تعجب ہے کہ ملک کے وزیرِ دفاع کچھ ایسا فرما گئے کہ جس پر کسی کے کان کھڑے نہ ہوئے، وزیر دفاع بھی وہ جنہیں ہم خواجہ آصف کہتے ہیں۔ خواجہ آصف بھی وہ جو ن لیگ کے ہاں سینیئر ترین رہنماؤں میں سے ایک ہیں، سینیئر ترین رہنما بھی وہ جن کا ہمیشہ مقتدرہ سے ایسا گہرا تعلق واسطہ رہا کہ بیان کرنا ممکن نہیں۔
واسطہ بھی ایسا کہ 2018 کے چناؤ میں فون کال کے ذریعے سیٹ نکالنے کی کہانی زبان زد عام اور 2024 میں جو کرشمہ ان کے ہاں ہوا اس کا تو گویا شمار ہی ممکن نہیں. خواجہ آصف یعنی خواجہ صفدر کے فرزند ارجمند۔
راجدھانی اور پنڈی ایسے جڑواں شہروں میں دہائیوں سے پختہ ڈیرے ڈالنے والے، ربط والے، خبر والے وزیر دفاع یعنی خواجہ آصف۔ دیکھیے موصوف اگلے روز ایکس پر کیا فرما گئے۔ فرمایا،
’بیگم صاحبہ کی رہائی اور پشاور روانگی معمول کی کارروائی نہیں۔ گنڈا پور کی چالیں، پہلے بھڑکیں مارنا، دھمکیاں دینا، پھر جلسے جلسوں سے غائب ہونا، پھر نمودار ہونا، آنیاں جانیاں۔ شاید پوری پی ٹی آئی ۔۔۔ بننے کے پراسس میں ہے۔ اب پنجاب کو خیر باد کہہ کہ بیگم صاحبہ کا پشاور وزیراعلٰی ہاؤس کی انیکسی میں ڈیرے ڈالنا، پس پردہ داستان کی نشاندہی ہے۔ یہ دونوں شخصیات کسی نورا کشتی کی اور معافی تلافی کی خبر دیتی ہیں۔ اور یہ بانی پی ٹی آئی کی مرضی کے بغیر نہیں ہو رہا۔ سب مل کر ورکرز کو ۔۔۔ بنا رہے ہیں۔‘
خالی جگہ پر مناسب نہیں تھا کہ جو انھوں نے فرمایا تھا وہ لکھا جاتا۔ خواجہ صاحب! کہیں ایسا تو نہیں کہ؛
میں جس چراغ سے بیٹھا تھا لو لگائے ہوئے
پتہ چلا وہ اندھیرے میں رکھ رہا تھا مجھے
مدعا جناب خواجہ صاحب کا یہ ٹویٹ بھی نہیں، مدعا درحقیقت اس سے کہیں زیادہ سنجیدہ ہے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ ماضی کی مقتدرہ یا فیصلہ ساز یا موجودہ حکمران سیاسی جماعتیں محترمہ بشریٰ بی بی کے بارے میں ایک خاص رائے رکھا کرتے تھے۔ یعنی انتہائی سخت رائے، کہ جناب خان صاحب کے سیاسی فیصلوں کا اصل ذمہ دار ہی انہیں ٹھہرایا کرتے تھے۔
اڈیالہ جیل سے رہائی کے بعد بشریٰ بی بی پشاور روانہ ہو گئی تھیں۔ فوٹو: اے ایف پی
یہاں پنجاب میں بزدار سرکار کی حکمرانی کے پیچھے کس کا نام ببانگ دہل لیا جاتا تھا؟ اگر یہ کہا جائے کہ اصل ’وٹ‘ محترمہ پر ہی تھا تو یہ غلط نہ ہوگا۔
لیکن پھر ایسا کیا ہوا کہ انہیں رہا ہونے دیا گیا، کوئی نیا مقدمہ نہ ضمانت خارج۔ یہی نہیں بلکہ انہیں بخریت و عافیت گنڈا پور سرکار کی انیکسی میں رہائش کی سہولت بھی ملی، پھر ابھی کل ہی انہیں اڈیالہ میں کپتان سےملاقات کی اجازت بھی ملی۔ وہاں کیا بات ہوئی، کسی کو کانوں کان خبر تک نہ ہوئی۔
اس بیچ علی امین گنڈا پور کی پہلے پہل پراسرار خامشی اور پھر نپا تلا لب و لہجہ، پھر ملک گیر احتجا ج کی کال اور کال بھی ایسی جس میں چڑھائی تخت لاہور کی جانب رکھی گئی نہ ہی شہر اقتدار کی جانب، بلکہ رخ پشاور سے کوئٹہ اور کوئٹہ سے محض کراچی تک ہی رکھا گیا۔
اور کیا وجہ ہے کہ جناب خان کے ہاں سے بھی ملاقاتوں پر پابندی اٹھتے ہی کوئی ایسا بیان نہیں جس میں مخصوص شخصیات کا ذکر خیر ہی نہ ہوا۔ اور تو اور تحریک انصاف کی جانب سے تاحال باقاعدہ طور پر چھبیسویں آئینی ترمیم کو بھی چیلنج نہیں کیا گیا۔
چیف جسٹس کے چناؤ کے لیے قائم پارلیمانی کمیٹی سے بائیکاٹ کیا گیا تو اب آئینی بنچ کے قیام کے لیے کمیشن میں شمولیت کی ہامی بھر لی گئی۔
بہر حال اگر تو جناب خواجہ کے ٹویٹ پر ہی توجہ مرکوز رکھی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وزیر دفاع اعتراف کر رہے ہیں، اعتراف شکست کہنے کے بجائے بین السطور کسی داستان یا کسی ربط کا اعتراف۔ ڈیل یا ڈھیل کی کہانی قرار دینا شاید فی الحال قبل از وقت ہوگا۔
یہ اعتراف بذات خود سرکار کی ساکھ اور حیثیت پر بڑا سوالیہ نشان ہے۔ یعنی خواجہ صاحب کی سرکار سے بالا بالا گیم اور سرکار بیٹھی داستانیں تراش رہی ہے۔ یہ کیا بات ہوئی؟ صفحہ اگر ایک ہے تو یہ اعتراف پھر کاہے کا؟
بین الاقوامی دباؤ، ٹرمپ کی آمد سے امیدیں، احتجاج یا کچھ اور کے نام پر کیا اعتماد سازی ہو رہی ہے یا اگلے چند ماہ میں واقعی کپتان کو ریلیف ملتا دکھائی دے گا؟
علی امین گنڈا پور فیصلہ کن حیثیت سے پارٹی کے معاملات چلا رہے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی
کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ سرکار اب تک مطلوبہ نتائج حاصل کر چکی، ترمیم پاس ہوگئی، تحریک انصاف ملک گیر ایسا احتجاج نہ کر سکی جس سے سرکار کے قدم ڈگمگا اٹھتے، معیشت بھی سر اٹھا رہی ہے لہذا اب کوشش حالات معمول پر لانے کی ہے۔ کسی انقلاب کی راہ البتہ اس ہنگام تلاش کرنا پرلے درجے کی خام خیالی ہوگی۔
اور کچھ یہ سمجھتے ہیں کہ نہیں صاحب! طاقت کا زیادہ استعمال طاقت کا ضیاع ہوتا ہے اور پھر طاقت کا اثر وہ نہیں رہتا جو اسے استعمال کرنے سے پہلے ہوا کرتا ہے۔ سب حربے استعمال ہو چکے، اس بیچ کچھ مقاصد کا حصول ہو چکا، اور اکثر کا حصول حسب منشا ممکن نہ بنایا جاسکا۔
اب مسلسل پارہ ہائی رکھنا مشکل ہوچکا، جیل بیٹھے کپتان کے لیے اٹھتی آوازیں چپ ہونے کا نام نہیں لے رہیں، معاشی استحکام کے لیے سیاسی استحکام از حد لازم ہے، اس کارن اب کچھ تو کانفینڈنس بلڈنگ مئیرز لینا ہوں گے۔
لیکن کیف بھوپالی کے بقول؛
آگ کا کیا ہے پل دو پل میں لگتی ہے
بجھتے بجھتے ایک زمانہ لگتا ہے!