کملا ہیرس بمقابلہ ڈونلڈ ٹرمپ، صدارتی انتخابات میں پاکستانی کمیونٹی کا جھکاؤ کس طرف ہے؟

image
سنہ 2021 کی امریکی مردم شماری میں چھ لاکھ 30 ہزار افراد کی شناخت بطور پاکستانی ہوئی تھی۔ ان میں سے اکثریت ووٹ ڈالنے کا حق رکھتی ہے۔ پاکستانی امریکہ میں ساتویں بڑی، دوسری بڑی جنوبی ایشیائی اور ملک کے سب سے بڑی مسلم امریکی آبادی ہیں۔

سنہ 2024 کے امریکی صدارتی انتخابات قریب آ رہے ہیں اور اس وجہ سے پاکستانی نژاد امریکی شہری بھی ایک فیصلہ کن موڑ پر کھڑے ہیں جو کئی اہم ریاستوں میں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ نیویارک، نیو جرسی، کیلیفورنیا، ٹیکساس اور الینوائے میں یہ کمیونٹی بڑی تعداد میں موجود ہے اور ان کی سیاسی شمولیت میں تیزی آئی ہے، جس سے ان کے ووٹوں کی اہمیت پہلے سے زیادہ ہو گئی ہے۔

مقامی افراد کے مطابق اگرچہ ان کی تعداد دیگر نسلی گروہوں کے مقابلے میں معمولی نظر آتی ہے، لیکن پاکستانی نژاد امریکیوں کی ان اہم ریاستوں میں سٹریٹجک تقسیم ان کے انتخابی اثر و رسوخ کو خاص بناتی ہے۔

پاکستانی نژاد امریکی خاص طور پر نیویارک اور نیو جرسی میں زیادہ تعداد میں موجود ہیں اور سیاسی طور پر کافی فعال ہیں۔ اس کے علاوہ کیلیفورنیا، ٹیکساس، الینوائے اور ورجینیا میں بھی ان کی کافی تعداد موجود ہے۔ ان کی اہمیت ان ریاستوں جہاں انتخابات چھوٹے مارجن سے جیتے جا سکتے ہیں جیسے مشی گن، پنسلوانیا اور وسکونسن میں نمایاں ہے۔ ان فیصلہ کن ریاستوں میں پاکستانی امریکن کمیونٹی کی اجتماعی آواز فیصلہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔

پاکستانی امریکن کسے ووٹ دیں گے؟تاریخی طور پر زیادہ تر پاکستانی امریکی ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف مائل رہے ہیں، اور 2024 میں بھی یہ رجحان برقرار رہنے کا امکان ہے۔ کمیونٹی کے بہت سے لوگ ڈیموکریٹک پلیٹ فارم کی طرف اس کی امیگریشن اصلاحات، شہری حقوق، اور صحت کی دیکھ بھال پر زور دینے کی وجہ سے متوجہ ہیں۔ یہ وہ مسائل ہیں جو تارکین وطن اور اقلیتوں سے جڑے ہوئے ہیں۔

خاص طور پر کملا ہیرس نے پاکستانی امریکیوں کی بڑی حمایت حاصل کی ہے۔ ایک سیاہ فام خاتون کے طور پر ان کا پس منظر اور سماجی انصاف، صحت کی دیکھ بھال، اور امیگریشن پر ان کا ترقی پسند مؤقف ان لوگوں کے لیے پُرکشش ہے جو سیاسی عمل میں اپنی کم نمائندگی محسوس کرتے ہیں۔ بہت سے پاکستانی امریکی کملا ہیرس کو ایک ایسی شخصیت کے طور پر دیکھتے ہیں جو ان کے مسائل کو سمجھتی ہیں اور ان مسائل کے حل کے لیے پرعزم ہیں۔

پاکستانی نژاد امریکی خاص طور پر نیویارک اور نیو جرسی میں زیادہ تعداد میں موجود ہیں اور سیاسی طور پر کافی فعال ہیں۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)تاہم کمیونٹی کا ایک قابل ذکر حصہ ڈونلڈ ٹرمپ کی بھی حمایت کر رہا ہے۔ یہ حمایت ٹرمپ کی اقتصادی پالیسیوں سے جنم لیتی ہے، جنہیں کچھ پاکستانی امریکی کاروباروں کے لیے فائدہ مند سمجھتے ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان کی سیاسی جماعت تحریک انصاف کے زیرحراست سربراہ عمران خان اور ٹرمپ کی ماضی میں قربت بھی کئی پاکستانی امریکیوں کو ٹرمپ کی حمایت پر آمادہ کرتی ہے۔

اس حوالے سے محمد یوسف، جو مشی گن میں ایک کمیونٹی لیڈر ہیں اور کملا ہیرس کی حمایت کر رہے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ ’کمیلا ہیرس تارکین وطن کے تجربے کو سمجھتی ہیں۔ ان کی صحت کی دیکھ بھال اور امیگریشن پر پالیسیاں ہماری کمیونٹی کی ضروریات سے ہم آہنگ ہیں۔ ہمیں ایسے لیڈر کی ضرورت ہے جو ہمارے حقوق کے لیے کھڑے ہوں اور ہماری مشکلات کو سمجھتے ہوں۔‘

کیلیفورنیا میں مقیم سائرہ احمد ایک سکول ٹیچر ہیں اور کملا ہیرس کی حمایت کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ایک سیاہ فام خاتون کے طور پر انہوں نے انصاف اور مساوات کے لیے جنگ میں جو ثابت قدمی دکھائی ہے، ہماری کمیونٹی کے مستقبل کے لیے بہت اہم ہے۔‘

دوسری طرف نیویارک میں اپنا کاروبار کرنے والے مدثر خان نے ٹرمپ کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ٹرمپ کی اقتصادی پالیسیاں میرے کاروبار کے لیے اچھی رہی ہیں۔ کم ٹیکس اور کم ریگولیشنز کا مطلب یہ ہے کہ میں اپنے کاروبار کو بڑھانے پر توجہ مرکوز کر سکتا ہوں۔ سمجھتا ہوں کہ ان کا پاکستان سے متعلق موقف بھی مجھے پسند ہے۔‘

تاریخی طور پر زیادہ تر پاکستانی امریکی ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف مائل رہے ہیں۔ (فوٹو: روئٹرز)امریکی صدارتی انتخابات کے نتائج اور پاک امریکہ تعلقاتسنہ 2024 کے انتخابات کے نتائج پاکستان اور پاکستانی امریکیوں کے لیے اہم ہیں۔ اگر کملا ہیرس جیت جاتی ہیں تو بہت سے لوگوں کو توقع ہے کہ ان کے دور اقتدار میں سفارتی رابطے بڑھیں گے اور جنوبی ایشیا میں انسانی حقوق پر توجہ مرکوز رہے گی۔ پاکستانی امریکی امید کرتے ہیں کہ ان کی انتظامیہ امیگریشن اصلاحات اور صحت کی دیکھ بھال جیسے مسائل کو ترجیح دے گی، جو امریکہ میں ان کی زندگیوں پر براہ راست اثر انداز ہوتے ہیں۔

دوسری طرف ٹرمپ کی فتح ایک زیادہ غیرمتوقع خارجہ پالیسی کا باعث بن سکتی ہے، جس کے امریکہ کے پاکستان کے ساتھ تعلقات پر غیریقینی نتائج ہو سکتے ہیں۔ ان کی انتظامیہ کا پاکستان کے ساتھ رویہ غیرمستقل رہا ہے، جس سے مستقبل میں سفارتی اور اقتصادی تعلقات کے بارے میں خدشات جنم لیتے ہیں۔

امریکہ میں مقیم پاکستانیوں کا خیال ہے کہ امریکی صدارتی انتخابات کے ممکنہ نتائج کے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات پر اثرات گہرے اور دور رس ہو سکتے ہیں۔ پاکستان کے لیے یہ انتخابات اہم ہیں کیونکہ امریکہ دنیا کی ایک بڑی طاقت ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان کا ایک اہم اتحادی بھی ہے۔

اگر ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار کملا ہیرس جیت جاتی ہیں تو امکان ہے کہ امریکہ کی پالیسیز میں انسانی حقوق، امیگریشن اصلاحات اور بین الاقوامی سفارتی تعلقات پر زیادہ زور دیا جائے گا۔ جنوبی ایشیا میں انسانی حقوق کے مسائل پر توجہ دی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ ہیرس کی جیت کے بعد امریکہ اور پاکستان کے درمیان اقتصادی تعاون اور ترقیاتی منصوبوں میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کی فتح ایک زیادہ غیرمتوقع خارجہ پالیسی کا باعث بن سکتی ہے۔ (فوٹو: روئٹرز)دوسری طرف اگر ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ صدر منتخب ہو جاتے ہیں، تو ان کی انتظامیہ کی پالیسیز میں ایک غیرمتوقع اور سخت رویہ دیکھنے کو مل سکتا ہے۔ ٹرمپ کی پالیسیز میں ’پہلے امریکہ‘ کے نعرے کے تحت پاکستان کے ساتھ تجارتی اور اقتصادی تعلقات میں ممکنہ مشکلات سامنے آسکتی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ مجموعی طور پر امریکی صدارتی انتخابات کے نتائج نہ صرف امریکہ کی داخلی پالیسیز بلکہ اس کے خارجہ تعلقات پر بھی گہرا اثر ڈالیں گے، اور پاکستان کے لیے یہ ضروری ہو گا کہ وہ ان تبدیلیوں کے مطابق اپنی سفارتی حکمت عملی کو ترتیب دے۔


News Source   News Source Text

مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.