ارب پتی تاجر محمد الفائد کا خواتین ملازمین کا مبینہ جنسی استحصال کرنے کا نظام کیسے کام کرتا تھا؟

بی بی سی کی جانب سے کی جانے والی تحقیق میں یہ بات بار بار سامنے آئی کہ الفائد یہ جاننے کے جنون میں مبتلا تھے کہ جن خواتین کا وہ جنسی استحصال کرنے کا ارادہ رکھتے تھے کہیں اُن میں جنسی طور پر منتقل ہونے والی کوئی بیماری تو نہیں۔
الفائد
BBC

کیٹ (فرضی نام) کی عمر اُس وقت محض 16 برس تھی جب انھوں نے لگژری سٹور ’ہیرڈز‘ میں کام کرنا شروع کیا۔ نوکری کے ابتدائی ایام میں ہی سٹور کے ارب پتی مالک محمد الفائد نے انھیں اپنے اپارٹمنٹ میں بُلایا۔

کیٹ کا کہنا ہے کہ پارک لین میں واقع اُن کی رہائشگاہ میں ’انھوں (الفائد) نے مجھ پر سیکس کرنے کے لیے دباؤڈالا۔‘

وہ بتاتی ہیں کہ ’وہ مسلسل مجھے لُبھانے کی کوشش کرتے رہے۔۔۔ لیکن میں انکار کرتی رہی۔‘

کیٹ بتاتی ہیں کہ پھر اچانک محمد الفائد کا موڈ بدل گیا اور انھوں نے مجھے دھمکیاں دینی شروع کر دیں۔

’وہ ناراض ہو گئے۔ چونکہ دروازے مقفل تھے اور میں باہر نہیں جا سکتی تھی۔ چنانچہ انھوں نے میرا ریپ کر دیا۔‘

بی بی سی کی دستاویزی فلم ’الفائد: پریڈیٹر ایٹ ہیرڈز‘ کے نشر ہونے سے پہلے کیٹ اپنی کہانی بتانے پر رضامند نہیں تھیں۔ تاہم یہ دستاویزی فلم نشر ہونے کے بعد اب اُن کا کہنا ہے کہ وہ چاہتی ہیں کہ لوگوں کو معلوم ہو کہ الفائد کتنے بڑے مونسٹر (درندہ) تھے۔ اور اُن کا بیان اس کرپٹ نظام کو مزید بے نقاب کرتا ہے جو اس کمپنی میں موجود تھا۔ اب یہ کمپنی نئے مالکان کو فروخت کی جا چکی ہے۔

اس لگژری سٹور میں کام کرنے والی بہت سے دیگر خواتین کی طرح، جنھیں یہاں ملازمت کے دوران جنسی استحصال کا نشانہ بنایا گیا، کیٹ نے بھی ان ڈاکٹروں کے متعلق بتایا جو اس مقصد کے لیے سٹاف کی خواتین ارکان کے طبی معائنے کیا کرتے تھے۔

سامنے آنے والے چند خواتین نے بتایا کہ کیسے محمد الفائد کے ذاتی معاونین نے انھیں اُن (الفائد) کے پاس بھیجا اور ان سکیورٹی گارڈز کے متعلق بھی آگاہی ملی جو اس اپارٹمنٹ کی حفاظت پر معمور ہوتے تھے جہاں الفائد خواتین کو مبینہ طور پر اپنا نشانہ بناتے تھے۔

یاد رہے کہ مصری نژاد ارب پتی تاجر اوربرطانیہ کے لگژری سٹور ’ہیرڈز‘ کے سابق مالک محمد الفائد پر متعدد خواتین ملازمین نے ریپ اور جنسی استحصال کرنے کے الزامات عائد کیے ہیں اور بہت سی متاثرہ خواتین کا کہنا ہے کہ اس کام میں الفائد کے مبینہ سہولت کاروں میں ڈاکٹرز، کمپنی سے منسلک سینیئر ذاتی معاونین اور سکیورٹی عملے کے افراد شامل ہیں۔

کچھ مبینہ متاثرین کی نمائندگی کرنے والے ایک وکیل ڈین آرمسٹرانگ کے سی کا کہنا ہے کہ اس کام میں ’الفائد کی سہولتکاری کے لیے ایک پورا نظام موجود تھا۔ ‘

مگر سہولت کاری کا یہ نظام کام کیسے کرتا تھا؟

ڈاکٹرز

کیٹ کا کہنا ہے کہ جیسے ہی انھوں نے لگژری سٹور ’ہیرڈز‘ میں ملازمت کا آغاز کیا تو فوراً بعد ہی الفائد نے اُن سے نامناسب سوالات پوچھنے کا سلسلہ شروع کر دیا جیسا کہ آیا اُن کا کوئی بوائے فرینڈ ہے یا یہ کہ وہ جنسی طور پر فعال ہیں۔

کیٹ کو یہ یاد نہیں کہ وہ ان سوالات کے جواب میں کیا بتاتی تھیں تاہم اُن کا کہنا ہے کہ محمد الفائد دوسرے بہت سے ایسے طریقے تھے جن کے ذریعے وہ ان سوالوں کا جواب جان لیتے تھے جو وہ جاننا چاہتے تھے۔ کیٹ بتاتی ہیں کہ’انھوں نے کمپنی کی جانب سے میرے میڈیکل چیک اپ کے لیے مجھے ہارلے سٹریٹ کی ایک ڈاکٹر این کوکسن کے پاس بھیجا۔ مجھے بتایا گیا تھا کہ یہ (میڈیکل چیک اپ) چیئرمین کے دفتر میں کام کرنے والوں کی دی گئی خصوصی سہولت ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ڈاکٹر کوکسن نے اُن کا اندرونی معائنہ کرنے اور جنسی طور پر منتقل ہونے والے انفیکشنز بشمول ایچ آئی وی کی جانچ کرنے کے لیے کہا تھا۔ کیٹ کہتی ہیں اس ضمن میں ان کی جانب سے ظاہر کیے گئے خدشات پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔

دفتر واپسی پر الفائد نے کیٹ کو اپنے آفس بُلایا۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ اُن سے طبی معائنے کی تفصیلات پوچھنے لگے اور اُن کے کنوارے ہونے کے بارے میں سوالات پوچھنے لگے۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ بہت جلد شرمندہ محسوس کرنے لگیں اور انھیں یہ گفتگو پریشان کُن اور ذلت آمیز لگی۔

کیٹ سمجھتی ہیں کہ الفائد کو فراہم کی جانے والی اس نوعیت کی نجی معلومات اُس بدسلوکی کو ممکن بنانے میں اہم کردار ادا کرتی تھیں جس کا انھیں بعدازاں سامنا کرنا پڑا تھا۔

الفائد
BBC

کیٹ کے میڈیکل چیک اپ کے بعد ڈاکٹر کوکسن نے انھیں کلیئر قرار دیا۔

بی بی سی کی جانب سے کی جانے والی تحقیق میں یہ بات بار بار سامنے آئی کہ الفائد یہ جاننے کے جنون میں مبتلا تھے کہ جن خواتین کا وہ جنسی استحصال کرنے کا ارادہ رکھتے تھے کہیں اُن میں جنسی طور پر منتقل ہونے والی کوئی بیماری تو نہیں۔

کیٹ کہتی ہیں کہ اس کے بعد الفائد نے انھیں ریپ کیا۔

کئی دیگر خواتین جن کا الزام ہے کہ الفائد نے اُن کا ریپ کیا تھا انھوں نے ہیرڈز کمپنی کی اُس وقت کی ڈاکٹر وینڈی سنیل کا نام بھی لیا کہ جو متاثرہ خواتین کے اِسی طرح کے معائنے کرتی تھیں۔

ان میں سے کچھ کا کہنا ہے کہ اُن کو آگاہ کرنے سے قبل ہی الفائد کو اُن کے جنسی صحت کے ٹیسٹ کے نتائج بتا دیےجاتے تھے۔

ڈاکٹر وینڈی سنیل اب فوت ہو چکی ہیں لیکن ڈاکٹر کوکسن جنرل میڈیکل کونسل میں رجسٹرڈ ہیں اور کئی خواتین کا کہنا ہے کہ وہ ان کے بارے میں ریگولیٹر سے باضابطہ شکایت کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔

ڈاکٹر کوکسن نے اس الزامات پر تبصرہ کرنے کی درخواست پر کوئی جواب نہیں دیا۔

جی ایم سی نے کہا کہ یہ الزامات’انتہائی تشویشناک‘ ہیں اور اگر کسی ڈاکٹر کی پیشہ وارانہ خدمات کے بارے میں تشویش پائی گئی تو وہ اس پر مناسب کارروائی کرے گی۔

ہائیڈ پارک
BBC

سینیئر ذاتی معاونین

سنہ 1990 کی دہائی میں ’ہیرڈز‘ میں کام کرنے والی ایک اور خاتون لنڈسے کا کہنا ہے کہ الفائد نے انھیں ریپ کرنے کی کوشش کی تھی۔ لنڈسے کا کہنا ہے کہ محمد الفائد کی ایک سینیئر ذاتی معاون نے اُن کے میڈیکل چیک اپ کا انتظام کیا تھا۔

لنڈسے کہتی ہیں کہ ’وہ (ذاتی معاون) الفائد کی ہدایات پر عمل کر رہی تھیں۔ مجھے لگتا ہے کہ انھوں نے ہمیں اسی مقصد کے لیے بھرتی کیا تھا اور صرف یہی ان کا مقصد تھا۔‘

لنڈسے نے ’ہیرڈز‘ پر بطور کمپنی اِس جنسی استحصال کو ممکن بنانے کا الزام لگایا۔ وہ سوال پوچھتی ہیں کہ ’ایسا کون شخص ہوتا ہے جسے 25 پرسنل اسسٹنٹس (ذاتی معاونین) کی ضرورت ہو۔‘

ہم نے جن خواتین سے بات کی اُن میں سے بیشتر نے بتایا کہ الفائد کے کچھ سینیئر ذاتی معاونین استحصال کے اس پورے نظام میں کلیدی کردار ادا کرتے تھے۔

ان خواتین کا کہنا ہے کہ طبی معائنے سے واپسی پر الفائد کے ذاتی معاونین انھیں الفائدکے دفتر یا اپارٹمنٹ میں بھیج دیتے جہاں ان کے ساتھ بدسلوکی کی جاتی۔

سنہ 1990 کی دہائی میں محمد الفائد کے دفتر میں کام کرنے والی تمارا نامی خاتون نے بی بی سی کو بتایا کہ ’الفائد کا یہ روزانہ کا طریقہِ کار تھا۔ وہ اپنے ایک سینیئر اسسٹنٹ کو فون کرتے اور پوچھتے کہ اُس دن کون سی لڑکیاں کام کر رہی تھیں اور پھر ہم میں سے کسی ایک کو اُن کے دفتر میں بلایا جاتا تھا۔‘

ایک اور متاثرہ خاتون نتاشا کہتی ہیں کہ ’مجھے یاد ہے کہ اسسٹنٹ کے فون کی گھنٹی بجتی تھی۔ پھر وہ ہم میں سے کسی ایک کی طرف مڑ کر اشارہ کرتی اور ہم میں سے کسی ایک کو اپارٹمنٹ میں بھیج دیا جاتا۔‘

خواتین کا کہنا ہے کہ یہ حکم کوڈ ورڈز یعنی الفائد کا بریف کیس پہچانے کی صورت میں دیا جاتا، تاہم تماراکا کہنا ہے کہ حقیقت میں اس کا مطلب تھا کہ ’آپ اُس کے دفتر میں اکیلی ہوں گے اور اُسے یہ موقعملے گا وہ آپ کوجکڑ لے اور آپ کے ساتھ جنسی بدسلوکی کرے۔‘

الفائد
BBC

متاثرہ خواتین کے وکیل آرمسٹرانگ نے اسے ’خریداری کا نظام‘ قرار دییتے ہوئے کہا کہ کچھ سینیئر ذاتی معاونین اور ڈاکٹروں نے اس میں اہم کردار ادا کیا۔

تاہم ہماری تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ ان جنسی حملوں کے بارے میں خاموشی قائم کیے رکھنے میں دوسرے لوگ بھی ملوث تھے۔

سکیورٹی سٹاف

محد الفائد کی حفاظت اُن کے ذاتی محافظ یعنی سکیورٹی گارڈز کرتے تھے، جن کا کام اُن کے قریب رہنا ہوتا تھا۔ ہماری تحقیقات سے پتا چلتا ہے کہ اس سکیورٹی عملے کے چند اراکین جنسی حملوں کے فوراً پہلے اور بعدکے شاہد ہیں۔

نوے کی دہائی کے وسط میں اُن کے ذاتی محافظ کے طور پر کام کرنے والے سٹیو کا کہنا ہے کہ رہائش گاہ کے تہہ خانے میں موجود ایک کنٹرول روم سے وہ صرف پارک لین اپارٹمنٹ کی طرف جانے والی راہداریوں کو دیکھ سکتے تھے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’ہم صرف لڑکیوں کو دروازے کے اندر جاتے اور دروازہ بند ہوتے ہوئے دیکھتے تھے۔ اور صبح کے وقت یا ایک گھنٹے کے بعد بھی ہم انھیں وہاں سے جاتے ہوتے ہوئے دیکھتے۔ کچھ خواتین اُس وقت بھی ہیرڈز کی وردی میں ملبوس ہوتی تھیں۔‘

کچھ خواتین بتاتی ہیں کہ کس طرح سکیورٹی گارڈز انھیں الفائد کے اپارٹمنٹ تک لے گئے۔

ان میں سے ایک سکیورٹی گارڈ ایلن (فرضی نام) نے بتایا کہ انھیں دو لڑکیوں کو اُوپر کی منزل تک لے جانے کے لیے کہا گیا تھا۔ بعد میں انھوں نے ان میں سے ایک لڑکی کو لفٹ میں روتے ہوئے دیکھا۔

جان میکنامارا
PA Media
جان میکنامارا

ان کا کہنا تھا کہ ’اس روتی ہوئی لڑکی نے انھیں بتایا کے الفائد اپنے ڈریسنگ گاؤن میں باہر آئے اور چاہتے تھے کہ وہ اُن کی گود میں بیٹھ جائے‘ اور ’باقی سب کچھ کرے‘۔

ایلن کہتے ہیں کہ ’وہ بیچاری بہت زیادہ صدمے میں تھی۔‘

ایلن کہتے ہیں کہ وہ بے بس تھے کہ کس سے شکات کریں۔ جبکہ ہمارے شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ دیگر سکیورٹی عملہ خواتین کو خاموش رکھنے کی کوشش کرتا تھا۔

کئی خواتین کا کہنا ہے کہ انھیں بتایا گیا کہ ہیرڈز کے ارد گرد کیمرے لگائے گئے تھے اور فون کی جاسوسی کی جا رہی تھی۔

صوفیہ کہتی ہیں کہ ’یہی وجہ ہے کہ لڑکیاں ایک دوسرے سے ٹھیک سے بات نہیں کر سکتی تھیں کیوں کہ ہم سب کو لگتا تھا کہ ہماری جاسوسی کی جا رہی ہے۔‘

سارہ کا کہنا ہے کہ جب انھوں نے الفائد کی جانب سے جنسی حملے کی کوشش پر مزاحمت کی تو ایک دن جب وہ اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ رات کے کھانے سے گھر لوٹ رہی تھیں تو اُن کا (محمد الفائد) ایک قریبی سکیورٹی گارڈ ایک دم سے اُن کے سامنے آ گیا۔

ہیرڈز
Getty Images
ہیرڈز نے تسلیم کیا ہے کہ اس نے ’اپنے ملازمین کو مایوس کیا‘ لیکن کہا کہ اب یہ ایک ’بہت مختلف تنظیم‘ ہے

وہ کہتی ہیں کہ ’میرا خیال ہے کہ چونکہ میں نے الفائد کو انکار کیا تھا اس لیے وہ مجھ پر نظر رکھے ہوئے تھے کہ میں کسی کو بتاؤں نہیں۔ اس بات نے مجھے اور بھی خوفزدہ کر دیا۔‘

ایلنبتاتے ہیں کہ ایک مرتبہ میٹروپولیٹن پولیس کے ایک سابق سینیئر افسر جان میکنامارا، جو اُس وقت ہیرڈز میں سکیورٹی کے سربراہ تھے، نے ایک خاتون کے گھر جا کر اسے دھمکایا۔

ایلس (فرضی نام) کا کہنا ہے کہ سنہ 1995 میں ہیرڈز میں ذاتی معاون کی حیثیت سے اُن کے تجربات کےحوالے سے وینیٹی فیئر کی صحافی مورین اورتھ کے ساتھمتعدد بار بات چیت کے بعد انھیں میکنامارا کا فون آیا۔

ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے انھیں متنبہ کیا کہ وہ اس آرٹیکل کا حصہ نہ بنیں اور کہا کہ اگر وہ ان کی ہدایات کے خلاف گئیں تو انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ وہ جانتے ہیں کہ ان کے والدین کہاں رہتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میں اُن کی بات سُن کی سکتے میں آ گئی۔‘

ایچ آر اور پبلک افئیرز سٹاف

وینیٹی فیئر میگزین میں سنہ 1995 میں شائع ہونے والے اس مضمون میں جنسی بدسلوکی، نسل پرستی اور عملے کی نگرانی کے الزامات لگائے گئے تھے لیکن جنسی حملے کے الزامات عائد نہیں کیے گئے تھے۔

اس مضمون کی اشاعت کے بعد محمد الفائد کی جانب سے ہرجانے کا کیس دائر کیا گیا۔ تاہم سنہ 1997 میں وہ ہیرڈز کے پبلک افیئرز کے ڈائریکٹر مائیکل کول کے ذریعہ طے پانے والے تصفیے کے نتیجے میں یہ کیس واپس لینے کے لیے تیار ہو گئے۔

میگزین کے اُس وقت کے ایڈیٹر ہنری پورٹر کے مطابق اس تصفیے کے نتیجے میں میگزین کو دستیاب اپنے تمام ثبوتوں، حلف ناموں اور خط و کتابت کو تلف کرنا تھا، جن میں سے کچھ میں ’سلسلہ وار جرائم‘ کے الزامات تھے۔

مائیکل کول اس وقت بھی ان کی کمپنی میں موجود تھے جب آئی ٹی وی نے الفائد کے جنسی ہراسانی کے الزامات کے بارے میں ایک فلم نشر کی تھی، جس کی الفائد نے تردید کی تھی۔

بی بی سی کی جانب سے بار بار کوششوں کے باوجود کول نے کوئی بیان جاری نہیں کیا۔

Michael Cole,
PA Media
مائیکل کول

یہ واحد قانونی کیس نہیں تھا جو ہیرڈز کی انتظامیہ کے علم میں تھا جس میں الفائد کے خلاف بدسلوکی کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔

سنہ 2007 میں الفائد کی ذاتی معاون بننے والی جیما نے الفائد کی ریکارڈنگ کی جو جنسی ہراسانی کے دعوے کا حصہ بن گئی۔

وہ کہتی ہیں کہ تصفیے کے ایک حصے کے طور پر، تمام ثبوت، بشمول ٹیپس اور ان کا فون جس میں ’گندے صوتی پیغامات‘ شامل تھے، انھیں ضائع کر دیا گیا۔‘

وہ کہتی ہیں کہ الفائد کی کمپنی کے ایچ آر کا ایک نمائندہ اس موقع پر موجود تھا جب ان ثبوتوں کو تلف کیا گیا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’ہیرڈز، مجھے لگتا ہے کہ وہ اُن معلومات کو دستیاب رکھنے کی اہمیت کو جانتے تھے۔ مجھے لگتا ہے کہ وہ جتنی جلدی ممکن ہو اس سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے تھے اور جتنی جلدی ممکن ہو مجھ سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے تھے۔‘

ڈائریکٹرز کیا کہتے ہیں؟

بہت سے سوالات اب بھی جواب طلب ہیں کہ ہیرڈز میں ذمہ دار عہدوں پر فائز افراد میں سے کون الفائد کے خلاف الزامات کے بارے میں جانتا تھا۔

مائیکل کول 1990 کی دہائی کے دوران ہیرڈز کے ڈائریکٹروں میں سے ایک تھے۔ انھوں نے الفائد کے خلاف جنسی شکاری ہونے کے الزامات کا دفاع کیا۔ دوسروں کو کیا معلوم تھا؟

ہمیں اس بات کا ثبوت نہیں ملے کہ ہیرڈز نے الفائد کے چیئرمین رہنے کے عرصے کے دوران اُن کے خلاف کسی بھی الزام کی تحقیقات کی ہوں۔ ایسا کیوں نہیں ہوا؟

جیمز میک آرتھر، جو 2008 میں سی ای او تھے، نے حال ہی میں بی بی سی کو بتایا تھا کہ انھیں اس بات کا علم نہیں ہے کہ اس سال پولیس نے 15 سالہ لڑکی پر جنسی حملے کے الزامات پر الفائد سے پوچھ گچھ کی۔

انھیں یاد نہیں آیا کہ ٹی وی نیوز کا عملہ ہیرڈز کے باہر ان الزامات کی رپورٹنگ کر رہا تھا کہ کمپنی کے چیئرمین نے ایک بچی کے ساتھ بدسلوکی کی تھی۔

یہ حیرت انگیز لگتا ہے۔ یہ یقیناً دفتر میں گزارا ایک معمول کا دن نہیں تھا۔

ہیرڈز کے لیے سوالات بڑھ رہے ہیں۔

ہیرڈز نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ کمپنی نے ’اپنے اُن ملازمین کو مایوس کیا جو ان (الفائد) کا شکار بنے تھے اور اس کے لیے ہم خلوص دل سے معافی مانگتے ہیں۔‘

لیکن بیان میں کہا گیا ہے کہ ’آج کی ہیرڈز ایک بہت مختلف تنظیم ہے‘ اس سے جو الفائد کی ملکیت میں تھی۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.