سمندر کی تہہ میں بچھی انٹرنیٹ کی قیمیتی تاروں کی مرمت کرنے والی ’آرمی‘ جس پر پوری دنیا کا انحصار ہے

دنیا کی 99 فیصد ڈیجیٹل مواصلات کا نظام سمندر کی تہہ میں بچھی تاروں پر منحصر ہے۔ اگر یہ تاریں ٹوٹ جائیں تو پورے ملک کا نظام درہم برہم ہو سکتا ہے۔ لیکن سمندر یا کسی بحر کی تہہ میں جا کر اسے کیسے ٹھیک کیا جا سکتا ہے؟
internet, deep sea
Getty Images

پاکستان میں آئے دن یہ سننے کو ملتا ہے کہ ملک میں انٹرنیٹ سست روی کا شکار ہے اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن کی جانب سے اکثر اس کی ایک وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ سمندر کی تہہ میں بچھی انٹرنیٹ کی تاروں میں کوئی خرابی آئی ہے جس کے باعث انٹرنیٹ سروس متاثر ہوئی ہے۔

سمندر کی تہہ میں بچھی انٹرنیٹ کی تاریں کیسے خراب ہو جاتی ہیں اس بارے میں قیاس آرائیاں کی جاتی ہیں۔ تاہم سب سے دلچسپ خیال یہ کیا جاتا ہے کہ ان تاروں کو شارک مچھلی اپنے دانتوں سے کاٹ دیتی ہے اور ان کی وجہ سے ہم انٹرنیٹ سے محروم ہو جاتے ہیں۔

دنیا کی 99 فیصد ڈیجیٹل مواصلات کا نظام سمندر کی تہہ میں بچھی تاروں پر منحصر ہے۔ اگر یہ تاریں ٹوٹ جائیں تو پورے ملک کا نظام درہم برہم ہو سکتا ہے۔

بی بی سی کی اس رپورٹ میں ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ انٹرنیٹ سمندر کے رویے پر کیسے منحصر ہے اور کیا واقعی اس میں شارک کا کوئی کردار ہے؟ اور جب ایک بار یہ تاریں خراب ہو جائیں تو سمندر کی تہہ میں جا کر انھیں کیسے ٹھیک کیا جاتا ہے؟ اور یہ کیسے معلوم کیا جاتا ہے کہ کس جگہ پر کون سی تار میں مسئلہ آیا ہے؟

internet
Getty Images
سمندر کی تہہ میں تاریں ایک عالمی جال بناتی ہیں جو ہم سب کو مربوط رکھتا ہے

یہ بات ہے 1929 کی جب کینیڈا کے جزیرہ نما بیورن کے جنوب میں 18 نومبر کو 7.2 شدت کا زلزلہ محسوس کیا گیا۔ اس وقت شام کے پانچ بجے تھے۔ تاہم زلزلے کے مرکز سے دور جزیرہ نما بیورن کے ساحل پر مقیم شہریوں کو کوئی خاص نقصان نہیں ہوا ما سوائے کچھ برتنوں کے جو زلزلے کے جھٹکوں سے نیچے گر گئے۔

لیکن ساحل سے دور سمندر میں ایک الگ قسم کی طاقت زور پکڑ رہی تھی۔ شام 7:30 کے قریب ایک 43 فٹ اونچا سونامی جزیرہ نما بیورن کے ساحل پر تھا۔ اس تباہ کن لہر کی زد میں آ کر 28 لوگ ہلاک ہوئے۔ ان میں سے کچھ کی موت ڈوبنے کے باعث اور کچھ کی چوٹیں لگنے کے باعث ہوئی۔

زلزلے میں مقامی لوگوں کو کافی نقصان ہوا تاہم سمندر پر بھی اس کا شدید اثر پڑا۔ زلزلے کی وجہ سے سمندر کی تہہ میں لینڈ سلائیڈ ہوئی۔ تاریخ کے مطابق جس وقت زلزلہ آیا اس وقت لوگوں کو سونامی کے بارے میں معلومات نہیں تھیں نہ ہی یہ معلوم تھا کہ سمندر میں بھی لینڈ سلائیڈ ہو سکتی ہے۔

اصل میں جب سمندر میں زلزلہ آتا ہے یا کسی بھی قسم کی ارضیاتی حرکت ہوتی ہے تو اس کی تہہ میں موجود پلیٹس اپنی جگہ سے ہل جاتی ہیں۔ اس وجہ سے یہاں کا پانی گاڑھا ہو جاتا ہے اور سمندر کی تہہ میں پانی کا دباؤ بڑھ جاتا ہے۔ اس وجہ سے لینڈ سلائیڈ ہوتی ہے اور یہ لینڈ سلائید بالکل اسی طرح ہوتی ہے جیسے کسی برفیلے پہاڑ سے برف کے تودے نیچے گرتے ہیں۔

سمندر کی تہہ میں اس لینڈ سلائیڈ کو انگریزی میں ’ٹربڈٹی کرنٹ‘ (turbidity current) کہتے ہیں۔ سنہ 1928 میں زلزلے کے مرکز سے شروع ہونے والی لینڈ سلئیڈ نے کچھ ہزار کلو میٹر کا فاصلہ طے کیا۔ اس لینڈ سلائیڈ کی رفتار 57 سے لے کر 80 میل فی گھنٹہ تھی۔

اگرچہ اس وقت لینڈ سلائیڈ کی طرف توجہ نہیں گئی تھی تاہم اس نے مستقبل کے لیے ایک اہم اشارہ چھوڑ دیا تھا۔

لینڈ سلائیڈ کا راستہ اس وقت کی جدید ترین مواصلاتی ٹیکنالوجی سے لیس تھا جسے 'ٹرانس اٹلانٹک' کی تاریں بھی کہتے ہیں۔ سمندر میں زلزلے کی وجہ سے یہ تاریں ٹوٹ گئیں۔ 28 مقامات میں 12 تاریں ایک ساتھ ایک ہی وقت ٹوٹیں جبکہ باقی 16 تاریں وقفے وقفے سے ٹوٹیں۔

یہ بھی ایک معمہ تھا کیونکہ زلزلے کے 59 منٹ بعد سے لے کر 13 گھنٹے اور 17 منٹ بعد تک یہ تاریں ٹوٹتی رہیں۔ یہ تاریں زلزلے کے مرکز سے تقریباً 500 کلومیٹر دور تھیں۔

سائنسدانوں نے سوال کیا کہ اگر یہ تاریں زلزلے کی وجہ سے ٹوٹی تھیں تو سب تاروں کو بیک وقت ٹوٹنا چاہیے تھا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ یہ تاریں ایک کے بعد ایک کیوں ٹوٹ رہی تھیں؟

fibre optic cable
Getty Images

اس سوال کا جواب 1952 میں وضح ہوا جب محققین کو پتہ چلا کہ اتنے بڑے رقبے پر بچھی یہ تاریں وقفے وقفے سے کیوں ٹوٹ رہی تھیں۔ جو تار زلزلے کے مرکز سے جتنی دور تھی وہ اتنی ہی دیر میں ٹوٹتی۔

محقیقین پر عیاں ہوا کہ لینڈ سلائیڈ کی وجہ سے سمندر کی تہہ میں بچھی تمام تاروں کو ایک زور کا جھٹکا آیا۔ جھٹکا اتنی زور کا تھا کہ تاریں ایک حد تک ہی اس کا دباؤ برداشت کر پاتیں اور پھر ٹوٹ جاتیں۔

اس وقت تک کسی کو ’ٹربڈٹی کنٹس‘ کے بارے میں معلوم نہیں تھا چونکہ یہ تاریں ٹوٹیں اور جس دور میں یہ تاریں ٹوٹیں اس کا ریکارڈ موجود تھا، اس وجہ سے بحر کی سطح اور تہہ میں لہروں کی حرکت کے بارے میں معلومات مل سکیں۔

اس دور میں ان تاروں کی مرمت کرنا بھی ایک پیچیدہ کام تھا تاہم ان کے ٹوٹنے کی وجہ سے انسانوں پر ایک ان دیکھا مظہر قدرت عیاں ہوا۔

آنے والی دہائیوں میں جیسے جیسے سمندر کی تہہ میں تاروں کا جال بڑھتا چلا گیا ویسے ویسے ان کی مرمت اور دیکھ بھال کی وجہ سے نئی سائنسی دریافت منظر عام پر آئیں۔ ساتھ ساتھ ہمیں تیز رفتار انٹرنیٹ بھی میسر ہونے لگا۔

اب انٹرنیٹ کی رفتار اتنی تیز ہو گئی ہے کہ ہماری روزمرّہ کی زندگی، آمدنی، صحت اور حفاظت سب اسی پر منحصر ہیں اور انٹرنیٹ پر انحصار کرنے کی وجہ سے ہماری زندگی ان تاروں کے رحم و کرم پر آ گئی ہے۔

لیکن جب یہ تاریں ٹوٹ جاتی ہیں تو ہمارا نظام درہم برہم کیوں ہو جاتا ہے؟

انٹرنیٹ کی تاروں سے معلومات کا تبادلہ

تاحال سمندر کی سطح پر کل ملا کے 14 لاکھ کلومیٹر کی تاریں بچھی ہوئی ہیں۔ یہ تاریں ہر بحر اور بحیرہ میں موجود ہیں۔

اگر تار کا ایک سرا دوسری تار کے سرے سے جوڑ کر ان کی لمبائی میں پیمائش کی جائے تو یہ سورج کی قطر (diameter) جتنی لمبی ہوں گی۔ ہماری 99 فیصد معلومت کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانا انھی تاروں کا کام ہے۔

شاید کچھ لوگ سوچ رہے ہوں گے کہ بحر اور بحیرہ میں بچھی یہ تاریں چوڑی اور بھاری ہوتی ہوں گی تاہم حیرانی کی بات یہ ہے کہ ان میں سے اکثر تاریں لگ بھگ دو سینٹی میٹر چوڑی ہوتی ہیں۔ کچھ تاریں پودوں کو پانی دینے والے گھریلو پائپس جتنی چوڑی ہوتی ہیں۔

اگر حال ہی میں 1929 کی طرح وسیع سطح پر انٹرنیٹ کی تاریں ٹوٹ جاتی ہیں تو شمالی امریکہ اور یورپ کے درمیان مواصلات پر گہرا اثر پڑے گا۔ تاہم انٹرنیشنل کیبل پروٹیکشن کمیٹی سے منسلک سمندری ماحولیات پر کام کرنے والے محقق مائیک کلیئر کا کہنا ہے کہ ’اب دنیا میں نیٹ ورک کافی مضبوط ہو گیا ہے۔‘

’ہر سال 150 سے 200 ایسے واقعات ہوتے ہیں جن میں تاروں کو نقصان پہنچتا ہے لیکن تاروں کی تعداد کے برعکس ان واقعات کی تعداد کا موازنہ کریں تو یہ شکایات بہت کم ہیں۔ ان تاروں میں پیش آنے والے زیادہ تر مسائل جلد حل کر لیے جاتے ہیں۔‘

اتنی پتلی تار کے ذریعے انٹرنیٹ کیسے چلتا ہے اور یہ تاریں تباہی سے کیسے محفوظ رہتی ہیں؟

چونکہ پہلی مرتبہ سمندر کی تہہ میں تاریں 19ویں صدی میں بچھائی گئی تھیں، اس لیے ہمیں پتہ چل گیا ہے کہ سمندر کی تہہ میں آتش فشاں پھٹنے سے لے کر طوفان اور سیلاب جیسے شدید ماحولیاتی واقعات سے تاروں پر کیا اثر پڑتا ہے۔

تاہم تاروں کو سب سے کم نقصان قدرتی آفات کی وجہ سے پڑتا ہے۔

سمندر کی تہہ میں تاروں کی مرمت اور بحالی پر کام کرنے والے ’گلوبل مرین‘ نامی انجینیئرنگ فرم سے منسلک سٹیون ہولڈن نے بتایا کہ ’تاروں میں 70 سے 80 فیصد خرابیاں سمندروں میں انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے آتی ہیں۔‘

سٹیون ہولڈن یورپ، مشرق وسطیٰ اور افریقہ کو انٹرنیٹ فراہم کرنے والی تاروں کی نگرانی کرتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ’جہاز یا کشتی کے لنگر گرنے سے تاروں کو نقصان پہنچتا ہے خاص طور پر وہ کشتی ٹرالر جن کے وسیع جالوں سے کثیر تعداد میں مچھلیاں پکڑی جاتی ہیں۔ اکثر اوقات تاروں پر لنگر گرنے کی وجہ سے یا تاریں جال میں پھنس جانے کی وجہ سے ٹوٹ جاتی ہیں۔‘

سٹیون ہولڈن نے بتایا کہ ’ایسے واقعات سمندر میں زیادہ تر 200 یا 300 میٹر کی گہرائی پر پیش آتے ہیں جبکہ بڑے تجارتی ماہی گیر مچھلیاں پکڑنے کے لیے تیزی سے گہرے پانیوں میں داخل ہو رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ ماہی گیر مچھلیاں پکڑنے کے لیے شمال مشرقی بحرِاوقیانوس میں 1500 میٹر کی گہرائی تک پہنچ چکے ہیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’سمندری تہہ میں انٹرنیٹ کی تاروں میں 10 سے 20 فیصد مسائل قدرتی آفات کی وجہ سے آتے ہوں گے۔ ان جگہوں پر تاریں کمزور ہو گئی ہیں کیونکہ لہروں کی حرکت کی وجہ سے تاریں چٹانوں سے ٹکراتی رہتی ہیں۔ ایسی تاروں میں ’شنٹ فالٹس‘ نامی مسئلہ آ جاتا ہے۔‘

انٹرنیشنل کیبل پروٹیکشن کمیٹی سے منسلک محقق مائیک کلیئر نے بتایا کہ ’یہ خیال کے شارک مچھلی کے کاٹنے کی وجہ سے تار ٹوٹ گئی ہے، یہ جدید دور کا ایک افسانہ بن گیا ہے۔ ہاں ماضی میں ایسا ہوا تھا کہ شارک مچھلی نے تاروں کو تقصان پہنچایا لیکن اب اس طرح نہیں ہوتا۔ کمپنیاں یہ تار بنانے کے لیے ’کیولر‘ استعمال کرتی ہیں جس سے تار مضبوط ہو جاتی ہیں۔‘

گہرے پانی کے لیے ہلکی اور پتلی تاریں استعمال کی جاتی ہیں تاکہ انھیں با آسانی پانی سے نکال کر ان کی مرمت کی جا سکے۔ سوچیں اگر تار چوڑی اور وزنی ہوتی تو سمندر کی سطح سے ہزاروں میٹر نیچے سے انھیں نکالنے میں کتنی دقّت ہو۔

تاہم جو تاریں ساحل کے نزدیک بچھی ہیں انھیں ذرا زیادہ بھاری بنایا جاتا ہے کیونکہ جہازوں کے لنگر اور کشتیوں کے جال میں پھنس کے ان تاروں کے خراب ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔

جہازوں کی آرمی جو تاروں کی مرمت کے لیے تیار رہتی ہے

اگر کہیں پر تاروں میں کوئی مسئلہ آتا تو وہاں ایک جہاز بھیج دیا جاتا ہے۔

'الکیلٹل سب مرین نیٹ ورکس' کے ڈپٹی نائب صدر مِک مکگورن نے کہا کہ 'ان تمام جہازوں کو دنیا بھر میں سٹریٹجک طریقے سے تعینات کیا جاتا ہے۔ بندرگاہ سے جہاز کو اس جگہ تک جانے کے لیے 10 سے 12 دن لگتے ہیں جہاں بچھی تاروں کی مرمت کرنی ہوتی ہے۔'

'اس دوران آپ کو اتنا وقت مل جاتا ہے کہ معلوم کر سکیں مسئلہ کس جگہ پر آیا ہے۔'

انھوں نے کہا کہ 'اگر آپ دیکھیں کہ یہ نظام کتنا وسیع ہے تو (10 سے 12 دن کی مدت) اتنا طویل عرصہ نہیں۔'

مِک مکگورن نے بتایا کہ جب کینیڈا کے جزیرہ نما بیورن میں زلزلہ آیا تھا تو وہاں سمندری تاروں کی مرمت کرنے میں نو ماہ لگے تھے۔

'تاہم حال میں گہرائی پر ان تاروں کی مرمت کرنے میں عام طور پر ایک سے دو ہفتے لگتے ہیں۔ تاروں کی مرمت میں کتنا وقت درکار ہے یہ طے کرنے کے لیے دیکھنا ہوتا ہے کہ سمندر کی تہہ میں تار کس جگہ پر ہیں اور اس وقت موسم کیسا ہے۔'

'اگر آپ پانی کی گہرائی اور تاروں کی جگہ کے بارے میں سوچیں تو یہ حل اتنا برا نہیں ہے۔'

تاہم اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ پورے ملک میں ایک ہفتے کے لیے انٹرنیٹ نہیں ہو گا۔

ایسے کئی ممالک ہیں جن کے پاس کم از کم ضروری تعداد سے زیادہ تاریں ہیں اور ان تاروں کی انٹرنیٹ کی رفتار بھی تیز ہے۔ کم وقت میں زیادہ سے زیادہ معلومات کی منتقلی ہو جاتی ہے۔

اس لیے اگر ایک تار ٹوٹ جاتی ہے یا اسے کسی قسم کا نقصان پہنچتا ہے تو اضافی تاروں کا سہارا لیا جاتا ہے۔

اس نظام کی وجہ سے اگر سمندر کی تہہ میں ایک تار خراب ہو جاتی ہے تو ہم میں سے زیادہ تر کو کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا۔ یوں سمجھیں کہ عام دنوں کے مقابلے یہ مضمون لوڈ ہونے میں ایک سے دو سیکنڈ زیادہ لگ سکتے ہیں۔

تاہم سنگین مسئلے میں ملک کو آن لائن رکھنے کے لیے ان اضافی تاروں کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔

سنہ 2006 میں تائیوان کے ساحل کے نزدیک زلزلہ آیا تھا جس کی شدت 7 تھی۔ زلزلے کی وجہ سے بحیرۂ جنوبی چین میں درجنوں تاریں ٹوٹ گئی تھیں تاہم ان میں سےکچھ تاریں فعال رہیں۔

تاروں کی مرمت کے لیے جہاز سے ایک قسم کا کنڈا پانی میں ڈالا جاتا ہے جو تاروں کو تہہ سے اٹھا لیتا ہے۔ اس کنڈے کے ساتھ ایک ڈھول جیسی شہہ جڑی ہوتی ہے جو موٹر سے گھومتی ہے۔ اس ڈھول سے تار لپٹنا شروع ہو جاتی ہے۔

ایک کمرے میں اس تار کی مرمت کی جاتی ہے اور اس کو ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔ جہاز سے زمین پر اسی تار کے ذریعے سگنل بھیجا جاتا ہے یہ معلوم کرنے کے لیے کہ تار فعال ہو گئی ہے یا نہیں۔ اگر تار ٹھیک ہو جاتی ہے تو اسے سمندر کی سطح پر تیرنے والے ’بوائے‘ یعنی لنگر نما سے باندھ دیا جاتا ہے۔ پھر زمین سے جہاز تک سگنل بھیجا جاتا ہے یہ چیک کرنے کے لیے کے تار کے دونوں سرے صحیح کام کر رہے ہیں یا نہیں۔

مِک مکگورن نے بتایا کہ جب یہ یقین ہو جاتا ہے کہ تار کے دونوں سرے صحیح طرح کام کر رہے ہیں تو تار کی ہر آپٹیکل فائبر کی جانچ کی جاتی ہے۔ یہ اطمینان کیا جاتا ہے کہ کنکشن ٹھیک ہے اور پھر اس میں ایک ’یونیورسل جوائنٹ‘ لگا کر انھیں سیل کر دیا جاتا ہے۔

اس جوائنٹ کا ’یونیورسل‘ ہونا اس لیے ضروری ہوتا ہے تاکہ مختلف کمپنیوں کی تاریں ایک ساتھ کام کر سکیں۔

’ایسا کرنے سے انٹرنیشنل ریپیئر ٹیمز کی زندگی آسان ہو جاتی ہے۔‘

مرمت ہونے کے بعد تاروں کو واپس پانی کی تہہ میں بچھایا جاتا ہے۔ جہاں پانی کی گہرائی کم ہو اور کشتیوں کی آمد و رفت زیادہ ہو وہاں ان تاروں کو خندقوں میں دبا دیا جاتا ہے۔

ریموٹ کنٹرول سے چلنے والی مشینوں کے ذریعے پانی کی تہہ میں خندقیں کھودی جاتی ہیں جن میں یہ تاریں بچھا دی جاتی ہیں۔

گہرے پانی میں یہ کام ٹریکٹر کے ذریعے کیا جاتا ہے جن میں طاقتور جیٹ لگے ہوئے ہوتے ہیں۔ سمندر کی تہہ میں موجود یہ ٹریکٹر سمندر کی سطح پر جہاز سے بندھے ہوئے ہوتے ہیں۔ پانی کی سطح پر جہاز چلتا ہے جبکہ پانی کی تہہ پر ٹریکٹر خندق کھودتا ہے۔

ان میں سے کچھ ٹریکٹر 50 ٹن کے ہوتے ہیں جبکہ کچھ جگہوں پر اس سے بھی بھاری ساز و سامان کی ضرورت پڑتی ہے۔

مک مکگرورن نے بتایا کہ ’ایک مرتبہ بحرِ قطب شمالی میں ایک جہاز کو 110 ٹن کا ٹریکٹر چلانے پڑا۔ اس ٹریکٹر کے ذریعے تاریں تہہ میں چار میٹرکی گہرائی پر بچھائی گئی تھیں جبکہ اس ٹریکٹر میں اتنی طاقت تھی کہ کم از کم دو سال سے منجمد برف کو بھی کاٹ لے۔‘

سمندر کی تہہ میں تاریں ہماری کیسے مدد کرتی ہیں؟

19ویں صدی میں جب سمندر کی تہہ میں تاریں بچھانے اور ان کی مرمت کا سلسلہ شروع ہوا تو کئی نئی چیزیں سامنے آئیں۔ یہ دیکھتے ہوئے سائنسدانوں نے تحقیق کی نیت سے ان تاروں کا استعمال کرنا شروع کر دیا۔

سمندر کی تہہ میں تاروں نے دیواروں کے کان کی طرح کام کیا۔

جب بحر اوقیانوس میں تاریں بچھائی جا رہی تھیں تو ورکرز نے غور کیا کہ بحر کے بیچ میں پانی کی گہرائی کم ہو رہی ہے۔ اس سے یہ بات سامنے آئی کہ بحر اوقیانوس میں ایک پہاڑ ہے جسے 'مِڈ اٹلانٹک رِج' کا نام دیا گیا۔

آج ٹیلی کمیونیکیشن کے لیے استعمال ہونے والی انھی تاروں کے ذریعے ہمیں پتہ چل جاتا ہے کہ بحر کے کس حصے میں وہیل مچھلی یا جہاز موجود ہے یا کوئی زلزلہ آ رہا ہے یا طوفان پنپ رہا ہے۔

انٹرنیشنل کیبل پروٹیکشن کمیٹی کے مائیک کلیئر کا کہنا ہے کہ جن تاروں کو نقصان پہنچتا ہے ان کی بدولت کمپنی کو ’سمندر کی گہرائی میں خطروں کے بارے میں نئی معلومات ملتی ہیں۔‘

’اگر تاروں کو نقصان نہیں پہنچتا تو ہمیں کبھی اس بات کا اندازہ نہیں ہوتا کہ سمندر کی تہہ میں آتش فشا پھٹا ہے جس کے باعث سمندر میں لینڈ سلائیڈنگ ہوئی ہے۔‘

تاہم کچھ جگہوں پر ماحولیاتی تبدیلی نے مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے۔

مثال کے طور پر مغربی افریقہ میں واقع دریائے کونگو کو دیکھ لیں۔ آئے دن سیلاب کے باعث دریا میں مٹی کا تناسب بڑھ جاتی ہے جو پھر ایک وسیع مقدار میں بحر اوقیانوس میں جا گرتی ہے۔ اس کی وجہ سے تاروں کو کافی نقصان پہنچ رہا ہے۔

مِک مکگورن نے کہا کہ ’ہمیں اب پتہ چل گیا ہے کہ تاریں اس جگہ سے کچھ فاصلے پر بچھانی ہیں جہاں دریا اور بحر کا ملن ہوتا ہے۔‘

تاہم ماہرین کے مطابق مستقبل میں تاروں کو کچھ نقصانات سے بچانا ناممکن ہو جائے گا۔

سنہ 2021 اور 2022 میں بحر الکاہل (Pacific Ocean) کی تہہ میں ہنگا تونگا ہنگا ہاپائی نامی آتش فشاں پھٹا۔ اس کے پھٹنے سے تونگا کو انٹرنیٹ کی رسائی دینے والی تمام تاریں تباہ ہو گئیں۔

ملک میں انٹرنیٹ مکمل طور پر بحال کرنے میں پانچ ہفتے لگے جبکہ کچھ جگہوں پر انٹرنیٹ کی عارضی سہولت ایک ہفتے میں بحال ہو گئی تھی۔

گلوبل مرین انجینیئرنگ فرم کے سٹیون ہولڈن کہتے ہیں کہ ہنگا تونگا آتش فشا کے پھٹنے کی شدت ’غیر معمولی‘ تھی۔ تاہم کسی بھی ایسے جزیرے کے لیے جو آتش فشا کے نزدیک ہو وہاں انٹرنیٹ کی تاریں بھچانا خطرے سے خالی نہیں۔

تاہم کئی ممالک متعددتاروں کا استعمال کرتے ہیں تاکہ اگر ایک تار میں خرابی آئے تو اس کی جگہ دوسری تار استعمال کی جا سکے۔ اگر کبھی کسی بحران کا سامنا ہو تو دیگر تاروں پر انحصار کیا جا سکتا ہے۔

انٹرنیشنل کیبل پروٹیکشن کمیٹی کے محقق مائیک کلیئر کہتے ہیں کہ ’اس سے واضح ہوتا ہے کہ تاروں کے راستوں میں ہمیں کس قدر تنوعکی ضرورت ہے، خاص طور پر جنوبی بحر الکاہل میں واقع ان چھوٹے جزیروں کے لیے جہاں طوفان، زلزلے اور آتش فشا کا پھٹنا عام ہے۔ یہ جگہیں ماحولیاتی تبدیلی کے باعث مختلف طریقوں سے متاثر ہو رہی ہیں۔‘

گلوبل مرین انجینیئرنگ فرم کے سٹیون ہولڈن کہتے ہیں کہ ’شپنگ اور ماہی گیری میں جیسے جیسے ترقی ہوتی جا رہی ہے تو ہو سکتا ہے ان کی وجہ سے تاروں کو نقصان پہنچنا کم ہو جائے۔‘

جہازوں پر نصب ’آٹومیٹک آئیڈینٹیفکیشن سسٹم‘ کے ذریعے آپ کو پتہ چل جاتا ہے کہ کہاں لنگر ڈالنے سے تاروں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ کچھ فرمز اب یہ خدمات فراہم کر رہی ہیں کہ جہازوں کو پہلے سے آگاہ کر دیا جائے کہ انھیں کہاں سے رفتار کم کرنی شروع کر دینی ہے تاکہ محفوظ مقام پر لنگر ڈال سکیں۔

تاہم جن جگہوں پر ماہی گیروں کی کشتیاں اتنی جدید نہیں اور ان کا عملہ بھی کم ہوتا ہے تو ان کے لنگر ڈالنے سے تاروں کو نقصان پہنچتا ہے۔

مائیک کلیئر کا کہنا ہے کہ ’ایسی جگہوں پر لوگوں کو آگاہی دینے کی ضرورت ہے۔ انھیں بتایا جائے کے کس جگہ پر تاریں بچھی ہوئی ہیں۔

’اس میں ہم سب کا فائدہ ہے کہ انٹرنیٹ رواں رہے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.