اقوامِ متحدہ میں شہباز شریف کے کشمیر سے متعلق بیان پر انڈیا برہم: ’دونوں ممالک اپنی پرانی پوزیشن پر کھڑے نظر آئے‘

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں جہاں اور بہت سے موضوعات اور تنازعات پر بات ہوئی وہیں ایک بار پھر جنوبی ایشیائی روایتی حریف پاکستان اور انڈیا آمنے سامنے آئے اور ایک دوسرے پر دہشتگردی، انتخابات میں دھاندلی اور انسانی حقوق کی خلاف وریوں جیسے الزامات عائد کیے۔ کیا دونوں ممالک ان الزامات سے آگے بڑھ سکتے ہیں؟

اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں جہاں اور بہت سے موضوعات اور تنازعات پر بات ہوئی وہیں ایک بار پھر جنوبی ایشیائی روایتی حریف پاکستان اور انڈیا آمنے سامنے آئے اور ایک دوسرے پر دہشتگردی، انتخابات میں دھاندلی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں جیسے الزامات عائد کیے۔

پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے گذشتہ روز اسمبلی سے اپنےخطاب کیا جس میں انھوں نے کہا کہ ’پاکستان انڈیا کی کسی بھی قسم کی جارحیت کا اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ بھرپور اور فیصلہ کن جواب دے گا۔‘

اس کے بعد انڈیا نے بھی جواب دینے کے حق کا استعمال کرتے ہوئے کہا کہ ’ایک ایسا ملک جہاں فوج نظام چلا رہی ہے اور جس کی تاریخ انتخابی دھاندلی سے بھری پڑی ہے وہ اب دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کو سکھائے گی کہ انتخابات میں شفافیت کیا ہوتی ہے۔‘

انڈیا کی طرف سے جواب اقوام متحدہ میں انڈیا کی فرسٹ سیکریٹری بھاویکا منگلانندن نے دیا ہے۔

یہ جاننے سے قبل کہ دونوں ممالک کے ماہرین اس پر کیا کہتے ہیں پہلے مختصر جائزہ لیتے ہیں کہ پاکستان کے وزیراعظم نے اقوام متحدہ میں انڈیا کے بارے میں کیا کہا ہے اور پھر انڈیا نے کیسے اس پر اپنے جواب کا حق استعمال کیا۔

army
Getty Images

پاکستانی وزیراعظم کا اقوام متحدہ میں وہ خطاب جس پر انڈیا برہم ہوا

جمعے کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے سلامتی کونسل کی قراردادوں اور کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حل کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان کسی بھی انڈین جارحیت کا اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ بھرپور اور فیصلہ کن جواب دے گا۔‘

شہباز شریف نے کہا کہ فلسطین کے عوام کی طرح جموں و کشمیر کے لوگ بھی اپنی آزادی اور حقِ خود ارادیت کے حصول کے لیے ایک صدی سے جدوجہد کر رہے ہیں۔

شہباز شریف نے کہا کہ ’امن کی طرف بڑھنے کے بجائے انڈیا جموں و کشمیر پر سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عملدرآمد کے وعدوں سے گریزاں ہے۔ یہ قراردادیں جموں و کشمیر کے عوام کو اپنے بنیادی حقِ خود ارادیت کا استعمال کرنے کے حامل استصواب رائے کا اختیار دیتی ہیں۔‘

شہباز شریف نے کہا کہ ’پانچ اگست 2019 کے بعد سے انڈیا نے جموں و کشمیر کے لیے بدقسمتی سے ان کے رہنماؤں کے بقول ’حتمی حل‘ کو مسلط کرنے کے لیے یکطرفہ غیر قانونی اقدامات شروع کر رکھے ہیں۔

’نو لاکھ انڈین فوجی مقبوضہ جموں و کشمیر کے لوگوں کو طویل کرفیو، ماورائے عدالت قتل اور ہزاروں نوجوان کشمیریوں کے اغوا جیسے خوفناک اقدامات سے خوفزدہ کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک آبادکار نوآبادیاتی منصوبے کے تحت انڈیا کشمیریوں کی زمینوں اور جائیدادوں پر قبضہ کر رہا ہے اور باہر کے لوگوں کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں آباد کر رہا ہے تاکہ مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کیا جا سکے، یہ دقیانوسی حربہ تمام قابض طاقتوں نے استعمال کیا لیکن یہ ہمیشہ ناکام رہا، جموں و کشمیر میں بھی یہ ناکام ہو گا۔‘

وزیراعظم شہباز شریف کا مزید کہنا تھا کہ ’اس سے بھی زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ انڈیا اپنی عسکری صلاحیتوں میں بڑے پیمانے پر توسیع میں مصروف عمل ہے جو درحقیقت پاکستان کے خلاف صف آرائی ہے۔

’اس کے جنگی نظریے، ایک اچانک حملے اور ’جوہری پھیلاؤ کے تحت محدود جنگ‘ کے تصور کے حامل ہیں۔ انڈیا نے بغیر سوچے سمجھے پاکستان کی ایک باہمی ’سٹریٹجک ریسٹرینٹ رجیم‘ کی تجاویز کو ٹھکرا دیا ہے، اس کی قیادت نے اکثر لائن آف کنٹرول کو عبور کرنے اور آزاد کشمیر پر ’قبضہ‘ کرنے کی دھمکی دی ہے۔‘

Modi
Getty Images

انڈیا کے جوابی الزامات

وزیراعظم شہباز شریف کی تقریر کے جواب میں اقوام متحدہ میں انڈین سفارتکار بھاویکا منگلانندن نے کہا کہ ’دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت پر بزدلانہ حملہ کیا گیا ہے۔‘

بھاویکا نے شہباز شریف کی تقریر کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’فوج کی نگرانی میں چلنے والے ملک جو دہشت گردی، منشیات کی تجارت اور بین الاقوامی جرائم کے لیے عالمی سطح پر بدنام ہے نے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت پر حملہ کرنے کی جرات کی ہے۔‘

انڈین سفارتکار نے کہا کہ ’جیسا کہ دنیا جانتی ہے کہ پاکستان طویل عرصے سے سرحد پار دہشت گردی کو اپنے پڑوسیوں کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔‘

انڈیا کی سفارتکار نے کہ ’اس نے ہماری پارلیمنٹ، ہمارے مالیاتی دارالحکومت ممبئی، بازاروں اور مقدس مقامات پر حملہ کیا ہے۔ یہ ایک لمبی فہرست ہے اور اس طرح کے ملک کے لیے کہیں بھی تشدد کے خلاف بات کرنا سب سے بڑی منافقت ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’یہ ایک ایسے ملک کے لیے اور بھی عجیب ہے جس کے انتخابات میں دھاندلی کی تاریخ ہے اور وہ سیاسی آپشنز کی بات کر رہے ہیں۔‘

بھاویکا نے پاکستان میں اسامہ بن لادن کی موجودگی کا بھی حوالہ دیا اور کہا کہ ’اب یہ ملک دہشتگردی کے خلاف بات کر رہا ہے۔‘

’دونوں ممالک کے درمیان محض مذاکرات ہی مسئلے کا حل نہیں‘

جنوبی ایشیا کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے ڈاکٹر رشید احمد خان نے بی بی سی کو بتایا کہ ’پاکستان اور انڈیا کا یہ جارحانہ انداز سمجھ میں آتا ہے اور دونوں ہی حالیہ عام انتخابات سے اپنے عوام کی توجہ ہٹانا چاہتے ہیں۔‘

ان کے مطابق ’اس وقت دونوں ہی ممالک کے رہنماؤں کو غیرمعمولی صورتحال کا سامنا ہے۔‘

ڈاکٹر رشید کا کہنا ہے کہ ’شہباز شریف پر الزام ہے کہ ان کا مینڈیٹ جعلی ہے اور کافی لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ وہ جائز طور پر منتخب نہیں ہوئے ہیں تو پھر ایسے میں حکومت کو ’لیجٹیمسی کرائسز‘ کا سامنا ہے۔ دوسری طرف انڈیا میں بھی عام انتخابات میں حکمران جماعت بی جے پی کو کافی ’سیٹ بیک‘ ہوا ہے۔‘

ان کے مطابق رام مندر کی تعمیر کے باوجود ایودھیا میں بھی شکست انڈین حکومت کے لیے کافی ہزیمت کا باعث بنی۔

ڈاکٹر رشید کا کہنا ہے کہ ’76 برس میں پہلی بار انڈیا اور پاکستان میں مذاکرات میں طویل تعطل اور تناؤ کی یہ سطح دیکھی ہے۔‘

تاہم ان کے مطابق دونوں ممالک یہ زیادہ عرصہ برداشت نہیں کر سکتے اور انھیں ایک دوسرے سے بات چیت کرنا ہی ہو گی اور اس سے ہی کوئی راستہ نکل سکے گا۔

ان کے مطابق پاکستان اور انڈیا میں ایسی رائے والے لوگ موجود ہیں کہ جو کسی صورت بات چیت کے قائل نہیں ہیں مگر اس کے باوجود دونوں ممالک کو ایک دوسرے کے قریب آنا ہو گا اور مذاکرات کی میز بچھانی ہو گی۔

Pakistan
Getty Images

انڈیا کے پاکستان میں فوج کی حکمرانی سے متعلق پوچھے گئے سوال پر انھوں نے کہا کہ یہ بات غلط تو نہیں ہے۔

ڈاکٹر رشید نے کہا کہ جب تک سول حکمران پالیسی پر کنٹرول نہیں حاصل کر سکیں گے تو پھر امن کا خواب بھی ادھورا ہی رہے گا۔

نئی دہلی میں انسٹیٹیوٹ آف کانفلیکٹ مینجمنٹ اینڈ ساؤتھ ایشیا پورٹل کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اجے ساہنی نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ’اقوام متحدہ میں پاکستان اور انڈیا نے جو بھی کیا یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ان کے مطابق دونوں ممالک اپنی پرانی پوزیشن پر کھڑے نظر آئے۔

اجے ساہنی کے مطابق انڈیا اور پاکستان کو مذاکرات سے پہلے کچھ شرائط پر متفق ہونا ہو گا کیونکہ مذاکرات کسی بھی چیز کا ’آؤٹ کم‘ ہو سکتے ہیں مگر حل نہیں۔

ان کی رائے میں ماضی میں کچھ شرائط پر راضی ہوئے بغیر جب دونوں ممالک نے مذاکرات کیے تو اس کے بعد پرتشدد واقعات دیکھنے میں آئے، جس سے یہ پتا چلتا ہے کہ محض مذاکرات کی رٹ بھی کافی نہیں ہے۔

انھوں نے یہ تجویز دی ہے کہ ’پہلے دونوں ممالک مسئلہ کشمیر سمیت دیگر متنازع امور پر اپنی پوزیشن پر پیچھے ہٹیں اور پھر مذاکرات کا راستہ اختیار کریں تو ہی آگے بڑھ سکتے ہیں۔

’ان کی رائے میں جہاں تک بات چیت اور انگیجیمنٹ کی بات ہے تو وہ دونوں ممالک مختلف سطحوں پر ایک دوسرے سے ’انگیج‘ تو ہیں مگر اصل انگیجمنٹ سیاسی سطح کی ہو گی اور اس کے لیے دونوں ممالک کو سمجھوتہ کرنا ہو گا۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.