ایران کے دارالحکومت تہران کی یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ریسرچ کے کیمپس میں گذشتہ روز سنیچر کو ایک خاتون صرف زیر جامہ میں نظر آئیں جس کے بعد انھیں گرفتار کر لیا گیا ہے۔
ایران کے دارالحکومت تہران کی یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ریسرچ کے کیمپس میں گذشتہ روز سنیچر کو ایک خاتون صرف زیر جامہ میں نظر آئیں جس کے بعد انھیں گرفتار کر لیا گیا ہے۔
اب ان کی زیر جامہ والی ویڈیوز کے ساتھ ان کی گرفتاری کی ویڈیوز بھی وائرل ہیں جس پر سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر ردعمل سامنے آیا ہے۔ لوگ اس بابت طرح طرح کی باتیں کر رہے ہیں کہ آخر وہ لڑکی صرف زیر جامہ میں کیمپس میں کیوں آئی اور اس کے ساتھ کیا ہوا۔
بی بی سی فارسی کی ڈیجیٹل ٹیم نے اس واقعے کی تصدیق کی ہے کہ یہ واقعہ تہران کی سائنس اور تحقیق کی آزاد یونیورسٹی کے بلاک نمبر ایک میں دو نومبر کی دوپہر کو پیش آيا۔
ویڈیوز میں کیا ہے؟
سوشل میڈیا پر موجود ان ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ریسرچ کے بلاک 1 کی ایک راہداری کے اونچے پلیٹفارم یا منڈیر پر ایک لڑکی زیر جامہ میں بیٹھی ہے اور یونیورسٹی کے مرد و خواتین سکیورٹی افسران ان کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں لیکن ان کے درمیان کیا باتیں ہو رہی ہیں انھیں سنا نہیں جا سکتا ہے۔
دوسری تصویروں میں وہ اپنے زیر جامہ میں ہی کیمپس میں گھومتی پھرتی نظر آ رہی ہیں۔
ان ویڈیوز میں صرف لڑکی کے برہنہ ہونے کے بعد کے لمحات ریکارڈ کیے گئے ہیں اور وہ واقعات نہیں دیکھائے گئے ہیں جن کی وجہ سے لڑکی برہنہ ہوئی۔
ایک اور ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ لڑکی بلاک ون کے قریب ایک راستے سے جا رہی ہے۔ اس ویڈیو کو بہت دور سے فلمایا گیا ہے، ممکنہ طور پر کسی کلاس روم کی کھڑکی سے فلمایا گیا ہے۔
اس ویڈیو میں لڑکی کی جسمانی حرکات سے واضح ہے کہ وہ اپنی شارٹس اتار رہی ہے اور وہاں پر موجود لوگوں کا ردعمل بھی اس بات کی تصدیق کرتا ہے۔ چند لمحوں بعد ایک پرائیڈ ہیچ بیک یعنی کار کئی پولیس افسران کے ساتھ جائے وقوع پر پہنچتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ کئی افسران اس لڑکی کو گاڑی میں ڈال دیتے ہیں۔
ایران سے باہر کے بہت سے ذرائع ابلاغ اور سوشل نیٹ ورکس پر شائع ہونے والی رپورٹس نے لڑکی کے اس اقدام کو حجاب اور یونیورسٹی کے سکیورٹی اہلکاروں کے سلوک کے خلاف ردعمل قرار دیا ہے۔
اس واقعے کے متعلق کئی رپورٹس خبرنامہ امیر کبیر کے ٹیلی گرام چینل کے حوالے سے شائع کی گئی ہیں۔ ’امیر کبیر نیوز‘ میں بتایا گیا ہے کہ ’بسیج فورس کی جانب سے حجاب نہ پہننے پر ہراساں کیے جانے اور سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں اس کے کپڑے پھاڑنے کے بعد، اس نے احتجاج کے طور پر اپنے کپڑے اتار دیے۔‘
بی بی سی فارسی کے جواب میں امیر کبیر اخبار نے کہا کہ اس نے یہ رپورٹ ایک باخبر ذریعے کی معلومات کی بنیاد پر شائع کی ہے۔
دو عینی شاہدین کا بیان
بی بی سی نے دو ایسے لوگوں سے بات چیت کی ہے جن کا کہنا ہے کہ وہ دونوں جائے وقوعہ پر موجود تھے۔ انھوں نے بی بی سی فارسی سے بات کرتے جو باتیں بتائیں وہ گارڈز کے ساتھ جھگڑے کی کہانی سے مختلف ہیں۔
انھوں نے بی بی سی فارسی کو بتایا کہ لڑکی ’کئی کلاس رومز میں ہاتھ میں موبائل فون لے کر داخل ہوئی گویا وہ طالب علموں کی فلم بندی کر رہی ہو۔‘
ان کے مطابق اس لڑکی کے بغیر اجازت داخل ہونے سے ناراض ایک پروفیسر نے اس کے پیچھے ایک طالب علم کو یہ پوچھنے کے لیے بھیجا کہ اس سے پوچھا جائے کہ وہ کیا کر رہی ہے۔ لیکن عینی شاہد کے مطابق جب طالب علموں کا لڑکی سے سامنا ہوا تو ’چیخنے لگی تھی۔‘
ایک عینی شاہد نے بی بی سی کو بتایا کہ جب وہ صحن میں پہنچے تو دیکھا کہ لڑکی نے اپنے کپڑے اتار لیے تھے۔
ان گواہوں کے مطابق لڑکی اور گارڈ کے درمیان 'کوئی جھگڑا' نہیں ہوا تھا۔
لیکن ان دونوں عینی شاہدین نے اس لڑکی کو صرف اس وقت سے دیکھا جب لڑکی کلاس رومز میں اچانک داخل ہوئی تھی۔
اس لیے انھوں نے کہا ہے کہ وہ نہیں جانتے کہ لڑکی کے کلاس رومز میں داخل ہونے سے پہلے کیا ہوا تھا۔
انھوں نے یہ بھی نہیں دیکھا کہ عمارت سے نکلنے والی لڑکی اور پھر اس کے کپڑے اتارنے کے درمیان کیا ہوا۔
یہ دونوں عینی شاہدین لڑکی کے کپڑے اتارنے کے بعد اس جگہ پہنچے تھے۔
ایک عینی شاہد کے مطابق لڑکی نے کلاس روم کے اندر موجود طالبات سے کہا کہ ’میں تمہیں بچانے آئی ہوں۔‘
سوشل نیٹ ورک ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر ایک صارف نے لکھا کہ بظاہر یونیورسٹی کی طالبہ نے کہا کہ ’میں تمہیں بچانے آئی ہوں۔‘
یونیورسٹی کے حکام اور میڈیا کا ردعمل
آزاد یونیورسٹی کے تعلقات عامہ اور تقاریب کے ڈائریکٹر عامر محجوب نے سوشل میڈیا ایکس پر ایک پوسٹ میں لڑکی کی یونیورسٹی کی سکیورٹی سے جھگڑے کی تردید کی ہے اور انھوں نے لڑکی کو یونیورسٹی کی طالبہ کہا ہے۔ مسٹر محجوب کا کہنا ہے کہ لڑکی کی گرفتاری کے بعد وہ خود تھانے پہنچے اور ’ایمرجنسی ڈیپارٹمنٹ کی تصدیق کے مطابق اس کی جسمانی حالت کافی درست بتائی گئی ہے۔‘
عامر محجوب اس کے بعد اس کہانی کو یوں بیان کرتے ہیں:
’تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ ذہنی خرابی کی وجہ سے وہ اپنے ہم جماعت اور اپنے استاد کی فلم بندی کرنا شروع کر دیتی ہے، جس پر اسے اعتراض کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس کی نظیر نہیں ملتی ہے۔ طلبا اور سکیورٹی کی طرف سے خبردار کیے جانے کے بعد وہ صحن کی طرف نکل جاتی ہے اور پھر بے حیائی کا ارتکاب کرتی ہے۔ اس مخصوص معاملے میں جو کچھ ہوا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ طالبہ کا حیا کے خلاف عمل غلط ہے اور اس کے پس پشت حجاب کے نوٹس کا عمل دخل نہیں ہے۔ اس نے طالب علم کی اجازت کے بغیر فلم بندی اور فوٹو گرافی کی جو کہ سکیورٹی، طلبا اور پروفیسرز کی رازداری کی خلاف ورزی ہے۔‘
ایرانی خبررساں ادارے آئی ایس این اےسمیت ایرانی میڈیا نے یہ بھی اطلاع دی ہے کہ اس ’طالبہ‘ کو طلباء کی فلم بندی کرنے کے بعد ان کے احتجاج کا سامنا کرنا پڑا اور ان کے احتجاج کے جواب میں اس نے اپنے کپڑے اتار دیے۔
آزاد یونیورسٹی کے حوالے سے بعض ذرائع ابلاغ میں کہا گیا ہے کہ ’یہ طالبہ شدید ذہنی دباؤ اور ذہنی عارضے کا شکار ہے اور اسے طبی مرکز منتقل کر دیا گیا ہے۔‘
طالب علم کی فوری رہائی کی درخواست
اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندہ برائے انسانی حقوق اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس لڑکی کی گرفتاری پر ردعمل کا اظہار کیا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایکس پر ایک ٹویٹ میں لکھا ’ایرانی حکام کو فوری طور پر اور غیر مشروط طور پر اس طالبہ کو رہا کرنا چاہیے، جس نے 2 نومبر کو اسلامی آزاد یونیورسٹی میں سکیورٹی حکام کی جانب سے جبری حجاب پر ہراساں کیے جانے کے خلاف احتجاج میں اپنے کپڑے اتار دیے جس کے بعد انھیں پرتشدد طریقے سے گرفتار کیا گیا۔‘
’اس دوران، حکام کو اس کے ساتھ تشدد اور دیگر ناروا سلوک سے باز رہنا چاہیے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ اس کی ان کے خاندان کے افراد اور وکیل تک رسائی ہو۔ حراست کے دوران اس کے خلاف مار پیٹ اور جنسی تشدد کے الزامات کی آزادانہ اور غیر جانبداری سے تحقیقات ہونی چاہیے۔‘
اگست میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی ایران کے لیے خصوصی نمائندہ کے طور پر اپنا کام شروع کرنے والی مائی ساتو نے بھی ایکس سوشل نیٹ ورک پر ایک ٹویٹ میں لکھا ’میں اس واقعے اور حکام کے ردعمل پر قریب سے نظر رکھ رہی ہوں۔‘
سوشل میڈیا پر ردعمل
اگرچہ باہم مخالف بیانیے کی موجودگی کی وجہ سے ہمیں اس لڑکی کے اس اقدام کی اصل وجوہات کے بارے میں علم نہیں ہے تاہم بہت سے صارفین دستیاب معلومات کی بنیاد پر اس لڑکی کے بارے میں باتیں کر رہے ہیں۔
متعدد صارفین نے لڑکی کے اقدام کو حجاب کے خلاف احتجاج قرار دیا ہے، جو یونیورسٹی سکیورٹی کے سخت سلوک کے خلاف کیا گیا تھا۔ اسی قسم کے خیال کا اظہار وکیل مریم کیان ارثی نے بھی کیا ہے۔ انھوں نےلکھا ’اس ہیومینٹیز کی طالبہ کی بغاوت حجاب پہننے کے لیے طالبات پر لامحدود اور غیر معقول دباؤ کی نمائندگی کرتی ہے۔‘
مریم کیان ارثی نے کہا ہے کہ وہ اس لڑکی کا دفاع اور نمائندگی کے لیے بلا معاوضہ تیار ہیں۔
سوشل نیٹ ورکس کے وہ صارفین جن کا خیال ہے کہ اس نے حجاب کے نفاذ اور سکیورٹی کی سختی کے خلاف ’احتجاج‘ میں اپنے کپڑے اتارے تھے، انھوں نے لڑکی کے اس اقدام کو ’جرات مندانہ‘ قرار دیا ہے۔
کئی لوگوں کا خیال ہے کہ ریسرچ سائنسز کی اس لڑکی کی تصویر کو دھندلا نہیں کیا جانا چاہیے اور اس کے احتجاج کی طاقت کو ظاہر کیا جانا چاہیے۔
کچھ لوگوں نے دعویٰ کیا ہے کہ اس لڑکی نے یہ صرف اعصابی دباؤ میں کیا اور یہ کوئی شعوری احتجاج نہیں تھا۔
تاہم ایرانی حکومت کے حامیوں اور ’عورت، زندگی، آزادی‘ تحریک کے مخالفین کی ایک بڑی تعداد کا کہنا ہے کہ لڑکی کا یہ قدم ان کے اس دعوے کی تصدیق ہے کہ ’اس تحریک کے مظاہرین برہنہ ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
متعدد صارفین کا کہنا ہے کہ وہ اس لڑکی کی شناخت چاہتے ہیں تاکہ وہ اس کے بارے میں آگاہ رہ سکیں اور سوشل نیٹ ورک پر اس کی حمایت کر سکیں۔ ان کا ماننا ہے کہ اس کی گمنامی خبروں میں اس قسم کے معاملے پر خاموشی کا سبب بنتی ہے، جو نقصان دہ ہے۔