کرنے پر اس راکٹ نما طیارے کی کارکردگی کیسی رہتی ہے۔

تاہم مسائل اس وقت سامنے آنا شروع ہوئے جب اُڑان بھرتے ہی اس کے فیول سسٹم میں لیکیج ہو گئی اور اس کے انجن کے کچھ پُرزے ناکارہ ہو گئے۔

ان تمام پریشانیوں کے باوجود بیری اور سُنیتا خلائی سٹیشن تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے، لیکن اب مسئلہ یہ ہے کہ انھیں زمین پر واپس آنے کے لیے کسی اور سواری کا انتظام کرنا پڑے گا کیونکہ بوئنگ کے سٹار لائنر سے زمین پر واپسی خطرے سے خالی نہیں۔

سپیس سٹیشن، خلائی مشن
EPA

بوئنگ اور سپیس ایکس دونوں سے ناسا نے اپنے خلابازوں کے لیے تجارتی خلائی پروازیں فراہم کرنے کے لیے اربوں ڈالر کے معاہدے کیے تھے۔ بوئنگ کی مالیت 4.2 ارب امریکی ڈالر تھی جب کہ سپیس ایکس کو 2.6 ارب ڈالر ملے تھے۔ واضح رہے کہ اس کمپنی کی بنیاد ارب پتی ایلون مسک نے رکھی تھی۔

سپیس ایکس نے اب تک ناسا کے لیے عملوں والی نو پروازیں خلا میں بھیجی ہیں، ساتھ ہی ساتھ کچھ تجارتی مشن بھی بھیجے ہیں لیکن یہ بوئنگ کی عملے کے ساتھ مشن پر جانے کی پہلی کوشش تھی۔

بوئنگ اور ناسا کے انجینئروں نے سٹار لائنر کرافٹ کے ساتھ پیش آنے والے تکنیکی مسائل کو سمجھنے کی کوشش میں مہینوں گزارے۔

وہ خلا میں اور زمین پر دونوں جگہ ٹیسٹ اور ڈیٹا اکٹھا کرتے رہے ہیں۔ ان کا مقصد مسائل کو جڑ سے ختم کرنے اور سٹار لائنر پر خلابازوں کو بحفاظت گھر واپس لانے کا راستہ تلاش کرنا تھی۔

سنیچر 24 اگست کو ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ناسا کے ایڈمنسٹریٹر بل نیلسن نے کہا کہ بوئنگ ناسا کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے تاکہ یہ سمجھا جا سکے کہ خلائی جہاز میں کیا کیا بہتری لانے کی ضرورت ہے۔

انھوں نے کہا ’خلائی پرواز ایک پر خطر مشن ہے کیونکہ اس کے سب سے محفوظ اور معمول کے مطابق سفر بھی اپنی آزمائشی پرواز میں فطرتاً نہ تو محفوظ ہوتے ہیں اور نہ ہی معمولی۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ہماری اولین ترجیح تحفظ ہے۔ ‘

انھوں نے کہا کہ آئی ایس ایس پر جانے والے دونوں خلاباز کے قیام کو فروری 2025 تک بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ وہ سپیس ایکس کریو ڈریگن خلائی جہاز پر واپس آسکیں۔

اضافی وقت میں سپیس ایکس اپنی اگلی گاڑی لانچ کرنے کے قابل ہو جائے گا جو ستمبر کے آحر تک پرواز بھرے گی۔

جون میں ایک پریس بریفنگ کے دوران امریکی خلائی ادارے ناسا کے حکام کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے آگے کا کوئی ٹھوس لائحہ عمل تاحال نہیں بنایا جا سکا ہے۔

ناسا کے کمرشل کریو پروگرام کے مینیجر سٹیو سٹچ کا کہنا ہے کہ ’ہماری پہلی ترجیح تو یہی ہے کہ بیری اور سُنیتا کی واپسی سٹار لائنر کے ذریعے ممکن ہو سکے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’تاہم ہم نے دیگر آپشنز بھی کُھلے رکھے ہیں اور ان پر منصوبہ بندی بھی جاری ہے۔‘

ان کے مطابق رواں برس ستمبر میں ایک مشن خلا کی طرف جا رہا ہے جو کہ فروری 2025 میں زمین کی طرف واپس آئے گا، یہ آپشن موجود ہے کہ دونوں خلابازوں کو اس مشن کے ذریعے واپس بُلایا جا سکے۔

ستمبر میں سپیس ایکس کا ایک ڈریگن کرافٹ خلا کی طرف جائے گا۔ منصوبہ یہی بنایا گیا تھا کہ اس خلائی گاڑی میں چار خلابازوں کو بھیجا جائے، لیکن خلا میں پھنسے ہوئے دو خلابازوں کے لیے اس گاڑی میں دو نشستیں خالی چھوڑی جا سکتی ہیں۔

اس منصوبے پر اگر عمل کیا جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ بیری اور سُنیتا کو آٹھ دنوں کے بجائے آٹھ مہینے بین الاقوامی خلا سٹیشن پر گزارنے پڑیں گے۔

اگر دونوں خلابازوں کو سپیس ایکس کے راکٹ کے ذریعے واپس لایا جاتا ہے تو پھر بوئنگ کا سٹار لائنر کمپیوٹر کی مدد سے زمین پر لایا جائے گا۔

ناسا کے حکام کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے کسی حتمی فیصلہ لینے کے لیے تقریباً ایک ہفتہ لگ سکتا ہے لیکن اس میں تقریبا دو ماہ لگ گئے۔

ناسا کے سپیش آپریشنز کے ڈائریکٹر کین بورسوکس نے صحافیوں کو بتایا کہ سٹارلائنر کی بغیر مسافروں کی ’واپسی کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔‘

’اس لیے ہم مزید ایسے آپشنز پر غور کر رہے ہیں جس کو ہم آرام سے ہینڈل کر سکیں۔‘

لیکن امریکی خلابازوں کی سپیس ایکس کی خلاگاڑی سے واپسی بوئنگ کے لیے ایک بڑا دھچکا ہوگی کیونکہ یہ کمپنی برسوں سے سپیس ایکس کا مقابلہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

اسی ہفتے ناسا نے بین الاقوامی سپیس سٹیشن پر کھانے کا سامان اور دیگر ضروری اشیا بھی خلا بازوں تک سپیس ایکس کے راکٹ کے ذریعے ہی پہنچائی تھیں۔

گذشتہ مہینے بیری اور سُنیتا نے ایک بریفنگ میں حکام کو بتایا تھا کہ وہ زمین پر واپسی کے لیے ’انتہائی پُرامید‘ ہیں اور سٹارلائنر میں سفر بھی ’حقیقتاً متاثرکُن‘ تھا۔

سُنیتا امریکی بحریہ کی سابق پائلٹ ہیں اور یہ ان کا خلا کا تیسرا چکر ہے، جبکہ بیری بھی ماضی میں لڑاکا طیارے کے پائلٹ رہ چکے ہیں اور یہ ان کا بین الاقوامی سپیس سٹیشن کی طرف تیسرا چکر ہے۔

سُنیتا نے بریفنگ کال میں کہا تھا کہ ’ہم یہاں بہت مصروف رہے ہیں اور عملے کے ساتھ گُھل مل گئے ہیں۔‘

’ایسا لگ رہا ہے جیسے میں اپنے گھر واپس آ گئی ہوں۔ خلا میں گھومنے اور بین الاقوامی سپیس سٹیشن پر موجود ٹیم کے ساتھ کام کرنے کا احساس بہت اچھا ہے۔‘

بوئنگ کو امید تھی کہ اس کے پہلے سٹارلائنر مشن سے ایسے مزید مشنز کی راہ ہموار ہوگی۔ ایسے خلائی مشنز کے لیے ناسا نے 2020 میں سپیس ایکس راکٹوں کے استعمال کی منظوری دی تھی۔

بیری اور سُنیتا کو پلان کے برعکس خلا میں زیادہ وقت گزارنا پڑے گا، لیکن ماضی میں کچھ خلا بازوں نے ان سے بھی زیادہ وقت خلا میں گزارا ہے۔ روسی خلاباز ولیری پولیاکوف نے 1990 کی دہائی میں 437 دن خلائی سٹیشن پر گزارے تھے۔

گذشتہ برس امریکی خلاز باز فرینک روبیو 371 دن بین الاقوامی سپیس سٹیشن پر گزار کر زمین پر واپس آئے تھے۔

روس کی اولیگ کونونینکو ابھی بھی بین الاقوامی خلائی سٹیشن پر ہی موجود ہیں اور وہ 1000 سے زیادہ دن خلائی سٹیشن پر گزارنے والی پہلی خلاباز بن گئی ہیں۔

بریفنگز اور انٹرویوز کے دوران امریکی خلابازوں کے حوصلے بُلند دیکھے گئے ہیں۔

سُنیتا نے گذشتہ مہینے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’میں یہ شکایت بالکل نہیں کر رہی کہ ہمیں یہاں مزید ہفتے گزارنے پڑ رہے ہیں۔‘

لیکن موجودہ صوتحال کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ انھیں کچھ ہفتے نہیں بلکہ بہت سے ہفتے خلا میں گزارنے پڑیں گے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.