وفاقی حکومت چاہتی ہے کہ عدالتِ عظمیٰ میں ہزاروں کی تعداد میںزیرِ التوا مقدمات کو نمٹانے کے لیے مزید ججز درکار ہیں۔ تاہم عمران خان کی جماعت تحریک انصاف نے اسے ’ججوں کو دباؤ میں لانے‘ اور ’من پسند افراد کو سپریم کورٹ میں تعینات کرنے کی سازش‘ قرار دیا ہے۔
وفاقی حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ آف پاکستان میں ججوں کی تعداد بڑھانے سے متعلق بِلقومی اسمبلی میں پیش کر دیا گیا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے اس حکومتی اقدام کو ’اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو دباؤ میں لانے اور من پسند افراد کو سپریم کورٹ میں تعینات کرنے کی سوچی سمجھی سازش‘ قرار دیتے ہوئے اس پر تنقید کی ہے۔
اس مجوزہ بِل کے تحت سپریم کورٹ میں ججوں کی تعداد 17 سے بڑھانے کی تجویز دی گئی ہے۔ یاد رہے کہ اِس وقت سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد 19 ہے جس میں سے 17 مستقل جبکہ 2 ایڈہاک جج ہیں۔
حکومت کا مؤقف ہے کہ اس اقدام کی بنیادی وجہ عدالتِ عظمیٰ میں ہزاروں کی تعداد میںزیرِ التوا مقدمات کو نمٹانا ہے۔ سپریم کورٹ کے ریکارڈ کے مطابق اِس وقت عدالتِ عظمیٰ میں زیر التوا مقدمات کی تعداد60 ہزار سے زیادہ ہے۔
حکومت کے اس مجوزہ ترمیمی بل میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایسے ججز کو سپریم کورٹ میں تعینات کیا جائے جنھیں سائبر کرائم کے علاوہ ماحولیات، بین الاقوامی تجارت اور بین الاقوامی معاہدوں سے متعلقہ معاملات پر عبور حاصل ہو۔
یاد رہے کہ حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے رُکن قومی اسمبلی دانیال چوہدری نے سپریم کورٹ میں ججوں کی تعداد بڑھانے سے متعلق یہ بل رواں سال 3 ستمبر کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں پیش کیا تھا، تاہم پاکستان پی ٹی آئی کے رہنما اور رکنِ قومی اسمبلی بیرسٹر گوہر نے اس پر اعتراض اٹھایا تھا کہ ایسا بل ایوان میں پیش کرنے کا اختیارصرف حکومت کے پاس ہے جس پر سپیکر قومی اسمبلی نے دانیال چوہدری کو یہ بل پیش کرنے سے روک دیا تھا۔
تاہم 10 ستمبر کو پرائیویٹ ممبر ڈے کے موقع پر دانیال چوہدری نے یہ بل دوبارہ ایوان میں پیش کیا تھا اور بعد میں یہ بل قانون و انصاف سے متعلق قائمہ کمیٹی کو بھیج دیا گیا۔ جس کے بعد حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ اب وہ اس بل کو خود پیش کرے گی۔
جبکہ اِسی نوعیت کا ہی ایک اور بِل بلوچستان سے تعلق رکھنے والے آزاد سینیٹر عبدالقادر کی جانب سے بھی سینیٹ کے اجلاس میں پیش کیا گیا تھا جس میں سپریم کورٹ میں ججوں کی تعداد 17 سے بڑھا کر 21 کرنے کی تجویز دی گئی تھی۔
سینیٹ میں بھی پی ٹی آئی نے اس بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس بل کو لانے کا مقصد سپریم کورٹ میں آئینی عدالت بنا کر اس وقت کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی مدمت ملازمت میں توسیع دینا ہے۔
وزارت قانون کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ سپریم کورٹ ایکٹ میں ترمیم کرنے کے ساتھ ساتھ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں مزید ترمیم کرنے سے متعلق تجاویز بھی طلب کر لی گئی ہیں۔
ان تجاویز کے مطابق پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں صدارتی آرڈیننس کے تحت جو ترمیم کی گئی تھی اس کو تحفظ دینے کے ساتھ یہ ترمیم بھی کیے جانے کی توقع ہے کہ بینچز کی تشکیل سے متعلق سپریم کورٹ کے دو سینیئر ججوں کے علاوہ آئینی بینچ کے سربراہ یا کسی دوسرے سینیئر رُکن کو اس کمیٹی کا رُکن بنایا جائے گا۔
سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے دور میں حکومت نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں صدارتی آرڈیننس کے تحت ترمیم کی تھی جس کے مطابق سپریم کورٹ کے دو سینیئر ججوں کے علاوہ تیسرا رُکن چیف جسٹس کی مرضی سے شامل کیا جاسکتا تھا۔
اس پیشرفت کے بعد اس وقت کے چیف جسٹس نے کمیٹی میں جسٹس منیب اختر کی جگہ جسٹس امین الدین کو شامل کیا تھا۔
قاضی فائز عیسیٰکی ریٹائرمنٹ کے بعد جسٹس یحییٰ آفریدی نے چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالنے کے بعد تین سینیئر ججوں پر مشتمل اس کمیٹی کو بحال کر دیا ہے جس میں چیف جسٹس کے علاوہ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر شامل ہیں۔
پاکستانمیں وکلا کی سب سے بڑی تنظیم پاکستان بار کونسل کے سابق وائس چیئرمین امجد شاہ کا کہنا ہے کہ اُن کی تنظیم کے علاوہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے بھیماضی میں متعدد بار سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحبان سے ججوں کی تعداد بڑھانے کا مطالبہ کیا تھا لیکن اس پر کوئی عمل درآمد نہیں ہوا۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ میں ججوں کی تعداد بڑھانے کو سیاست کی بھینٹ نہ چڑھایا جائے بلکہ اس معاملے کو اس تناظر میں دیکھا جائے کہ ججوں کی تعداد بڑھانے سے عام لوگوں کو ریلیف ملے گا۔
پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے سینیئر وکیل رہنما حامد خان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد میں اضافہ ایک ’سوچی سمجھی سازش‘ کے تحت ہے۔
انھوں نے الزام عائد کیا کہ اس کا پس پردہ مقصد ناصرف عدالت عظمیٰ میں اپنے من پسند ججز کو شامل کروانا ہے بلکہ عدلیہ کو دباؤ میں بھی لانا ہے۔
انھوں نے کہا اعلیٰ عدالتوں میں ججوں کی تعداد بڑھانے کا کوئی جواز موجود نہیں ہے۔ایک سوال کے جواب میں وکیل رہنما کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹمیں ججوں کی تعداد بڑھانے کے لیے کسی آئینی ترمیم کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ایکٹ آف پارلیمنٹ سے بھی سپریم کورٹ ایکٹمیں ترمیم کی جا سکتی ہے۔
حامد خان کا کہنا تھا کہانڈیا آبادی اور رقبےکے لحاظ سے پاکستان سے بہت بڑا ملک ہے اور وہاں پر سپریم کورٹ میں ججوں کی تعداد 34 ہیں۔ انھوں نے سوال کیا تو کیا پاکستان کی سپریم کورٹ میں 17 جج لوگوں کو انصاف فراہم نہیں کر سکتے؟
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما کا کہنا تھا کہ پاکستان کی عدلیہ کے ساتھ جب بھی چھیڑ چھاڑ کی گئی تو پاکستان کو اس کا ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔
انھوں نے کہا کہ سنہ 1954 میں اُس وقت کی فیڈرل کورٹ کے سب سے سینیئر جج ابو صالح اکرم کو نظر انداز کرکے جسٹس منیر کو چیف جسٹس بنایا گیا اور یہ وہی چیف جسٹس تھے جن کے دور میں نظریہ ضرورت ایجاد ہوا تھا۔
انھوں نے کہا کہ اس کے بعد جسٹسسعود جان کی جگہ جسٹس سجاد علی شاہ کو چیف جسٹس بنایا گیا۔
حامد خان کا کہنا تھا کہ ان کے ہم خیال وکلا چیف جسٹس کی تعیناتی میں سنیارٹی رول کو نظر انداز کرنے اور ججز کی تعداد بڑھانے کے خلاف ملک بھر میں احتجاج کریں گے جس کا لائحہ عمل آئندہ ایک، دو روز میں طے کر لیا جائے گا۔