آج کل دنیا بھر میں بعض احتجاجی مظاہرین مخصوص ڈیزائن کا بنا ہوا نقاب چہرے پر چڑھائے نظر آتے ہیں۔ یہ نقاب اس شخص سے منسوب ہے جس نے آج سے 419 برس قبل شاہِ برطانیہ جیمز اوّل کو بارود میں اُڑانے کی ناکام کوشش کی تھی۔ اُس شخص کا نام گائے فاکس تھا۔ اپنے وقت کے ایک باغی سے منسوب اس ماسک نے جبر کے خلاف علامت بننے کا چار صدی پر محیط سفر کیسے طے کیا؟
چہرے پر پھیلی مسکراہٹ، سُرخ گال، اُوپر کو تنی ہوئی مونچھیں اور اُلٹا تکون بناتی چھوٹی سی داڑھی۔۔۔
یہ ماسک آج کی دنیا میں ریاست کے انسانیت سوز، آمرانہ اور غیر جمہوری رویوں کے خلاف احتجاج اور شہری آزادیوں، سماجی انصاف اور حقوق کی آواز کی علامت بن چکا ہے۔
اس ماسک کو سنہ 2005 کی فلم ’وی فار وینڈیٹا‘ سے شہرت ملی۔ بعد میں امریکہ اور برطانیہ سمیت عالمی طاقتوں کے خلاف سائبر حملے کرنے والے ہیکر گروپ ’انونیمس‘ نے بھی اسی ماسک کے پیچھے پناہ لی۔
اس نسبت سے یہ ’وی فار وینڈیٹا ماسک‘ اور ’انونیمس ماسک‘ بھی کہلایا جانے لگا۔
21ویں صدی میں پہچان خفیہ رکھنے والا یہ ماسک ماضی کے برطانیہ میں مذہبی منافرت، عدم رواداری اور تشدد کے ایک تاریک دور کو بے نقاب کرتا ہے۔ جسے سمجھنے کے لیے ہم چند صدیاں پیچھے چلتے ہیں۔
ماضی کے اس سفر کے دوران میں تین تاریخی اشخاص کے بارے میں جاننا ضروری ہے:
- رابرٹ کیٹسبی: کیتھولِک مسیحی انگریز اور گن پاؤڈر سازش کے سرغنہ
- گائے فاکس: کیتھولِک مسیحی انگریز۔ بارود کے ماہر ہونے کے سبب سازش کی تکمیل انھی کو کرنا تھی
- شاہ جیمز اوّل: برطانیہ کے پروٹیسٹنٹ مسیحی فرمان روا جو اس سے پہلے سکاٹ لینڈ کے بادشاہ تھے۔
5 نومبر 1605 کے روز شاہ برطانیہ جیمز اوّل، اپنے قتل کی سازش سے بے خبر، نئی پارلیمنٹ کا افتتاح کرنے کے لیے دارالامرا یعنی ہاؤس آف لارڈز آنے والے تھے۔
یہ عمارت وسطی لندن میں قائم اُسی پارلیمنٹ بلڈنگ کا حصہ ہے جس کے ایک جانب دریائے ٹیمز بہتا ہے اور بغل سے ‘بِگ بین‘ گھڑیال ہر گزری ساعت کا پتا دیتا ہے۔
اب اس ماسک کی طرف واپس آتے ہیں جس کا اصل نام ’گائے فاکس ماسک‘ ہے۔ اسے گائے فاکس کے پُتلے یعنی ایفیِجی سے متاثر ہو کر بنایا گیا تھا۔
یہ پُتلا ہر سال پانچ نومبر کو ’گائے فاکس نائٹ‘ یا ’بونفائر نائٹ‘ کا جشن مناتے ہوئے نذرِ آتش کیا جاتا ہے۔
مگر ایسا کیوں؟ یہ اس لیے کہ گائے فاکس شاہِ برطانیہ جمیز اوّل اور حکومتی ارکان کے قتل کے منصوبے کے سب سے زیادہ مشہور کردار ہیں۔
شاہِ برطانیہ کے قتل کی سازش کیوں کی گئی؟
سنہ 1532 میں شاہِ برطانیہ ہنری ہشتم (ہنری دی ایٹتھ) کیتھولِک فرقہ چھوڑ کر پروٹیسنٹ بن گئے اور اسے سرکاری مذہب قرار دے دیا۔
برطانیہ کے لیے اس فیصلے کے نتائج بہت دور رس ثابت ہوئے۔ خدشہ تھا کہ اگر حکمراں پروٹیسٹنٹ ہوتا تو کیتھولک مسیحیوں کی زندگی اجیرن ہو جاتی اور جب کیتھولک اقتدار حاصل کرتے تو پروٹیسٹینٹ کے لیے جینا مشکل ہو جاتا۔
بات ہو رہی تھی گن پاؤڈر سازش اور گائے فاکس ماسک میں تعلق کی۔
سنہ 1603 میں پروٹیسٹنٹ کنگ جیمز اوّل تخت نشین ہوئے تو کیتھولک پیروکاروں کو لگا کہ اُن پر ہونے والے ظلم اور ایذا رسانی کو سرکاری سرپرستی حاصل ہو گئی ہے۔
رابرٹ کیٹسبی نے چند ہم خیال لوگوں سے مل کر بادشاہ سمیت پروٹیسٹنٹ اسٹیبلشمنٹ کے اہم ارکان کے قتل کا منصوبہ بنایا۔
کیٹسبی پہلے ہاؤسز آف پارلیمنٹ کے نیچے سرنگ کھود کر اس میں بارود بھرنا چاہتے تھے۔ پھر انھیں پتا چلا کہ ہاؤس آف لارڈز کے بالکل نیچے ایک تہہ خانہ یا چیمبر کرائے پر دستیاب ہے۔
وہ خود یا اُن کے ساتھی بارود کے استعمال سے واقف نہیں تھے۔ انھیں ایک ایسے قابل اعتماد ساتھی کی تلاش تھی جو بارود کو بروقت آگ لگا کر پوری بلڈنگ کو اُڑا دے۔
انھیں یہ ساتھی گائے فاکس کی صورت میں مل گیا۔
گائے فاکس جو بغاوت کی علامت بنے
گائے فاکس سنہ 1570 میں انگلینڈ کے علاقے یورک میں ایک پروٹیسٹنٹ گھرانے میں پیدا ہوئے۔ وہ آٹھ سال کے تھے کہ والد کی وفات ہو گئی۔ ماں نے ایک کیتھولک سے دوسری شادی کر لی۔ گائے فاکس کیتھولک تعلیمات سے متاثر ہو گئے۔
21 برس کی عمر میں وہ انگلینڈ چھوڑ کر ہسپتانوی کیتھلِک آرمی میں بھرتی ہو گئے اور آٹھ سال تک جاری جنگ کا حصہ رہے۔ اس دوران انھوں نے بارود کے استعمال میں مہارت پائی۔
پانچ نومبر 1605 کو پارلیمنٹ کے افتتاح سے صرف چند گھنٹے پہلے منصوبے کے مطابق گائے فاکس اپنی لالٹین لیے ہاؤس آف لارڈز کے نیچے بنے تہہ خانے یعنی چیمبر میں صبح ہونے کا انتظار کر رہے تھے۔
مگر سازش پکڑی گئی اور وہ رنگے ہاتھوں گرفتار ہو گئے۔
یہ سب کچھ اتنا اچانک تھا کہ گائے فاکس کو سنبھلنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ حالانکہ ان کے چاروں جانب بارود سے بھرے 36 بیرل رکھے ہوئے تھے اور ہاتھ میں دیا سلائی یعنی ماچس کی ڈبیا تھی۔
ہوا یہ کہ سازش میں شریک ایک شخص نے ہاؤس آف لارڈ کے ایک کیتھولک رکن کو گمنام خط کے ذریعے اُس روز پارلیمنٹ سے دور رہنے کا مشورہ دیا۔ اس رکن نے یہ خط بادشاہ کو بھجوا دیا۔ یوں سازش پکڑی گئی۔
گائے فاکس کو بادشاہ کے سامنے پیش کیا گیا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ تہہ خانے میں کیا کرنے گئے تھے تو انھوں نے بڑی جرات سے کہا: ’میں سکاٹِس بادشاہ اور اس کے سکاٹِش امرا کو اُڑا کر واپس سکاٹ لینڈ بھیجنا چاہتا تھا۔‘
سازش کی ناکامی پر انھوں نے افسوس کا اظہار بھی کیا۔
گائے فاکس کو تفتیش کے لیے ٹاور آف لندن بھجوا دیا گیا۔ بادشاہ کا حکم تھا کہ مکمل راز اُگلوانے کے لیے تیسرے درجے کے ٹارچر (یعنی انتہائی تشدد) سے بھی گریز نہ کیا جائے۔
جسم کے چار ٹکڑے کرنے کی سزا
تین روز تک دی جانے والی اذیت کے سامنے گائے فاکس کو زبان کھولنا پڑی۔ 12 نومبر تک اُن کے باقی ساتھی پکڑے گئے یا فرار کی کوشش میں مارے گئے۔
گرفتار کیے گئے تمام افراد بغاوت کے مجرم قرار پائے۔ انھیں پھانسی پر لٹکانے، اس دوران پیٹ چیر کر انتڑیاں نکالنے اور مرنے کے بعد جسم کے چار ٹکڑے کرنے کی سزا سنائی گئی۔
30 اور 31 جنوری 1606 کو اِن سزاؤں پر عمل کیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ گائے فاکس نے مزید اذیت سے بچنے کے لیے تختہ دار سے چھلانگ لگا کر اپنی گردن توڑ ڈالی تھی۔
یوں وہ اذیت سے تو بچ گئے مگر ملک کے مختلف حصوں میں اُن کے جسم کے ٹکڑوں کی نمائش کی گئی تاکہ دیکھنے والے عبرت حاصل کریں۔
اسی سال بادشاہ نے شکرانے کے طور آبزروینس آف نومبر ایکٹ 1605 کا نفاذ کر کے خصوصی چرچ سروس، آتش بازی اور آگ کے الاؤ روشن کر کے جشن منانے کا رواج متعارف کروایا۔
ڈھائی سو سال سے زیادہ عرصے تک اس قانون پر عمل ہوتا رہا۔ اس دوران یہ عوامی ثقافت اور معیشت کا حصہ بن چکا تھا۔
اِس روز کی نسبت سے گائے فاکس کا نقاب پوش پتلا جلانے کا بھی آغاز ہوا۔
گائے فاکس اور ان کے ساتھیوں کو قبر تو نصیب نہیں ہوئی مگر اس قانون نے انھیں عوامی شعور اور یادداشت میں زندہ رکھا۔
گذشتہ صدی کے وسط میں فائر ورکس نائٹ اور گائے فاکس ڈے ایک دوسرے کے مترادف کے طور پر استعمال ہونے لگے۔
چار صدیاں بعد گائے فاکس ماسک بغاوت کی علامت سے ظلم اور جبر کے خلاف احتجاج اور مزاحمت کی علامت بن گیا ہے۔
یہ کہنا مشکل ہے کہ اگر گن پاؤڈر سازش کامیاب ہو جاتی تو آج برطانیہ کا مذہب مختلف ہوتا۔
مگر یہ سچ ہے کہ کبھی کبھی کوئی ایک واقعہ تاریخ کا رُخ موڑنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔