انڈیا کو ملنے والے میزائل بردار امریکی ’پریڈیٹر ڈرون‘ کی کیا خصوصیات ہیں؟

جنوبی ایشیا میں اس ساخت کے مسلح ڈرون کسی ملک کے پاس نہیں ہیں۔ جدید ساخت کے سکائی گارڈین پریڈیٹر ڈرون فضا میں ہر طرح کے موسم اور دن اور رات میں 40 گھنٹے سےزیادہ دیر تک پرواز کر سکتا ہے۔ یہ زمین ، سمندر اور فضا میں اپنے ہدف کو تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

انڈیا اور امریکہ نے جدید پریڈیٹر ڈرونز کی خریداری کے معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں اور انڈین وزارتِ دفاع کا کہنا ہے کہ اس معاہدے کے تحت اسے 31 ایم کیو نائن بی سکائی گارڈیئن ڈرون فراہم کیے جائیں گے۔

انڈین وزیراعظم نریندر مودی نے جون 2023 میں واشنگٹن کے اپنے دورے میں ان ڈرونز کی خریداری کے بارے میں بات چیت کی تھی اور امریکی محکمۂ دفاع نے رواں برس فروری میں اس سودے کی منظوری دی تھی۔

اس سودے میں سمندر اور زمین کی نگرانی کرنے والے جدید ڈرونز کے علاوہ ان کے محضوص ساخت کے میزائل اور لیزر بموں کی فروخت بھی شامل ہےاور اس کی مالیت تقر یباً چار ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے۔

اس معاہدے کے نتیجے میں انڈیا میزائلوں سے لیس پرڈیٹر ڈرون حاصل کرنے والا پہلا ایسا ملک بن جائے گا جو نیٹو اتحاد کا رکن نہیں۔ ایک دلچسپ پہلو یہ ہے کہ جنوبی ایشیا میں اس ساخت کے مسلح ڈرون کسی ملک کے پاس نہیں ہیں۔

ڈیفنس سکیورٹی کواپریشن ایجنسی کے مطابق تین اعشاریہ 99 ارب ڈالر کے اس معاہدے کے تحت انڈیا نے 31ایم کیو- 9 بی سکائی گارڈین ڈرون ، 161 ایمبیڈیڈ گلوبل پوزیشننگ اور انرشیل نیوی گیشن سسٹم، 170 اے جی ایم -114 آر ہیل فائر مزائل ، 16 ایر ٹریننگ مزائل 310 چھوٹی ساخت کے لیزر بم اور گراؤنڈ کنٹرول سٹیشن ، میزائل لانچر اور دیگر ساز و سامان خریدنے کی درخواست کی تھی۔

فروری میں امریکہ محکمۂ دفاع کے بیان میں کہا گیا تھا کہ ’انڈیا بحرِ ہند اور بحرالکاہل کے ساتھ ساتھ جنوبی ایشیا میں سیاسی استحکام، امن اور اقتصادی ترقی کے لیے ایک بڑی طاقت ہے اور مجوزہ فروخت کے ذریعے امریکہ – انڈیا سٹریٹیجک تعلقات کی مضبوطی اور ایک اہم دفاعی پارٹنر کی سلامتی کو بہتر کرنے میں امریکہ کی خارجہ پالیسی اور اس کی قومی سلامتی کے مقاصد کے حصول میں مدد ملے گی۔‘

اس بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ ڈرون اور متعلقہ ہتھیاروں کی مجوزہ فروخت سے خطے کےبنیادی فوجی توازن میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔

ایم کیو نائن بی ڈرون کیا ہیں؟

جدید ساخت کے سکائی اور سی گارڈین پریڈیٹر ڈرون امریکہ کی جنرل ایٹومکس ایروناٹیکل کمپنی بناتی ہے۔

اس کمپنی کی ویب سائٹ کے مطابق ایم کیو – نائن بی سکائی گارڈین جدید ترین ڈرون ہے جس کے ذریعے پوری دنیا میں خفیہ معلومات، جاسوسی اور نگرانی کی جا سکتی ہے۔

یہ مصنوعی سیارے کے توسط سے فضا میں ہر طرح کے موسم اور وقت میں 40 گھنٹے سے زیادہ دیر تک پرواز کر سکتا ہے۔

یہ زمین ، سمندر اور فضا میں اپنے ہدف کو تباہ کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔

کمپنی کے مطابق یہ خصوصیات اسے سمندر یا زمین پر نگرانی، اور سمندر یا زمین پر جنگ کے لیے بہترین مشین بناتی ہیں۔

دفاعی تجزیہ کار راہل بیدی نے بی بی سی کو بتایا کہ سکائی گارڈیئن ڈرون پہلے کے پریڈیٹر سے زیادہ جدید طیارے ہیں جن کا دوہرا کردار ہے اور یہ نہ صرف نگرانی کرتے ہیں بلکہ حملہ بھی کرتے ہیں۔

راہل کے مطابق ’یہ ڈرون جب انڈیا کو ملیں گے تو یہ بیشتر بحریہ کی ضرورت کے لیے ہوں گے اور یہ بحر ہند پر نظر رکھیں گے۔‘ خیال رہے کہ انڈیا کو جو 31 ڈرون ملیں گے ان میں سے 15 ’سی گارڈیئن‘ ڈرون بحریہ کو ملیں گے جبکہ آٹھ آٹھ ڈرونز انڈین فضائیہ اور بری فوج کے حصے میں آئیں گے۔

’ دی لاسٹ وار‘ کے مصنف اور دفاعی تجزیہ کار پروین ساہنی کا کہنا ہے کہ انڈیا امریکہ کی انڈو پیسیفک سٹریٹیجی کا حصہ ہے۔ انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان ڈرونز کو انڈیا کے ہاتھوں فروخت کرنے کے پیچھے امریکہ کا مقصد یہ ہے کہ انڈیا بحر ہند میں اس تجارتی راستے پر نظر رکھے جہاں سے چین کی ساری تجارت چلتی ہے۔ تاکہ کسی خطرے کی صورت میں اس راستے کو بلاکیڈ کیا جا سکے۔

وہ کہتے ہیں ’انڈیا کو بحر ہند میں ایک بڑا خطہ نگرانی کے لیے دے دیا گیا ہے۔ اس نگرانی کی جو تفصیلات آئیں گی اس کا زیادہ فائدہ امریکہ اور نیٹو ملکوں کو ہوگا۔ امریکہ اور اس کی سٹریٹیجی کو ہو گا۔‘

ساہنی کہتے ہیں کہ یہ ’ڈرون بہت مہنگے ہیں، سلو ہیں، ریڈار سے بچ نکلنے کی صلاحیت کم ہے اور اسے ایر ڈیفنس سسٹم سے گرایا جا سکتا ہے۔ چین اور پاکستان کے نقطہء نظر سے انڈیا کی جو ضرورت ہے وہ اس سے مختلف ہے۔ یہ ڈرون انتہائی مہنگے ہیں، پیسے انڈیا دے گا اور فائدہ امریکہ اٹھائے گا۔‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ اسی لیے پاکستان نے اتنے مہنگے ڈرون نہیں لیے ۔ اس نے ترکی اور چین سے ڈرون حاصل کیے ہیں اس کی ضرورت کے مطابق بہت اچھے ہیں۔

اس طرح کے ڈرون کا استعمال امریکہ نے افغانستان، سیریا ، اور عراق وغیرہ میں ٹارگٹڈ کلنگ اور مخصوص اہداف کو تباہ کرنے کے لیے کیا تھا۔ حال ہی میں اسرائیل نے بھی ان کا استعمال ٹارگٹڈ ہدف کو تباہ کرنے کے لیے کیا تھا۔ تو کیا انڈیا انھیں پاکستان میں مخصوص اشخاص اور اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے کر سکتا ہے؟

اس کے جواب میں راہل بیدی کا کہنا ہے کہ ان ڈرون میں اس طرح کے آپریشن کی بہترین صلاحیت ہے ’لیکن پاکستان کے خلاف اسے استعمال کرنا ذرا مشکل ہو گا‘ جس طرح کی حالیہ کشیدگی ابھی ایران اور پاکستان کے درمیان ہوئی ہے اگر اس طرح کی صورتحال انڈیا اور پاکستان کے درمیان ہوتی ہے تو یہ بہت سیریس بات ہوگی۔‘

راہل بیدی کا کہنا ہے کہ کہ امریکی پرڈیٹر ڈرون بہت زیدہ ’لیبر انٹینسیو‘ ہے۔ اسے چلانے، فیڈ حاصل کرنے، اسے سمجھنے، چوبیس گھنٹے نظر رکھنے اور دوسرے کاموں کے 200 سے 300 تربیت یافتہ عملے کی ضرورت ہوتی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں ان جدید ڈرون کے ساتھ انڈیا دنیا کے ان سات آٹھ ملکوں میں شامل ہو جائے گا جن کے پاس اس طرح کے ڈرون طیارے ہیں۔ یہ مہنگے ضرور ہیں لیکن مستقبل کی جنگوں کے لیے یہ انتہائی کارآمد ثابت ہوں گے۔

راہل بیدی نے بتایا کہ انڈیا نے امریکہ سے دو سکائی گارڈین ڈرون 2021 میں کرائے پر حاصل کیے تھے۔ لیکن یہ اس ساخت کے ڈرون نہیں ہیں جن سے میزائل اور بم گرائے جا سکیں۔ یہ صرف نگرانی اور جاسوسی کے ڈرون طیارے ہیں اور انڈیا کے استعمال میں ہیں۔

حال ہی میں بحیرہِ احمر میں حوثی باغیوں کے حملوں کے بعد انڈین بحریہ نے ان کا استعمال نگرانی کے لیے کیا تھا۔ ان نگراں ڈرون کا استعمال لداخ میں انڈیا چین سرحدی نائن پر چینی فوجیوں کی نقل و حرکت پر رکھنے کے لیے بھی کیا تھا۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.