IC-423 ہائی جیکنگ: پاکستانی کمانڈوز کا وہ آپریشن جس پر انڈیا نے جنرل ضیا کا شکریہ ادا کیا

29 ستمبر 1981 کو پانچ ہائی جیکرز ایئر انڈیا کی پرواز 423 میں سوار ہوئے تو اُن کے پاس کوئی آتشیں اسلحہ نہیں تھا۔ ہائی جیک ہونے والا طیارہ لاہور میں لینڈ کیا گیا تھا۔
انڈین ایئر لائنز، 1981، ہائی جیک
Getty Images
علامتی تصویر

29 ستمبر 1981 کو تیجندر پال سنگھ، ستنام سنگھ، گجندر سنگھ، کَرن سنگھ اور جسبیر سنگھ چیمہ انڈیا ایئر کی پرواز آئی سی 423 میں سوار ہوئے تو اُن کے پاس اسلحہ نہیں تھا۔

دلی سے پرواز بھرنے والے اِس طیارے کی منزل سری نگر تھی۔ مسافر طیارے کے پرواز بھرنے کے کچھ ہی دیر بعد گجندر اور جسبیر کاک پٹ کے قریب موجود بیت الخلا کے پاس کھڑے ہو گئے اور جُوں ہی ایئر ہوسٹس پائلٹوں کے لیے کاک پٹ میں چائے لے کر جانے لگیں تو وہ بھی تیزی سے اندر داخل ہو گئے۔

یہ دیکھ کر باقی تین افراد یعنی تیجندر، ستنام، اور کَرن طیارے کی راہداری میں کھڑے ہو کر ’خالصتان زندہ باد‘ کے نعرے لگانے لگے۔

اس طیارے پر موجود ایک مسافر ولیم سیکو نے بعد میں خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘کو بتایا کہ جہاز میں انھوں نے ایک شخص کو چار دیگر افراد کے پیچھے بھاگتے ہوئے دیکھا۔

’میں نے سوچا کہ وہ اسے پکڑنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن وہ پانچوں ہائی جیکرز تھے جو دراصل عملے کی جانب لپک رہے تھے۔ اُن کے پاس چاقو تھے۔ انھوں نے بیگلٹکا رکھے تھے اور ان کے ہاتھ اس طرح ان کے اندر تھے جیسے اُن میں بم ہوں۔‘

سیکو کا کہنا تھاکہ 15 منٹ کے اندر ہائی جیکر طیارے کا کنٹرول سنبھال چکے تھے۔

انڈیا میں کشیدگی پچھلے نو، دس دن سے چل رہی تھی۔ انڈین پنجاب کی پولیس سکھ رہنما جرنیل سنگھ بھنڈراں والا کو لالا جگت نارائن نامی شخص کے قتل کیس میں گرفتارکرنا چاہتی تھی۔

20 ستمبر 1981 کو جب سکھ رہنما بھنڈراں والا نے گرفتاری دینے کا فیصلہ کیا تو اِس موقع پر پولیس تشدد کے نتیجے میں احتجاجی مقام پر 20 سے زیادہ سکھوں کی ہلاکت ہوئی تھی۔

بعدازاں ہائی جیکرز میں ایک یعنی تیجندر سنگھ نے ’ہفنگٹن پوسٹ‘ کی نمائندہ رچنا کھَیرا کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ ’میں نے مہتا چوک میں بہت خون ریزی دیکھی۔ سکھوں کو گھسیٹ کر قریبی کھیتوں میں لے جایا گیا اور گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔‘

’پولیس نے اُن کی لاشیں بھی اٹھا لیں اور نامعلوم افراد کے طور پر ان کی آخری رسومات ادا کی گئیں۔ اس پر میں بہت مشتعل ہوا اور اسی لیے جب میرے رہنماؤںنے جہاز کو ہائی جیک کرنے کا کہا تو میں نے آسانی سے ’پنتھ سیوا‘ (مذہبی فرض) ادا کرنے پر رضامندی ظاہر کر دی۔‘

تیجندر نے مزید بتایا کہ کہ انھوں نے طیارہ ہائی جیک کرنے کا انتخاب اس لیے کیا کیونکہ انھیں خدشہ تھا کہ پولیس بھنڈراں والا کو حراست میں ہلاک کر سکتی ہے۔

انڈین ایئر لائنز کی پرواز 423 پر سوار پانچوں ہائی جیکروں نے پہلے بھی دو بار اسی فضائی راستے پر سفر کیا تھا۔ جوں ہی جہاز نے ٹیک آف کیا تو وہ سب اپنی اپنی طے شدہ ڈیوٹی پر چلے گئے۔

ایک اور ہائی جیکر ستنام سنگھ نے ’ہفنگٹن پوسٹ‘ کی نمائندہ رچنا کَھیرا کو بتایا کہ ’دو ساتھیوں نے کاک پٹ کا چارج سنبھال لیا اور میں نے دو دیگر ساتھیوں کے ساتھ مسافروں کے کیبن کا کنٹرول سنبھال لیا۔‘

طیارے کا رُخ لاہور کی طرف موڑ دیا گیا

وہاں سے لاہور دور ہی کتنا تھا۔ ٹیک آف کے کچھ ہی دیر بعد یعنی پاکستانی وقت کے مطابق دوپہر ڈیڑھ بجے ہائی جیک ہونے والا طیارہ لاہور میں لینڈ کر گیا۔

’دی ہندو‘ اخبار سے منسلک صحافی سہاسنی حیدر کے مطابق یہ خبر سامنے آتے ہی دلی میں کیبنٹ سیکریٹری نے کرائسس مینجمنٹ کمیٹیکا اجلاس طلب کر لیا۔

اپنے ایک مضمون میں وہ لکھتی ہیں کہ ’اس کے فوراً بعد پاکستان میں انڈیاکے ہائی کمشنر کنور نٹور سنگھ [جو بعد میں انڈیا کے وزیر خارجہ بنے] نے لاہور ایئر ٹریفک کنٹرول سے تصدیق کی کہ آیا ہائی جیک ہونے والا انڈیا مسافر طیارہ وہاں اُتر گیا ہے یا نہیں۔‘

’اس کے بعد انڈین اور پاکستانی حکام تبادلہ خیال کرنے لگے کہ انھیں آگے کیا کرنا ہے۔‘

انڈین ایئر لائنز، لاہور
Getty Images
علامتی تصویر

وہ لکھتی ہیں کہ ’ایک موقع پر انڈیا کے ڈپٹی ہائی کمشنر سیتندر کمار لامبا نے خود بھی طیارے میں داخل ہونے کی کوشش کی لیکن انھیں سکیورٹی فورسز نے واپس کھینچ لیا۔ اگر ہائی جیکرز سینیئر سفارتکار کو بھی یرغمال بنانے کا فیصلہ کر لیتے تو یہ بہت غلط ہو سکتا تھا۔‘

لامبا بعد میں انڈیا کے وزیراعظم من موہن سنگھ کے دور حکومت میں پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے لیے خصوصی نمائندے بنے۔

لامبا اپنی کتاب ’ان پَرسُوٹ آف پیس‘ میں لکھتے ہیں کہ ’نٹور سنگھ اور میں فوراً خارجہ سیکریٹری ریاض پیرزادہ سے ملے اور اگلی فلائٹ سے ساڑھے چار بجے لاہور پہنچ گئے۔ فرسٹ سیکریٹری اجیت ڈوول (جو بعد میں انڈیا کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر بنے) اور وجے کمار کار سے پہنچے۔‘

’میں پہنچتے ہی انڈین ایئرلائنز کے لاہور میں مینجر ایس آر دَتا (جنھوں نے لامبا کے بقول لنچ کے وقت انڈین ایمبیسی کو طیارے کے اغوا اور لاہور لائے جانے کی خبر دی تھی) کے ہمراہ سیدھا اغوا شدہ طیارےکی جانبچلا گیا۔‘

لامبا لکھتے ہیں کہ ’میں نے دیکھا مسافر آرام سے آ جا رہے تھے۔ ایک سینیئر پاکستانی اہلکار نے مجھے روکا کہ طیارے میں جانا محفوظ نہیں اور واپس جانے کو کہا۔ لیکن اس دوران ہمیں یہ علم ہو گیا کہ ماحول میں تناؤ نہیں ہے اور ہائی جیکرز مسلح بھی نہیں ہیں۔‘

’یرغمالیوں نے بعد میں تصدیق کی کہ اُن کے پاس صرف کرپانیں تھیں لیکن وہ ایسا ظاہر کر رہے تھے کہ اُن کے پاس دستی بم ہیں۔‘

’نٹور سنگھ اور میں لاہور کے کور کمانڈر سے ملے۔ انھیں پاکستانی حکومت نے ہائی جیکنگ سے نمٹنے کا کام سونپا تھا۔ بعد میں پتا چلا کہ ہائی جیکر پانچ ہیں اور اُن کی قیادت گجندر سنگھ کر رہے ہیں۔‘

’اس شام ساڑھے آٹھ بجے، ہائی جیکرز کے رہنما کو وی آئی پی روم میں لایا گیا۔ نٹور سنگھ نے مجھے اُن سے بات کرنے کو کہا۔ گجندر سنگھ نے پنجابی میں کہا: ہم نے طیارہ اپنے لیڈر، سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالا کی گرفتاری اور اپنی تنظیم کے بہت سے ارکان کی خالصتان تحریک کو کچلنے کے لیے کی گئی حراستوں پر احتجاجکے لیے اغوا کیا ہے۔‘

گجندر سنگھ نے لامبا سے کہا کہ ’پہلے ہم نے عورتوں اور بچوں کو چھوڑ دیا تھا۔ اب ہم نے تمام غیر ملکیوں اور کچھ سکھوں کو چھوڑ دیا ہے۔ ہمارے انڈین حکومت سے مطالبات ہیں کہ سنت جرنیل سنگھ بھنڈراں والا کو غیر مشروط رہا کیا جائے، ہماری تنظیم دَل خالصہ کے بغاوت کے الزام میں قید ارکانکو رہا کیا جائے اور ہمیں پانچ لاکھ امریکی ڈالر دیے جائیں۔‘

امرتسر میں عجلت میں بلائی گئی پریس کانفرنس میں انتہا پسند سکھ گروپ دَل خالصہ نے ہائی جیکنگ کی ذمہ داری قبول کی اور انپانچ افراد کا نام لیا جنھوں نے یہ کارروائی کی تھی۔

اس پریس کانفرنس میں کیے گئے تین بڑے مطالبات یہ تھے: ’بھنڈراں والا اور سکھ عسکریت پسندوں کی رہائی اور بیرون ملک سیاسی پناہ حاصل کرنے کی اجازت اور بدھ کی صبح تک 15 لاکھ ڈالرز تاوان کی ادائیگی۔‘

دل خالصہ کی گورننگ کونسل کے رکن ہرسمرن سنگھ نے کہا کہ ’ہائی جیکنگ کا مقصد دنیا کی توجہ سکھوں کے مطالبات پر مرکوز کرنا تھا۔‘

’پاکستانی کمانڈوز نے پانچ ہائی جیکروں پر قابو پا لیا‘

یہ واقعہ پیش آنے سے قبل انڈیا میں کم از کم تین وارداتیں ہو چکی تھیں جن میں مسافر ٹرینوں کو پٹری سے اتارنے کی دو کوششیں بھی شامل ہیں۔

لامبا لکھتے ہیں کہ ’دلی میں اعلیٰ سطحی بحث و تمحیص چل رہی تھی۔ خارجہ سیکریٹری نے نٹورسنگھ سے کہا کہ پاکستان کو طاقت کا استعمال کرتے ہوئے اغوا کو ختم کروانا چاہیے۔‘

’آدھی رات کو نٹور سنگھ کی لیفٹیننٹ جنرل لودھی سے بات ہوئی تو جنرل لودھی نے انھیں بتایا کہ کمانڈوز پہلے ہی طیارے کے ذریعے ایئرپورٹ پر لائے جا چکے ہیں۔‘

سہاسنی حیدر کے مطابق اگلی صبح جہاز پر سوار مسافروں کو ناشتہ دیا جا رہا تھا جب پاکستانی کمانڈوز حرکت میں آئے۔

’ایلیٹ سپیشل سروسز گروپ (ایس ایس جی) سے تعلق رکھنے والے کمانڈوز نے اس قسم کے آپریشن کے لیے چند ماہ قبل اُس وقت کے مغربی جرمنی میں تربیت حاصل کی تھی۔‘

’انھوں نے جہاز کی ریکی مکمل کر رکھی تھی، جس میں پانچوں ہائی جیکروں کی نقل و حرکت کی تفصیل بھی تھی۔ پچھلی رات کھانا دیتے ہوئے ایک کمانڈو کو سرور کے طور طیارے میں بھیجا گیا تھا۔ وہ کمانڈو ہتھیاروں کی جانچ کرنے کے لیے ہر ہائی جیکر کے پاس سے گزرے تھے۔‘

ستنام سنگھ نے ’ہفنگٹن پوسٹ‘ کی نمائندہ رچنا کھَیرا کو انٹرویو میں بتایا کہ پاکستانی کمانڈوز صفائیکے عملے کے بھیس میں جہاز میں داخل ہوئے اور ہم پر قابو پا لیا۔

ستنام سنگھکو پیچھے سے ایک کمانڈو نے ٹکر ماری اور وہ طیارے کے دروازے سے نیچے گر گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’چونکہ ہم میں سے کسی کے پاس کوئی ہتھیار نہیں تھا، اس لیے ہم زیادہ دیر تک لڑ نہیں سکے اور جلد ہی حراست میں لے لیے گئے۔‘

ہائی جیکرز کی مطالبات پورا کرنے کی دس بجے کی ڈیڈ لائن ختم ہونے سے بہت پہلے ہی جہاز میں سوار 45 یرغمالیوں کو بغیر کسی نقصان کے رہا کروا لیا گیا۔

اس کامیاب کارروائی کے بعد پاکستان کے ایک سرکاری اعلامیے میں کہا گیا کہ ’پاکستانی کمانڈوز نے آج صبح 7:45 پر ایک جرأت مندانہ کوشش میں انڈین ایئرلائنز کے بوئنگ 737 میں موجود پانچ ہائی جیکروں پر قابو پا لیا اور تمام مسافروں اور عملے کو رہا کروا لیا۔ کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔‘

نیو یارک ٹائمز کے خصوصی نمائندے مائیکل ٹی کافمین نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ ’طیارے کی بازیابی کے بعد صدر ضیا نے حکم دیا کہ رہا ہونے والے مسافروں کو لاہور کا دورہ کروایا جائے اور ہلٹن ہوٹل میں ان کے لنچ کا بندوبست کروایا جائے۔‘ ظہرانے کے بعد یرغمالیوں کو ہائی جیک کیے گئے طیارے میں سوار کر کے واپسدلیروانہ کر دیا گیا، جہاں وہ اپنے 32 گھنٹے کے چکر کے بعد پُرسکون نظر آئے۔

پاکستان کے صدر ضیا الحق نے اپنے انڈین ہم منصب سنجیوا ریڈی سے اس تمام واقعے کے دوران دو بار بات کی تھی اور انھیں پاکستان کے ’مکمل تعاون‘ کی یقین دہانی کرائی تھی۔

انڈین حکام نے حکومت پاکستان کا شکریہ ادا کیا

ریڈی نے ضیا سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے ’مضبوط اور مؤثر طریقے سے‘ صورتحال سے نمٹنے کے لیے پاکستان کی تعریف کی۔

انڈین وزارت خارجہ کے ایکترجمان نے اپنے بیان میں کہا کہ ’حکومت پاکستان کا تعاون مثبت اور موثر ہے۔‘ نٹور سنگھ نے لیفٹیننٹ جنرل ایس کے لودھی کو مبارکباد دی جنھوں نے کمانڈو آپریشن کی ہدایات دی تھیں۔

اگلی صبح دلی میں، کابینہ نے ایک قرارداد میں پاکستان اور اس کے صدر کی مدد پر شکریہ ادا کیا گیا، اور پانچ ہائی جیکروں کی حوالگی کی باضابطہ درخواست کی۔

ٹی سی اے راگھون اپنی کتاب ’دی پیپل نیکسٹ ڈور‘ میں لکھا کہ ’ہائی جیکرز کو انڈیا کے حوالے نہیں کیا گیا بلکہ اُن پر پاکستان ہی میں مقدمہ چلایا گیا۔‘

پاکستان کے سابق معروف وکیل ایس ایم ظفر ہائی جیکرز کے وکیل صفائی تھے۔ اپنی کتاب ’میرے مشہور مقدمے‘ میں لکھتے ہیں کہ ’ایف آئی آر کے مطابق طیارے نے پالم ایئرپورٹ سے انڈیا کے معیاری وقت کے مطابق 12 بج کر 45 منٹ پر پرواز کی، اس جہاز کو نئی دلی سے براستہ امرتسر اپنی منزل سری نگر پہنچنا تھا۔‘

’ابھی اس طیارے کو پرواز کیے بمشکل تمام بیس لمحے (منٹ) گزرے ہوں گے کہ جہاز کے کپتان ٹی پی سنگھ نے ایک خاتون (ایئرہوسٹس) کی چیخ و پکار سُنی۔ اس کے ساتھ ہی گجندر سنگھ اور جسبیر سنگھ کرپانیں لیے کاک پٹ میں داخل ہوگئے اور انھوں نے جہاز کے کپتان اور پائلٹ کی گردنوں پر کرپانیں رکھ کر انھیں حکم دیا کہ وہ جہاز کو امرتسر کی بجائے لاہور لے چلیں۔‘

’جہاز کے کپتان نے ملزموں کے کہنے کے مطابق لاہورکے کنٹرول ٹاورسے کہاکہ جہاز لاہور صرف اس لیے اُتارا جا رہا ہے کہ امرتسر کا ہوائی اڈہ بند ہے اور لاہور کنٹرول اتھارٹی کی اجازت کا انتظار کیے بغیر جہاز لاہور ایئرپورٹ پر اُتار دیا۔‘

وہ لکھتے ہیں کہ ’جہاز جیسے ہی اُترا گجندر سنگھ نے مائیکرو فون لے کر خود کو دل خالصہ پنچائیت کے ایک رکن کے طور پر متعارف کروایا اور یہ کہ طیارہ بھنڈراں والا اور دیگر قیدیوں کو رہا کرنے کے لیے اغوا کیا گیا ہے۔‘

’30 ستمبر یعنی اگلے ہی دن طیارے کے دو ملزم طیارے سے اتر کر ایئر پورٹ بلڈنگ میں اشنان (غسل) کے لیے گئے ہوئے تھے جب کہ باقی تین ملزم جہاز کے تمام عملے اور مسافروں کو یرغمال کیے ہوئے تھے۔ پاکستانی کمانڈوز عملہ صفائی اور مکینک حضرات کا لبادہ اوڑھ کر طیارے میں داخل ہوگئے اور انھوں نے بڑی چابک دستی سے کسی خاص مزاحمت کے بغیر تینوں ملزموں پر قابو پا لیا اور ان کی کرپانیں چھین کر اپنے قبضے میںکر لیں۔‘

ایس ایم ظفر کے مطابق عدالت میں گواہوں کے بیانات قریب قریب اسی خاکے کے اردگرد تھے۔ ان میں اضافہ یہ تھا کہ ’تین ملزم جہاز میں خالصتان کے نعرے لگاتے اور کرپانیں لہراتے رہے اور اپنے ہاتھوں میں لیے تھیلوں کی طرف بار بار اشارہ کر کے کہتے رہے کہ تم میں سے اگر کسی نے کوئی حرکت کی تو سن لو کہ ان تھیلوں میں بم ہے جس سے وہ طیارے کو اڑا دیں گے۔‘

دو کرپانیں اور اخبار میں لپٹے امرود

سنہ 1986 میں ہائی جیکرز کو عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ جب بے نظیر بھٹو پاکستان کی وزیر اعظم بنیں تو اُن کی سزا میں کمی کی گئی اور آخر کار ستنام اور تیجندر کو 2000 میں انڈیا واپس بھیج دیا گیا۔

انڈیا واپسی پر ستنام اور تیجندر کو پھر سے عدالت کا سامنا تھا۔ پنجاب پولیس نے 2011 میں ان کے خلاف اضافی الزامات عائد کیے لیکن عدالت نے انھیں بری کر دیا۔

جہاں تک بات سکھوں کی عسکری تنظیم دل خالصہ کے رہنما اور ہائی جیکر گجندر سنگھ کی ہے تو انڈین حکام کے مطابق وہ جیل سے رہائی کے بعد پاکستان میں ہی موجود رہے۔ انڈیا نے 2002 اور 2008 میں جن مطلوب افراد کی فہرست پاکستان کے حوالے کی تھی اس میں ان کا نام بھی شامل تھا۔

انڈیا کا کہنا تھا کہ جیل سے رہائی کے بعد وہ لاہور میں ہی رہائش پزیر تھے تاہم پاکستان کی طرف سے اس کی تردید کی گئی تھی۔ جولائی 2024 کے دوران انڈین ذرائع ابلاغ کی خبروں میں دعویٰ کیا گیا کہ گجندر سنگھ کی پاکستان میں دل کا دورہ پڑنے سے وفات ہوئی ہے۔

جبکہ سنہ 1973میں انڈین فوج سے ریٹائر ہونے والے کیپٹن جسبیر سنگھ چیمہ اور ساتھی ہائی جیکر کرن سنگھنے سوئٹزرلینڈ میں سیاسی پناہ لے لی اور وہ خالصتان کے نظریات سے کبھی دستبردار نہیں ہوئے۔

اگست 1982 میں طیارے اغوا کرنے کی دو اور کوششیں ہوئیں لیکن دونوں مواقع پر پاکستانی حکام نے طیاروں کو لاہور اُترنے کی اجازت نہیں دی جس پر انڈین حکومت نے پاکستان کا شکریہ ادا کیا۔

ایس ایم ظفر لکھتے ہیں کہ ’بعد ازاں تفتیش کرنے پر معلوم ہوا کہ پانچوں ملزموں کے پاس صرف دو کرپانیں تھیں۔‘

تب تک طیارے میں لباس کے ایک حصے کے طور پر کرپانلے جانے کی اجازت تھی۔ سنہ 1981 میں ہائی جیکنگ کی اس واردات کے بعد جہاز پر کرپان لے جانے پر پابندی لگا دی گئی۔

ظفر کے مطابق تفتیش سے علم ہوا کہ ان کے تھیلوں میں کوئی بم یا پھٹنے والا مواد نہ تھا۔

سہاسنی حیدر لکھتی ہیں کہ ہائی جیکرز جن ’دستی بموں‘ سے طیارے کو اڑانے کی دھمکی دیتے تھے بعد میں معلوم ہوا کہ وہ اخبار میں لپٹے ہوئے امرود تھے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.