ایک نئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ماؤنٹ ایورسٹ 15 سے 50 میٹر اونچا ہو گيا ہے کیونکہ ایک دریا اسے مزید بلند ہونے میں مدد فراہم کر رہا ہے۔ لیکن یہ کیسے ممکن ہے؟
ایک نئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ماؤنٹ ایورسٹ 15 سے 50 میٹر مزید اونچا ہو گيا ہے جس کی وجہ ایک دریا ہے۔
اس تحقیق کے مطابق یہ دریا دنیا کے سب سے بلند پہاڑ کی بنیاد سے پتھر اور مٹی کو کاٹ کر بہا لے جا رہا ہے اور اسے مزید بلند ہونے میں مدد کر رہا ہے۔
یونیورسٹی کالج لندن (یو سی ایل) کے محققین نے کہا ہے کہ 75 کلومیٹر (47 میل) دور ارون دریا کے بیسن یا طاس میں زمینی سطح پر ہونے والی تبدیلیاں ایورسٹ کی چوٹی میں سالانہ دو ملی میٹر تک اضافہ کر رہا ہے۔
لیکن یہ کیسے ممکن ہے؟
اس تحقیق کے شریک مصنف ایڈم سمتھ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ کچھ ایسا ہی ہے جیسے جہاز سے جب سامان کا بوجھ کم کر دیا جائے تو جہاز ہلکا ہو جاتا ہے اور اس لیے پانی کی سطح پر تھوڑا اونچا تیرتا ہے۔‘
کرۂ ارض پر انڈین اور یوریشین پلیٹوں کے تصادم سے چار پانچ کروڑ سال قبل ہمالیہ کی تشکیل ہوئی تھی اور ٹیکٹونک پلیٹوں کا ٹکرانا ان کے مسلسل عروج کی بڑی وجہ بنی ہوئی ہے۔
لیکن یو سی ایل ٹیم نے کہا کہ دریائے ارون کا نیٹ ورک پہاڑوں میں بلندی کا ایک اہم عنصر ہے۔
جب ارون ہمالیہ سے گزرتا ہے تو یہ زمین کی پرت یعنی دریا کے بیسن یا طاس سے مواد نکالتا ہے۔ یہ مینٹل (زمین کی نیچے والی پرت) پر دباؤ کو کم کرتا ہے، جس کی وجہ سے پتلی پرت جھک جاتی ہے اور اوپر کی طرف اٹھتی ہے۔
اسے ’آئیسوسٹیٹک ری باؤنڈ‘ یعنی ہم توازن ردعمل کہتے ہیں۔ نیچر جیو سائنس نامی رسالے میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں مزید کہا گیا ہے کہ اوپر کی طرف دھکیلنے والی اس قوت سے نہ صرف ایورسٹ اور دیگر پڑوسی چوٹیاں بلند ہو رہی ہیں بلکہ دنیا کی چوتھی اور پانچویں بلند ترین چوٹیوں لوتسے اور ماکالو کے بھی بلند ہونے کا سبب بن رہی ہے۔
تازہ مطالعہ کے ساتھی شریک مصنف ڈاکٹر میتھیو فاکس نے بی بی سی کو بتایا: ’ماؤنٹ ایورسٹ اور اس کی ہمسایہ چوٹیاں بلند ہو رہی ہیں کیونکہ آئسوسٹیٹک ریباؤنڈ انھیں بیسن میں کٹاؤ سے زیادہ تیزی سے اوپر کر رہا ہے۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’ہم جی پی ایس آلات کا استعمال کرتے ہوئے اسے ایک سال میں تقریباً دو ملی میٹر بڑھتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں اور اب ہمیں بہتر طور پر سمجھ آ گئی ہے کہ یہ کیسے ہو رہا ہے۔‘
تحقیق میں شامل کچھ ماہرین ارضیات نے کہا کہ یہ نظریہ قابل فہم ہے لیکن تحقیق میں بہت کچھ ایسا ہے جس پر یقینی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے۔
ایورسٹ چین اور نیپال کی سرحد پر دنیا کی بلند ترین چوٹی ہے اور اس کا شمالی حصہ چین کی طرف ہے۔
دریائے ارون تبت سے نکل کر نیپال میں بہتا ہے اور پھر دو دیگر دریاؤں کے ساتھ مل کر دریا کوسی بن جاتا ہے جو شمالی انڈیا میں داخل ہوتا ہے اور بالآخر دریائے گنگا میں ملنے کے بعد اس کے ساتھ ہی خلیج بنگال میں گر جاتا ہے۔
یہ بہت اونچائی پر بہنے والا دریا ہے جو پہاڑوں کے درمیان سے بہتا ہے اور اپنی روانی کی وجہ سے راستے میں بہت زیادہ چٹانیں، پتھر اور مٹی کو تراشتا ہوا نکلتا ہے۔
لیکن یو سی ایل کے محققین کا کہنا ہے کہ اس دریان نے اپنی اصل طاقت اس وقت حاصل کی جب اس نے 89,000 سال قبل تبت میں کسی اور دریا یا آبی ذخائر پر ’قبضہ‘ کیا تھا، جو کہ ارضیاتی وقت کے اعتبار سے بہت پرانا واقعہ نہیں ہے۔
چائنا یونیورسٹی آف جیو سائنسز کے ایک چینی ماہر تعلیم ڈاکٹر ژو ہان نے یو سی ایل میں سکالرشپ پر اپنے دورے کے دوران یہ تحقیق کی ہے اور وہ اس مطالعے کے سرکردہ مصنف ہیں۔
انھوں نے کہا ہے کہ ’ماؤنٹ ایورسٹ کی بدلتی ہوئی اونچائی واقعی زمین کی سطح کی متحرک نوعیت کو نمایاں کرتی ہے۔‘
’ارون دریا کے کٹاؤ اور زمین کے پردے کے اوپر کی طرف دباؤ کے درمیان تعامل ماؤنٹ ایورسٹ کو بلندی فراہم کرتا ہے، (یہ عمل) اسے اس سے کہیں زیادہ اوپر دھکیلتا ہے جو کہ دوسری صورت میں ہوتا۔‘
یو سی ایل کے مطالعے میں کہا گیا ہے کہ تبت میں کسی اور دریا یا پانی کے نظام پر قبضہ کرنے کے بعد دریائے ارون نے ممکنہ طور پر غیر معمولی مقدار میں چٹانوں اور دیگر مواد کو کاٹنے کی صلاحیت حاصل کرلی۔
یونیورسٹی آف ایڈنبرا کے سکول آف جیو سائنسز کے پروفیسر ہیو سنکلیئر اگرچہ اس مطالعے میں شامل نہیں تھے لیکن انھوں نے کہا ہے کہ یو سی ایل کی ٹیم نے بلندی کے لیے جن عوامل کی شناخت کی ہے وہ بالکل ’معقول‘ لگتے ہیں۔
لیکن انھوں نے مزید کہا کہ دریا کی وجہ سے کٹاؤ کی صحیح مقدار اور اوقات (یا کس طرح دریا اپنے بستر میں نیچے کی طرف کاٹتا ہے اور اپنے چینل کو گہرا کرتا ہے) اور اس کے نتیجے میں آس پاس کی چوٹیوں کی سطح کی بلندی میں بہت حد تک غیر یقینی کی صورتحال ہے۔
انھوں نے کہا: ’پہلی بات تو یہ ہے کہ ڈرینیج کیپچر (ایک دریا دوسرے دریا یا جھیل پر قبضہ کر رہا ہے) کے نتیجے میں اتنے بڑے کیچمنٹ ایریا میں دریا کے کاٹنے کی پیشین گوئی کرنا مشکل ہے۔‘
یہ غیر یقینی صورتحال کچھ ایسی ہے جسے مصنفین نے مطالعہ میں تسلیم کیا ہے۔
پروفیسر سنکلیئر نے کہا کہ دوسری بات یہ ہے کہ شدید مقامی کٹاؤ کے مقام سے کتنے فاصلے پر پہاڑ اوپر اٹھتے ہیں اس کی پیش گوئی کرنا انتہائی مشکل ہے۔
’بہرحال ان تحفظات کے باوجود ایورسٹ کی غیر معمولی بلندی کا دریا سے منسلک ہونا ایک دلچسپ بصیرت کی نمائندگی کرتا ہے۔‘