امریکہ میں شہریت کے منتظر ہزاروں پاکستانی اس سوچ میں ڈوبے ہوئے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ یا کملا ہیرس کے صدر بننے سے امریکہ کی ویزا اور امیگریشن پالیسی میں نرمی آئے گی یا یہ مزید سخت ہو جائے گی۔ امریکہ میں ویزا اور امیگریشن پالیسی سے فی الحال پاکستانی ناخوش کیوں ہیں اور مستقبل کے حوالے سے ان کے خدشات اور امیدیں کیا ہیں؟
نیو یارک میں مقیم انوار الحق گذشتہ کئی برسوں سے پاکستان سے برتن، کمبل اور بیڈنگ کا سامان منگوا کر امریکہ میں فروخت کرتے ہیں۔
انوار 27 سال قبل پاکستان کے شہر سیالکوٹ سے امریکہ منتقل ہوئے تھے۔ انھیں پہلے سے امریکہ میں مقیم اُن کی ایک بہن نے سپانسر کیا تھا۔
اُن کے بقول وہ اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے پہلے پہل اکیلے امریکہ آئے اور بعدازاں یہاں سیٹل ہونے کے بعد انھوں نے اپنی اہلیہ اور بچوں کو بھی اپنے پاس بلا لیا تھا۔
انوار کہتے ہیں کہ ’ہم اچھے وقتوں میں یہاں آگئے تھے۔۔۔‘ مگر اس سوچ میں وہ اکیلے نہیں ہیں۔ انوار جیسے لاکھوں پاکستانی شہری اِسی طرح امریکہ آئے اور پھر انھوں نے امریکہ کو ہی اپنا مستقل ٹھکانا بنا لیا۔
آج بھی بہت سے پاکستانی بہتر روزگار کے مواقعوں کی تلاش میں امریکہ جانے کے خواہشمند ہیں۔ جبکہ بہت سے ایسے ہیں جو امریکہ میں موجود تو ہیں مگر اپنے ویزے میں توسیع یا گرین کارڈ ملنے کے منتظر ہیں۔
امریکی صدارتی الیکشن میں اب محض ایک دن باقی ہے۔ ایسے میں امریکہ میں مقیم پاکستانیوں سمیت دوسرے بہت سے ممالک سے تعلق رکھنے والے شہری اس بات سے فکرمند ہیں کہ حکومت میں تبدیلی سے امریکہ کی اُن کے متعلق پالیسی میں کیا تبدیلی آ سکتی ہے۔
امریکہ میں مقیم لاکھوں پاکستانی یہ دیکھنے کے منتظر ہیں کہ آیا ڈونلڈ ٹرمپ یا کملا ہیرس کے صدر بننے سے ویزا اور امیگریشن پالیسی میں کوئی تبدیلی آئے گی۔ بعض یہ جاننا چاہتے ہیں کہ مستقبل میں کیا وہ اپنے رشتہ داروں کو سپانسر کر کے امریکہ بُلا سکیں گے۔
کسی بھی امیدوار کو ووٹ دینے سے پہلے وہ اپنے ان تمام سوالوں کے جوابات کی تلاش میں ہیں۔
سمندر پار پاکستانیوں کی وزارت کے اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ پانچ سالوں میں پاکستان سے تقریبا 33 لاکھ افراد دوسرے ممالک منتقل ہوئے اور ان میں سے امریکہ جانے والوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔
الیکشن کوریج کے دوران ہم نے امریکہ میں کئی پاکستانی نژاد شہریوں سے بات کی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ امریکی صدارتی الیکشن سے اُن کے خدشات اور امیدیں کیا ہیں۔
امریکہ میں ویزا اور امیگریشن پالیسی سے پاکستانی ناخوش کیوں؟
امریکی کمیونٹی سروے کے مطابق اس وقت امریکہ میں تقریباً سات لاکھ پاکستانی نژاد افراد مقیم ہیں۔
امریکہ کے محکمہ خارجہ کی جانب سے جاری رپورٹ کے مطابق دنیا بھر سے امریکہ آ کر یہاں کی شہریت حاصل کرنے والے افراد میں سب سے زیادہ تعداد ان لوگوں کی ہے جنھیں ان کے گھر والوں یا رشتہ داروں نے سپانسر کر کے امریکہ بلایا تھا۔
جنوری 2024 کے دوران امریکی محکمہ خارجہ نے پاکستان کو ’خصوصی تشویش والے ممالک‘ کی فہرست میں شامل کیا تھا۔ اس فہرست میں پاکستان کے علاوہ برما، چین، کیوبا، شمالی کوریا، اریٹیریا، ایران، نکاراگوا، روس، سعودی عرب، تاجکستان اور ترکمانستان شامل ہیں۔ اُس وقت پاکستانی دفتر خارجہ نے اس تاثر کو مسترد کیا تھا۔
اگر آپ کسی بھی ایسے پاکستانی سے بات کریں جو امریکی امیگریشن حاصل کرنا چاہتا ہے یا امریکہ آنا چاہتا ہے تو ان کا اکثر جواب یہی ہوتا ہے کہ ’یہ ایک تھکا دینے والا طویل ترین عمل ہے۔‘
عائشہ گذشتہ سات سالوں سے امریکی ریاست جارجیا میں مقیم ہیں۔ وہ یہاں پڑھنے آئی تھیں اور نوکری ملنے کے بعد مستقل طور پر امریکہ میں ہی رُک گئیں۔
وہ بی بی سی کو بتاتی ہیں کہ ’میں قانونی طور پر نقل مکانی کر کے یہاں آئی ہوں اور یہاں میرا شہریت کا کیس سات سال چلا۔ مگر میں ابھی تک گرین کارڈ حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو پائی ہوں۔‘
عائشہ کے مطابق اِن سات برسوں کے دوران وہ پاکستان بھی نہیں جا سکیں جبکہ انھوں نے اپنے والدین کے لیے ویزے کی درخواست بھی دی جو امریکی حکام کی جانب سے مسترد کر دی گئی۔
وہ کہتی ہیں کہ ’اب تو بس دعا کرتی ہوں کہ میرا گرین کارڈ آ جائے تاکہ میں پاکستان جا کر اپنے والدین سے مل سکوں۔‘
’میں نہیں جانتا امریکہ میں میرا کیا مستقبل ہو گا‘
کملا ہیرس اس وقت امریکہ کی نائب صدر ہیں جبکہ ٹرمپ امریکہ کے سابق صدر رہ چکے ہیں۔ امیگریشن اور دیگر امور کو لے کر یہ دونوں امیدوار حالیہ انتخابی مہم کے دوران اپنی پالیسی واضح کر چکے ہیں۔
مگر بعض لوگوں کا خیال ہے کہ کملا یا ٹرمپ میں سے کوئی بھی اقتدار سنبھالے، اُن کی زندگی پر زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔
ٹرمپ حالیہ انتخابی مہم کے دوران امیگریشن پر سخت موقف کے باعث تنقید کا نشانہ بنے ہیں۔ وہ غیر قانونی طور پر آنے والے تارکین وطن کو امریکی کی معاشی مشکلات کا قصوروار ٹھہراتے ہیں۔
نیو یارک میں مقیم پاکستانی نژاد امریکی شہری عبد اللہ حسین نواز اس صدارتی الیکشن میں ڈیموکریٹ پارٹی کی امیدوار کملا ہیرس کی حمایت کر رہے ہیں کیونکہ اُن کے مطابق ڈیموکریٹس کی امیگریشن پالیسی ’ٹرمپ کے مقابلے آسان اور بہتر ہے۔‘
اُن کا خیال ہے کہ ٹرمپ کے آنے سے ’وہ لوگ جنھوں نے پناہ کے لیے اپلائی کیا ہوا ہے یا پھر اپنا ویزا سٹیٹس تبدیل کرنے کی درخواست دی ہے، اُن کے لیے سب سے زیادہ مشکل ہو گی۔ انھیں نوکری حاصل کرنے میں مسئلہ ہو گا، وہ یہاں آزادی کے ساتھ نہیں رہ سکیں گے اور نہ ہی اپنی فیملی کو امریکہ بُلا سکیں گے۔‘
پاکستان سے کچھ عرصہ قبل امریکہ آ کر پناہ کی درخواست دینے والے ایک پاکستانی شہری نے اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’پاکستان میں میری جان کو خطرہ تھا۔۔۔ اسی وجہ سے میں امریکہ آ گیا۔ یہاں آ کر میری جان تو محفوظ ہے لیکن مجھے اب یہ پریشانی ہے کہ نئی حکومت میں پتا نہیں میرا کیا ہو گا۔ میں نہیں جانتا کہ میرا امریکہ میں کیا مستقبل ہو گا۔‘
بعض پاکستانی نژاد امریکی ووٹر ایسے بھی ہیں جو ٹرمپ کی حمایت کرتے ہیں اور اُن کا خیال ہے کہ ٹرمپ امریکی مفادات کے لیے زیادہ موزوں امیدوار ہیں۔
جیسے محمد یاسین اور ان کے اہلخانہ جو گذشتہ تین دہائیوں سے امریکہ میں رہ رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ٹرمپ اپنی جگہ ٹھیک ہیں۔ زیادہ تر امریکی اس وقت مہنگائی کا شکار ہیں اور معیشت ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔‘
یاسین کہتے ہیں کہ بائیڈن انتظامیہ نے ’غیر قانونی تارکین وطن کو امریکہ میں اچھے خاصے فائدے دے رکھے ہیں۔ ان کا تمام تر بوجھ اسی ٹیکس کے پیسوں سے اٹھایا جاتا ہے جو ہم محنت کر کے کماتے ہیں۔‘
اسی طرح ماجد خان نے ٹرمپ کے دفاع میں کہا کہ وہ ’قانونی طور پر امریکہ آنے والوں کے بالکل خلاف نہیں ہیں۔‘
انھیں لگتا ہے کہ ٹرمپ اقتدار میں آ کر امریکہ کے معاملات ٹھیک کر سکتے ہیں۔ ’ہمارے بچے امریکہ میں پیدا ہوئے اور بڑے ہوئے، مگر اب صورتحال یہ ہے کہ انھیں یہاں نوکریاں نہیں ملتیں۔‘