’میری ویڈیو بنا کر مجھے مسلسل بلیک میل کیا گیا، اسی کے ڈر سے صلح کی تھی‘

’اس لیے صلح کی تھی کہ میری ویڈیو ڈیلیٹ کر دی جائے گی۔۔۔‘ یہ کہنا ہے معروف ٹرانس جینڈر پرفارمر کا جن کی برہنہ ویڈیو وائرل کیے جانے کے بعد پشاور پولیس نے پیکا ایکٹ کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا ہے۔
علامتی تصویر
Getty Images
علامتی تصویر

’اس لیے صلح کی تھی کہ میری ویڈیو ڈیلیٹ کر دی جائے گی۔۔۔‘

یہ کہنا ہے ایک متاثرہ اور معروف ٹرانس جینڈر کا جن کی برہنہ ویڈیو مبینہ طور پر وائرل کیے جانے کے بعد پشاور پولیس نے الیکٹرانک کرائمز ایکٹ کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا ہے۔

پولیس کے مطابق اس معاملے پر وہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ساتھ مل کر تفتیش کر رہی ہے۔

متاثرہ ٹرانس جینڈرنے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں ان لوگوں (ملزمان) کے خلاف طویل عرصے سے لڑ رہی ہوں۔ میں نے نہ تو ہمت ہاری ہے نہ ہی حوصلہ۔ میں انصاف کے حصول تک اپنی لڑائی جاری رکھوں گی۔‘

پشاور پولیس کے ترجمان عالم خان کے مطابق پولیس اس وقت ملزمان کی گرفتاری کے لیے ضلع مہمند، چارسدہ اور پشاور میں چھاپے مار رہی ہے۔

عالم خان نے کہا کہ ’پولیس ٹرانس جینڈرز کے حقوق کا ’تحفظ کرے گی اور ملزمان کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے گا۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ملزمان کی گرفتاری کے لیے پولیس کی خصوصی ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں۔

’ماضی میں ویڈیو کے ڈر سے صلح کی تھی‘

متاثرہ ٹرانس جینڈر نے بی بی سی کو بتایا کہ ماضی میں بھی ان کی جانب سے ملزمان کے خلاف مقدمات درج کروائے گئے تھے تاہم انھوں نے صرف اس لیے ’صلح کی تھی کہ یہ میری ویڈیو وائرل نہ کریں۔ مگراب ویڈیو وائرل کر دی ہے تو انھوں نے میرے خاموش رہنے کا جواز ختم کر دیا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اب یہ مجھے قتل بھی کر دیں تو کر دیں۔ مگر میں انصاف کے لیے لڑائی جاری رکھوں گی۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ان کی جانب سے ماضی میں مقدمہ درج کروانے پر ملزم کو گرفتار کیا گیا تھا تاہم انھیں ضمانت پر رہائی مل گئی تھی۔ اس کے بعد ڈولفن ایان کے بقول ملزم نے بیان حلفی دیا تھا کہ ’اگر میں صلح کر لوں تو وہ میری ویڈیو ڈیلیٹ کر دے گا اور اس کو کبھی بھی وائرل نہیں کرے گا، نہ ہی مجھے بلیک میل کرے گا۔‘

اگرچہ وہ خود بھی ٹرانس جینڈر برادری کے حقوق کے لیے سرگرم رہتی ہیں لیکن کا کہنا ہے کہ ’میں کسی بھی طور پر نہیں چاہتی تھی کہ میری نازیبا ویڈیو وائرل ہو۔ میری اور میرے خاندان کی بے عزتی ہو۔

’میں نے ان سے صلح کر لی تھی کہ اس طرح میری ویڈیو ڈیلیٹ ہو جائے گی۔۔۔ مگر ان لوگوں نے اس تحریری معاہدے کی بھی خلاف ورزی کی ہے۔‘

متاثرہ ٹرانس جینڈر کا کہنا ہے کہ وہ تعلیم یافتہ ہیں اور ان کے پاس سول انجینیئرنگ کا ڈپلوما بھی ہے۔ ان کے مطابق انھوں نے حالات سے مجبور ہو کر تعلیم چھوڑ دی تھی اور آمدن کے لیے پرفارم کرنا شروع کیا تھا۔

dolphin
Getty Images

لیک ویڈیو پر درج کیے گئے مقدمے میں کیا ہے؟

متاثرہ کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل کرنے سے متعلق یہ مقدمہ پشاور پولیس نے پیکا ایکٹ کے تحت درج کیا جس میں قتل کی دھمکی اور ریپ سمیت دیگر دفعات بھی شامل ہیں۔

اس مقدمے میں پیکا ایکٹ کی سیکشن 20 اور 21 شامل ہیں جو بلیک میلنگ اور نازیبا مواد شیئر کرنے سے متعلق ہیں۔ سیکشن 20 کے تحت تین سال قید اور دس لاکھ جرمانہ جبکہ سیکشن 21 کے تحت پانچ سال قید اور پچاس لاکھ جرمانہ ہو سکتا ہے۔ اس مقدمے میں تعزیرات پاکستان کی ریپ کے خلاف دفعہ 376 بھی شامل ہے جس کے تحت 10 سے 25 سال قید کی سزا ہو سکتی ہے۔

تھانہ ہشت نگری میں درج اس مقدمے میں متاثرہ ٹرانس جینڈر کا کہنا ہے کہ سنہ 2023 کے دوران وہ شبقدر کے علاقے میں ایک پروگرام کے لیے موجود تھیں جہاں سے ملزم اپنے تین، چار ساتھیوں کے ہمراہ انھیں ’اٹھا کر اپنے حجرے میں لے گئے تھے۔‘

ان کا الزام ہے کہ ملزمان نے ’اسلحے کے زور پر نازیبا ویڈیوز بنائیں اور اپنے موبائل فونز میں محفوظ کر لیں۔‘

ان کا الزام ہے کہ ملزمان نے انھیں چھ ماہ تک انھیں بلیک میل کیا اور اپنے ڈیرے پر بلا کر تشدد اور ریپ کیا۔ ’جب تنگ آ کر میں نے ان کے مطالبات ماننے سے انکار کر دیا تو انھوں نے 29 اکتوبر کو باہمی مشاورت کے ساتھ میری ویڈیو کو وائرل کر دی۔‘

پشاور پولیس کے ترجمان عالم خان نے بی بی سی کو بتایا کہ پولیس کی ٹیمیں ملزمان کی گرفتاری کے لیے مختلف علاقوں میں چھاپے مار رہی ہے۔

بلیک میل
Getty Images

’ویڈیوز بنا کر خواجہ سراؤں کو بلیک میل کیا جاتا ہے‘

صوبے میں ٹرانس جینڈر برادری کے حقوق کی تنظیم ’ٹرانزسیکشن‘ کی سربراہ نے بی بی سی کو بتایا کہ متاثرہ ٹرانس جینڈر کے معاملے پر آواز اٹھانے پر انھیں دھمکیاں دی گئی ہیں۔

ان کا دعویٰ ہے کہ ’متاثرہ ٹرانس جینڈر کی ہی نہیں بلکہ کئی اور خواجہ سراؤں کی بھی نازیبا ویڈیوز بنائی گئی ہیں جن کو بلیک میلنگ، بھتہ خوری اور دیگر مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔‘ ان کے مطابق خواجہ سرا خوفزدہ ہونے کی وجہ سے اس معاملے پر بات کرنے کو تیار نہیں ہیں۔

’ٹرانزسیکشن‘ کی سربراہ کا کہنا تھا کہ ’خواجہ سرا اپنی ویڈیو وائرل ہونے کے ڈر سے ان کے تمام مطالبات ماننے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ انھیں ڈر ہوتا ہے کہ اگر ان کی ویڈیو وائرل ہو گئی تو ان کا خاندان ان کو (نام نہاد) غیرت کے نام پر قتل کر دے گا اور یہ سب سے بڑا خطرہ ہوتا ہے۔‘

انھوں نے مزید بتایا کہ ٹرانس جینڈر مختلف تقاریب پر پرفارم کرنے کے لیے جاتے ہیں مگر بعض اوقات انھیں ’بندوق کی نوک پر اغوا کر لیا جاتا ہے اور ویڈیو بنا لی جاتی ہے۔۔۔ جو بلیک میل ہوتا رہے تو اس کی ساری زندگی عذاب بنی رہتی ہے اور جو بلیک میل نہ ہو تو اس کی ویڈیو کو وائرل کر دیا جاتا ہے۔‘

صوبے میں ٹرانس جینڈر برادری کے حقوق کی تنظیم ٹرانز سیکشن کے ریکارڈ کے مطابق نام نہاد غیرت اور دیگر وجوہات کی بنا پر ’2015 سے 2024 تک 145 خواجہ سرا قتل ہوچکے ہیں۔‘

پشاور میں انسانی حقوق کے کارکن قمر نسیم نے بتایا کہ صوبے میں خواجہ سراؤں کو ایسی ویڈیوز کی بنیاد پر دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ ٹرانس جینڈر برداری کے تحفظ کے لیے حکومت اور نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن کو تجاویز دی گئی ہیں۔

خیبر پختونخوا میں نیشنل ہیومن رائیٹس کمیشن کے کوآرڈینیٹر رضوان اللہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ’خواجہ سرا کمیونٹی اس وقت انتہائی خطرے کا شکار ہے اور یہ بہت آسان ہدف ہوتے ہیں۔‘

ان کی رائے میں اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ صوبے میں ٹرانس جینڈر برادری کے تحفظ کے لیے مناسب قانون موجود نہیں۔

رضوان اللہ کا کہنا تھا کہ ’خواجہ سراؤں کا بڑا مسئلہ روزگار ہے۔ زیادہ تر کو ناچ گانا کرنا پڑتا ہے اور جب یہ فنکشنز میں جاتے ہیں تو یہ آسان ہدف بن جاتے ہیں جس وجہ سے ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ قانون سازی کے ذریعے خواجہ سراؤں کو روزگار دینے پر توجہ دی جا رہی ہے مگر ان مجوزہ قوانین کا مسودہ اس وقت اسلامی نظریاتی کونسل کے پاس موجود ہے۔ وہاں سے اس کی منظوری کے بعد ہی اسے صوبائی اسمبلی سے منظور کروایا جا سکے گا۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.