طالبان افغانستان کی فضائی حدود سے گزرنے والی پروازوں سے ہزاروں ڈالر کیسے کما رہے ہیں؟

حال ہی میں خبر رساں ادارے روئٹرز نے رپورٹ کیا کہ ایران اور مشرق وسطیٰ میں فضائی حدود محفوظ نہ ہونے کے باعث دنیا کی مختلف فضائی کمپنیاں اب افغانستان کو جنوبی اور مشرقی ایشیا میں جانے کے لیے محفوظ آپشن سمجھتی ہیں۔

طالبان حکومت کا کہنا ہے کہ کچھ مسافر طیاروں کا روٹ ایران کی بجائے براستہ افغانستان کرنے سے 24 گھنٹے کے دوران 265 طیارے افغانستان کی فضائی حدود سے گزرتے ہیں۔

طالبان حکومت نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ افغانستان کی حدود سے گزرنے والی ہر پرواز سے 700 ڈالر وصول کرتے ہیں اور اس سے روزانہ ہزاروں ڈالر کماتے ہیں۔

حال ہی میں خبر رساں ادارے روئٹرز نے رپورٹ کیا کہ ایران اور مشرق وسطیٰ میں فضائی حدود محفوظ نہ ہونے کے باعث دنیا کی مختلف فضائی کمپنیاں اب افغانستان کو جنوبی اور مشرقی ایشیا میں جانے کے لیے محفوظ آپشن سمجھتی ہیں۔

طالبان حکومت کی وزارت ٹرانسپورٹ اور ہوابازی میں شعبہ اشاعت کے سربراہ امام الدین احمدی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق 24 گھنٹے میں 265 پروازیں افغانستان سے گزرتی ہیں اور مختلف کمپنیاں جیسے کہ برٹس ایئرویز، لفتھانزا، ایئر آستانہ، ایئر انڈیا، امریکن ایئر لائنز، بنگلہ دیش ایئر لائنز، سنگاپور ایئر لائنز اس میں شامل ہیں۔‘

یاد رہے کہ تین سال قبل جب طالبان نے افغانستان کا اقتدار سنبھالا تھا تو برٹش ایئرویز، لفتھانزا اور سنگاپور ایئرلائنز نے براستہ افغانستان، ایشیا اور یورپ کے درمیان اپنی پروازیں بند کر دی تھیں۔

’مجھے تنازعات والے علاقوں پر پرواز کرنا پسند نہیں‘

کمرشل پائلٹ اور یورپ کی کاک پٹ ایسوسی ایشن کے صدر اوتن ڈی بروئن نے روئٹرز کو بتایا کہ ’مجھے تنازعات والے علاقوں پر پرواز کرنا پسند نہیں کیونکہ آپ واقعی نہیں جانتے کہ کیا ہونے والا ہے۔‘

واضح رہے کہ ایئر لائنز ایران اور اسرائیل کے درمیان تنازعے کی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان موجودفضائی حدود کو خطرناک سمجھتی ہیں۔

سنہ 2022 میں یوکرین جنگ کے آغاز کے بعد سے زیادہ تر مغربی پروازوں کے لیے روسی فضائی حدود بند ہونے کے بعد ان میں سے بہت سے جہاز ایران اور مشرق وسطیٰ کی فضائی حدود سے گزرے۔

دیگر ایئر لائنز جنھوں نے رواس سال اپریل سے افغانستان کے لیے اپنی پروازوں میں اضافہ کیا، ان میں ترکش ایئر لائنز، تھائی ایئر ویز اور ایئر فرانس کا ’کے ایل ایم‘ گروپ شامل ہیں۔

کے ایل ایم گروپ کا کہنا ہے کہ ’سکیورٹی معلومات کی بنیاد پر کے ایل ایم اور دیگر ایئر لائنز افغانستان سے صرف مخصوص راستوں اور زیادہ بلندی پر ہی پرواز کر رہی ہیں۔‘

تائیوان کی ایئر ایئر، جس نے تقریباً ایک ماہ قبل ہی افغانستان کی فضائی حدود کا استعمال شروع کیا، نے روئٹرز کو بتایا کہ ’وہ حفاظت، موجودہ بین الاقوامی صورتحال اور فلائٹ ایڈوائزری کی بنیاد پر ہی راستوں کا انتخاب کرتی ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے

’اوور فلائٹ فیس‘ کیا ہے؟

ایئر لائنز کسی بھی ملک کے اوپر سے پرواز کرنے کی ایک فیس ادا کرتی ہیں جسے ’اوور فلائٹ فیس‘ کہا جاتا ہے۔

جیسے کسی بھی ملک کو اپنی زمین کے حقوق حاصل ہوتے ہیں ویسے ہی انھیں اپنی فضائی حدود پر بھی حقوق حاصل ہوتے ہیں۔

زیادہ تر ممالک اس فضائی حدود کو غیر ملکی ایئر لائنز کو ’کرائے پر‘ دیتے ہیں اور وہ ایئر لائنز اس کے ذریعے پرواز کر سکتی ہیں۔

کچھ ممالک ہوائی ٹریفک کنٹرول کی سروسز بھی فراہم کرتے ہیں۔ فیس کا کچھ حصہ ان سروسز کے لیے ہوتا ہے لیکن یہ فیس کتنی ہوتی ہے؟

مختلف ممالک فیس کا تعین مختلف معیارات کے مطابق کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر کینیڈا کی فیس جہاز کے وزن اور فاصلے کو مدنظر رکھ کر طے کی جاتی ہے۔ امریکہ صرف جہاز کی جانب سے طے کیے جانے والے فاصلے کو دیکھ کر یہ فیس طے کرتا ہے۔

بعض اوقات ایئر لائنز بھاری فیس سے بچنے کے لیے لمبے روٹ بھی لیتی ہیں لیکن کسی فضائی حدود سے بچنا اتنا آسان بھی نہیں کیونکہ یہ کسی ملک سے بھی زیادہ بڑی ہو سکتی ہے۔

مثال کے طور پر امریکہ کی فضائی حدود فلپائن تک پھیلی ہوئی ہے لیکن زمین کے اوپر پرواز کرنے کے مقابلے سمندر پر پرواز کرنے سے کم خرچ آتا ہے۔

اگرچہ پانی کے اوپر سے پرواز کرنے میں کم لاگت آتی ہے لیکن اس کے باوجود کچھ ایئر لائنز کو اب بھی امریکہ کو ادائیگی کرنی پڑتی ہے، چاہے وہ صرف آسٹریلیا سے جاپان ہی جا رہی ہوں۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.