وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نومبر 2027 تک اس عہدے پر موجود رہیں گے جس سے ’نظام کو تسلسل ملے گا۔‘ جہاں ایک طرف اس اقدام کا خیر مقدم کیا جا رہا ہے وہیں بعض لوگ اسے ہائبرڈ رجیم کے لیے ایک ’سمجھوتہ‘ قرار دے رہے ہیں۔
وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نومبر 2027 تک اس عہدے پر موجود رہیں گے جس سے ’نظام کو تسلسل ملے گا۔‘
بی بی سی اردو سے گفتگو کرتے ہوئے خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ماضی میں فوجی آمروں سمیت کئی آرمی چیفس نے ’خود اپنے آپ کو ایکسٹنشن دی‘ تاہم ’اب ہم نے مسلح افواج کے تینوں بازوؤں کے لیے قانون بنا دیا ہے۔ ہم نے اس میں کوئی تفریق نہیں کی ہے۔‘
خیال رہے کہ پاکستانی پارلیمان کے دونوں ایوانوں قومی اسمبلی اور سینیٹ نے مسلح افواج کے سربراہان کی مدت ملازمت تین سال سے بڑھا کر پانچ سال کرنے کی منظوری دی ہے۔
بری فوج، بحریہ اور فضائیہ کے سربراہان کی مدت ملازمت بڑھانے کے لیے متعلقہ اداروں کے قوانین میں ترامیم کو پہلے ایوان زیریں قومی اسمبلی نے منظور کیا اور پھر فوراً سینیٹ کے اجلاس میں بھی انھیں منظور کر لیا گیا۔
اس دوران دونوں ایوانوں میں اپوزیشن ارکان نے نعرے بازی کی۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں حزب اختلاف کی جماعتوں کی جانب سے مسلسل احتجاج اور ’نو نو‘ کے نعرے لگائے گئے۔ جبکہ سینیٹ کے اجلاس میں خواجہ آصف کی تقریر کے دوران ’شرم کرو، حیا کرو‘ کے نعرے لگے۔
اس بل میں ترمیم کے بعد پاکستان کی بری فوج میں جنرل کی ریٹائرمنٹ کے قواعد کا اطلاق آرمی چیف پر نہیں ہو گا۔ یعنی تعیناتی، دوبارہ تعیناتی یا ایکسٹینشن کی صورت میں آرمی چیف بطور جنرل کام کرتا رہے گا۔
یاد رہے کہ اس سے قبل آرمی ایکٹ کے تحت آرمی چیف سمیت تمام سروسز چیفس کی مدت ملازمت تین سال مقرر تھی اور ایگزیکٹیو کے اختیارات کے تحت آرمی چیف کو تین سال کی ایکسٹینشن دی جاتی رہی تھی۔
آخری بار مدت ملازمت میں توسیع سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو دی گئی تھی اور ان کی ایکسٹیشن کی منظوری کے لیے پارلیمنٹ میں ایک متفقہ قرارداد بھی منظور کی گئی تھی جس کے بعد ایگزیکٹیو نے ان کی مدت ملازمت میں تین سال کی توسیع کر دی تھی۔
آرمی چیف کی مدت ملازمت پانچ سال کرنے کی ضرورت کیوں پڑی؟
وزیر دفاع خواجہ آصف نے بی بی سی کو بتایا کہ ’پاکستان میں ایکسٹنشن کا سلسلہ ایوب خان کے دور میں شروع ہوا۔ اس کے بعد آٹھ، نو آرمی چیفس کو ایکسٹنشن دی گئی۔ ایوب خان، ضیا الحق، مشرف نے خود اپنے آپ کو ایکسٹنشن دی۔۔۔ یہ ساری ایکسٹنشنز افراد کے لیے تھیں۔ اب ہم نے اس حوالے سے قانون واضح کر دیا ہے۔‘
اس سوال پر کہ اس کی ضرورت کیوں پیش آئی، خواجہ آصف نے کہا کہ موجودہ حالات میں تسلسل کی ضرورت ہے اور یہ ضروری ہے کہ جو بھی مسلح افواج کا سربراہ ہو وہ اسمبلی اور دیگر اداروں کی پانچ سالہ مدت کی طرح مناسب وقت کے لیے بہتر دفاعی منصوبہ بندی کر سکے۔
وزیر دفاع نے کہا کہ سروس چیفس کی مدت میں طوالت سے نظام کو استحکام ملے گا اور یہ توقعات کے مطابق چل سکے گا۔ انھوں نے واضح کیا کہ ’آرمی چیف کی تعیناتی کا اختیار اب بھی ہمارے (حکومت کے) پاس ہی ہے۔‘
’ہم نے گنجائش نکالی ہے کہ کوئی کامن گراؤنڈ نکالا جائے۔ ہم نے نظام کو قانونی اور آئینی شکل میں ڈھالا ہے تاکہ قانون کی خلاف ورزی نہ کی جائے۔‘
اسی طرح وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے سروس چیفس کی مدت ملازمت کے تعین کو اچھا اقدام قرار دیتے ہوئے اس کا دفاع کیا ہے۔ ان کے بقول یہ ایکسٹنشن نہیں بلکہ ’مدت ملازمت کا تعین‘ ہے۔
جیو نیوز کے پروگرام ’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘ میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’یہ اچانک نہیں ہوا، اس پر قانونی مشاورت جاری تھی۔ وزیر اعظم اور اتحادی جماعتوں سے مشورہ کیا گیا۔ اس کے بعد ترمیم لائی گئی۔ اس پر تنقید بے جا ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ یہ قانون سازی کسی فرد کے لیے نہیں بلکہ عہدے اور ادارے کے لیے کی گئی ہے۔
اس سے قبل مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنا اللہ نے حکومتی اقدام کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ویسے بھی آرمی چیفس کی مدت چھ سال عام ہے۔ آپ سمجھیں کہ ایک سال کی کمی ہوئی ہے۔‘
دوسری طرف قائد حزب اختلاف عمر ایوب نے کہا کہ سروس چیفس کی مدت ملازمت میں توسیع ’ملک اور مسلح افواج کے لیے اچھی چیز نہیں۔‘
انھوں نے متنبہ کیا کہ یہی قانون سازی کل وزیر اعظم شہباز شریف کے خلاف بھی استعمال ہوسکتی ہے۔
جبکہ سابق وزیر اعظم عمران خان کی جماعت تحریک انصاف کے سربراہ بیرسٹر گوہر خان نے کہا کہ جس طریقے سے قانون سازی کی گئی ’وہ غلط ہے۔‘
تسلسل کے نام پر دفاع مگر ’ہائبرڈ‘ سمجھوتے کا خدشہ
جہاں ایک طرف حکومتی وزرا کھل کر اس نئی قانون سازی کا دفاع کر رہے ہیں تو وہیں سوشل میڈیا پر ملا جلا ردعمل بھی دیکھنے میں آیا ہے۔
صحافی کامران خان نے ججز کی تعداد میں اضافے اور سروس چیفس کی مدت ملازمت پانچ سال مقرر کرنے کو ’تسلسل‘ اور ’استحکام‘ سے تشبیہ دی ہے۔ اسی طرح کاروباری شخصیت فرازعابد لاکھانی نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے کہا کہ ’پاکستان استحکام کے ایک نئے دور میں داخل ہو رہا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ اس تبدیلی سے پالیسی اور گورننس میں تسلسل آئے گا۔
جان اچکزئی نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ’یوں سروس چیفس کو وقت ملے گا تاکہ وہ اپنی اہم پالیسیاں اور منصوبے تکمیل تک پہنچا سکیں۔‘
ایشیا گروپ سے منسلک عزیر یونس نے نئی قانون سازی کی روشنی میں تبصرہ کیا کہ اب تکنیکی اعتبار سے موجودہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر ’2032 تک اپنے عہدے پر رہ سکتے ہیں۔‘
تاہم کئی صارفین نے یہ خدشہ ظاہر کیا کہ ایسی قانون سازی جمہوریت پر اثر انداز ہوسکتی ہے۔
آئینی ماہر ڈاکٹر مریم ایس خان کہتی ہیں کہ ’جبری گمشدگیوں سے سروس چیفس کے لیے طویل مدت ملازمت تک، ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہائبرڈ ریاست اب نیا آئینی سمجھوتہ بن چکی ہے۔‘
سماجی کارکن اسامہ خلجی نے مسلم لیگ ن کی حکومت اور اس کی اتحادی جماعت پیپلز پارٹی پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ اب ’تاحیات سپریم کمانڈر کے پاس آئین میں ترمیم، ججز کی تعیناتی اور وزیر اعظم کے چناؤ کا اختیار ہوگا۔ یہ ترامیم اب بورنگ ہوتی جا رہی ہیں۔‘
ایک صارف نے اس بات پر حیرت ظاہر کی کہ یہ ایسا ملک میں ہو رہا ہے جہاں ’ایک حکومت مشکل سے پانچ سال کی مدت پوری کر پاتی ہے۔‘
صارف باقر سجاد پوچھتے ہیں کہ یہ ذہنیت اب تک کیسے پنپ رہی ہے کہ ’پاکستان کے آرمی چیف کی مدت ملازمت قومی استحکام کے مترادف ہے؟‘
اسی طرح قانونی ماہر صلاح الدین احمد نے طنزیہ انداز میں لکھا کہ ’یہ سویلین بالادستی اور پارلیمانی جمہوریت کے لیے اچھا دن ہے۔۔۔ صوبائی خودمختاری اور چارٹر آف ڈیموکریسی کو یقینی بنایا جاسکے گا۔‘
حیدر عباسی نے کو یہ سن کر افسوس ہوا کہ ’آرمی چیف کی مدت ملازمت کم کر کے پانچ سال کر دی گئی ہے۔‘
بعض صارفین نے وزیر اعظم شہباز شریف اور پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری کو یہ مشورہ دیا کہ ’اچھے بچے بن کر رہیں اور ڈیلیور کریں، ورنہ!‘