اسلام آباد کی ایک انسدادِ دہشتگردی کی عدالت نے وکیل ایمان مزاری اور ان کے شوہر عبدالہادی علی کو کارِ سرکار مداخلت کرنے اور دہشتگردی کے مقدمے میں تین روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا ہے۔
اسلام آباد کی انسدادِ دہشتگردی عدالت نے جمعرات کو وکیل ایمان مزاری اور ان کے شوہر عبدالہادی علی کی کارِ سرکار میں مداخلت کے مقدمے میں ضمانت منظور کر لی ہے۔
منگل کو انسدادِ دہشتگردی کی عدالت نے ایمان مزاری اور عبدالہادی کو کارِ سرکار میں مداخلت کرنے اور دہشتگردی کے مقدمے میں تین روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کیا تھا۔
جمعرات کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے دونوں ملزمان کا جسمانی ریمانڈ کالعدم قرار دیا جس کے بعد انسدادِ دہشتگردی عدالت کے جج طاہرعباس سِپرا نے ایمان مزاری اور ان کے شوہر کی 20، 20 ہزار روپے کے مچلکوں کے عوض ضمانتیں منظور کر لیں۔
ایمان مزاری اور ان کے شوہر پر الزام ہے کہ انھوں نے 25 اکتوبر کو انگلینڈ اور پاکستان کے درمیان راولپنڈی ٹیسٹ کے دوران زیرو پوائنٹ پر لگائی گئی رکاوٹوں کو ہٹا کر کارِ سرکار میں مداخلت کی اور پولیس پر ’تھپڑوں اور آہنی مکوں سے حملہ کیا۔‘
کیا کارِ سرکارِ میں ’مداخلت‘ پر دہشتگردی کا مقدمہ بنتا ہے؟
منگل کو انسدادِ دہشتگردی کی عدالت میں ایمان مزاری اور ان کے شوہر کو پولیس نے جج ابوالحسنات کے سامنے پیش کیا اور 30 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی۔
دورانِ سماعت پروسکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ ایمان مزاری اور عبدالہادی علی نے غیر قانونی طور پر سڑک سے بیریئرز ہٹانے کی کوشش کی۔
اسلام آباد کے تھانہ آبپارہ میں درج مقدمے میں ایمان مزاری اور ان کے شوہر کے خلاف دہشتگردی کی دفعات بھی شامل کی گئی ہیں۔
دورانِ سماعت ایمان مزاری اور عبدالہادی کے وکیل عطااللہ کُنڈی نے عدالت کو بتایا کہ ان کے مؤکلوں نے بیریئرز ہٹانے کی کوشش کی تاہم اس معاملے پر دہشتگردی کی دفعات لاگو نہیں ہوتیں اور دونوں کے خلاف صرف کارِ سرکار میں مداخلت کا مقدمہ بنتا ہے تاہم بعد میں انسدادِ دہشتگردی عدالت کے جج نے دونوں افراد کو تین روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا۔
ایف آئی آر میں کیا لکھا ہے؟
تھانہ آبپارہ میں درج ایف آئی آر کے مطابق 25 اکتوبر کو پولیس نے اسلام آباد کے زیرو پوائنٹ پر غیر ملکی (انگلینڈ) کرکٹ ٹیم کی سکیورٹی اور ’ممکنہ خطرے کے پیشِ نظر‘ آہنی بیریئرز لگا کر سڑک کو بند کیا ہوا تھا اور ’تمام شہری قانون کی پاسداری کرتے ہوئے بیریئرز کے پیچھے رُکے ہوئے تھے۔‘
ایف آئی آر کے متن کے مطابق اس دوران ایمان مزاری اور ان کے شوہر وہاں پہنچے اور ’چیختے چلّاتے ہوئے بیریئرز ہٹانا شروع کر دیے۔‘
ایف آئی آر میں مزید کہا گیا ہے کہ ایمان مزاری کے شوہر نے پولیس اہلکار پر ’تھپڑوں اور آہنی مکوں‘ سے حملہ کیا۔
ایف آئی آر میں پولیس کا دعویٰ ہے کہ ایمان مزاری اور ان کے شوہر کے اس عمل کا مقصد ’پولیس اہلکاروں پر تشدد کر کے مہمان ٹیم میں خوف و دہشت پیدا کرنا تھا۔‘
ایمان مزاری اور ان کے شوہر کے خلاف مقدمہ 25 اکتوبر کو درج کیا گیا تھا تاہم ان کی گرفتاری 28 اکتوبر کو عمل میں لائی گئی اور ان کے خلاف درج ایف آئی آر کو بھی سیلڈ کر دیا گیا تھا۔
ان کے خلاف درج ایف آئی آر اس ہی وقت منظرِ عام پر آئی جب آج دونوں ملزمان کو انسدادِ دہشتگردی کی عدالت میں پیش کیا گیا۔
ضابطہ فوجداری کے تحت درج ہونے والے مقدمات کی پیروی کرنے والے وکیل ذوالفقار نقوی نے اس حوالے سے بی بی سی کو بتایا کہ ’ضابطہ فوجداری میں ایسی کوئی شق نہیں، جس میں پولیس کو کسی مقدمے کی ایف آئی آر کو سِیل کرنے کا اختیار دیا گیا ہو۔‘
’ایف آئی آر ایک پبلک ڈاکیومنٹ ہے جس کو کسی طور پر سِیل نہیں کیا جا سکتا۔‘
تاہم وہ کہتے ہیں کہ پولیس کی جانب سے ایف آئی آر کو سِیل کرنا بظاہر ایک ’انتظامی معاملہ‘ معلوم ہوتا ہے جس کا مقصد شاید یہ ہوسکتا ہے کہ ایف آئی آر منظرِ عام پر لانے سے کہیں امن و امن کی صورتحال نہ پیدا ہوجائے۔
ماضی میں بھی پاکستان میں متعدد مقدمات کی ایف آئی آرز سیلڈ کی جاتی رہی ہیں۔ ان بڑے واقعات میں سابق صدر پرویز مشرف پر ہونے والے خودکُش حملے بھی شامل تھے اور ان مقدمات کی ایف آئی آرز اس ہی وقت منظرِ عام پر آئیں جب ان واقعات کی عدالتی تحقیقات شروع ہوئیں۔
اسی طرح سابق وزرائے اعظم شوکت عزیز اور بے نظیر بھٹو پر ہونے والے خودکش حملوں کی ایف آئی آرز کو بھی سیل کیا گیا تھا۔
کارِ سرکاری میں مداخلت پر دہشتگردی کی دفعات؟
ایمان مزاری انسانی حقوق، لاپتہ افراد اور مبینہ جبری گمشدگیوں پر آواز اُٹھانے کے لیے مشہور ہیں۔
ایمان مزاری اور ان کے شوہر کی سڑک پر سے بیریئرز ہٹانے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر بھی وائرل ہوئی اور اسی سبب ان کی گرفتاری سوشل میڈیا پر نہ صرف موضوعِ بحث بنی ہوئی ہے بلکہ صارفین اس پر تقسیم بھی نظر آتے ہیں۔
حسن دوست نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’ایمان مزاری اور ان کے شوہر کی گرفتاری انصاف کے لیے اُٹھنے والی آوازوں کو خاموش کروانے کی پریشان کُن کوشش ہے۔‘
وکیل خدیجہ صدیقی اس حوالے سے لکھتی ہیں کہ ’ایمان مزاری اور ہادی نے ہمیشہ لوگوں کے آئینی حقوق کے لیے جنگ لڑی۔ چاہے وہ عدالت کے اندر ہو یا باہر، اس طریقے سے انسانی حقوق کے وکیلوں کو گرفتار کر کے (ہم) پوری دُنیا میں ذلت کا باعث بن رہے ہیں۔‘
تاہم کچھ صارفین ایسے بھی ہیں جن کا کہنا ہے کہ دونوں وکیلوں نے قانون کی خلاف ورزی کی اور ان کے خلاف مقدمے کا اندراج کوئی غلط قدم نہیں۔
یا د رہے کہ ماضی میں پاکستان میں سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملہ بھی ہو چکا ہے جس کے باعث طویل عرصے تک ملک میں بین الاقوامی کرکٹ نہیں کھیلی جا سکی تھی۔
اظہر سید نامی سوشل میڈیا صارف ایسے ہی واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’سری لنکن ٹیم پر حملہ ہوچکا ہے، دہشت گردی کی وجہ سے نیوزی لینڈ کی ٹیم دورہ ادھورا چھوڑ کر گئی تھی۔ عالمی کرکٹ کے لیے پاکستان نو گو ایریا بن گیا تھا۔‘
لیکن کیا کارِ سرکار میں مداخلت پر دہشتگردی کا مقدمہ بنتا ہے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے حکومت اور بین الاقوامی شخصیات کی نقل و حمل کو محفوظ بنانے کے لیے بنائے گئے پولیس سکواڈ کے سابق افسر حسن رضا نے بی بی سی کو بتایا کہ ’وی وی آئی پیز موومنٹ کے حوالے سے جو روٹ لگائے جاتے ہیں اس دوران اکثر اوقات ٹریفک اور لوگوں کے نقل و حمل کو بیریئر لگا کر روکا جاتا ہے۔‘
’اگر اس دوران کوئی شخص روٹ کی خلاف ورزی کرے اور ڈیوٹی پر موجود پولیس اہلکار کے کہنے پر بھی نہ رکےتو اس کے خلاف کار سرکار میں مداخلت کا مقدمہ تو بن جاتا ہے لیکن اگر وہ پولیس والوں کے ساتھ لڑائی جھگڑا کرے تو پھر اس کی الگ دفعات اس مقدمے میں لگائی جائیں گی۔‘
حسن رضا کہتے ہیں کہ وی وی آئی پی روٹ اور حفاظتی انتظامات کی خلاف ورزی کرنے کی اجازت کسی کو نہیں ہوتی اور ’اگر کسی اہم شخصیت کے روٹ کے دوران موٹر کیڈ (قافلے) یا سکواڈ کے سامنے کوئی شخص آ جائے تو خلاف ورزی کرنے والے کو گولی بھی ماری جاتی ہے۔‘
جبری گمشدگیوں سے متعلق مقدمات کی پیروی کرنے والی وکیل ایمان مزاری اور ان کے شوہر کے خلاف انسداد دہشت گردی کی دفعات کا ذکر کرتے ہوئے سابق پولیس افسر کا کہنا تھا کہ انھوں نے سوشل میڈیا پر اس واقعہ کی ویڈیو دیکھی ہے اور اس میں کارِ سرکار میں مداخلت اور لوگوں کو اکسانے تک تو معاملہ سمجھ میں آتا ہے لیکن انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کرنے کی بظاہر کوئی وجہ نظر نہیں آ رہی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر ریاست علی آزاد کا کہنا ہے کہ ایمان مزاری ایڈووکیٹ کے خلاف درج مقدمے میں لگائی گئی انسداد دہشتگردی کی دفعات سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں دہشتگردی کی تعریف پر پورا نہیں اترتیں۔
انھوں نے کہا کہ اس مقدمے میں انسداد دہشت گردی سمیت ڈکیتی کی دفعات بھی لگائی گئی ہیں اور وہ کسی طور پر بھی اس واقعے سے تعلق نہیں رکھتیں۔
انھوں نے کہا کہ قانون میں زبردستی عوام کا راستہ روکنا بھی جرم ہے اور اگر راستہ روکنا مقصود ہو تو پہلے اس بارے میں لوگوں کو مطلع کیا جاتا ہے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ بدقسمتی سے ضابطہ فوجداری کے قانون کو مذاق بنا دیا گیا ہے۔
ریاست علی آزاد کا کہنا تھا کہ اسلام آباد میں اگر دفعہ 144 کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو اس کے خلاف دفعہ 188 کے تحت کارروائی ہوتی ہے لیکن پولیس والے اس کے ساتھ ساتھ انسداد دہشت گردی کی دفعات بھی لگا دیتے ہیں۔