یقینی طور پر یہ امریکہ کی سیاسی تاریخ کی سب سے ڈرامائی داستان ہے۔
یقینی طور پر یہ امریکہ کی سیاسی تاریخ کی سب سے ڈرامائی داستان ہے۔
وائٹ ہاؤس یعنی امریکی صدارت چھوڑنے کے چار سال بعد ڈونلڈ ٹرمپ ایک مرتبہ پھر صدر کا عہدہ سنبھالنے کو تیار ہیں، کیونکہ کروڑوں امریکیوں نے انھیں ووٹ دے کر دوسرا موقع دیا ہے۔
ان کی صدارتی انتخابی مہم کو تاریخی طور پر یاد رکھا جائے گا۔ ڈونلڈ ٹرمپ پر اس دوران دو مرتبہ قاتلانہ حملہ ہوا تاہم وہ محفوظ رہے اور انتخابی عمل سے چند ماہ قبل اُن کے اصل حریف اور موجودہ صدر جو بائیڈن مقابلے سے دستبردار ہو گئے۔
اگرچہ حتمی ووٹوں کی گنتی ابھی جاری ہے، لیکن امریکہ کے صدر کے انتخاب کے لیے اہم سمجھی جانے والی ریاستوں میں ٹرمپ کے حق میں لوگوں کی بڑی تعداد نے ووٹ دیا ہے۔
اپنا حقِ رائے دہی کا استعمال کرنے والے بہت سے لوگوں کی نظر میں معیشت اور امیگریشن اہم ترین مسائل اور موضوعات تھے۔
انھیں ایک دور کی ناکامی اور زوال کے بعد اب شاندار کامیابی ملی ہے۔ انھوں نے 2020 کے انتخابات کے نتائج کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا، جس میں وہ جو بائیڈن سے ہار گئے تھے، اور عہدے پر برقرار رہنے کے لیے انتخابی نتائج کو تبدیل کرنے کی کوشش میں ان کے خلاف آج بھی تحقیقات جاری ہیں۔
انھیں 6 جنوری سنہ 2021 کو یو ایس کیپیٹل ہل پر حملے کے لیے لوگوں کو اکسانے کے الزامات کا بھی سامنا ہے۔ وہ امریکہ کی تاریخ کے ایسے پہلے صدر بھی ہوں گے کہ جنھیں کاروباری ریکارڈ میں ردوبدل کرنے کے جرم میں قصوروار بھی قرار دیا گیا ہے۔
یہ بات شاید کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ وہ تقسیم پیدا کرنے والی شخصیت کے مالک ہیں۔
اپنی انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ نے اشتعال انگیز بیان بازی کا سہارا لیا جس میں مضحکہ خیز جملے اور لطیفے سامنے آئے اور نہ صرف یہ بلکہ اپنے سیاسی حریفوں کے خلاف انتقامی کارروائی کی دھمکیاں بھی اُن کی انتخابی مہم میں شامل رہیں۔
وہ بیانیہ جس نے امریکہ کا دل جیت لیا
جب ٹرمپ کی بات ہوتی ہے تو بہت کم لوگوں کے پاس کوئی درمیانی راستہ ہوتا ہے۔ اس انتخابی مہم کے دوران میں نے جن ووٹروں سے بات کی ان میں سے زیادہ تر کا کہنا تھا کہ ان کی خواہش تھی کہ ٹرمپ ’اپنا منہ بند رکھیں‘۔
اس کے باوجود ان ووٹروں کے لیے سب سے اہم بات ٹرمپ کا وہ سوال تھا جو انھوں نے بار بار مہم کے دوران اٹھایا کہ ’کیا دو سال پہلے کے مقابلے میں آپ کی مالی حالت بہتر ہے؟‘
ڈونلڈ ٹرمپ کو ووٹ دینے والے بہت سے لوگوں نے مجھ سے بار بار اس بات کا اظہار کیا کہ انھیں ایسا لگتا تھا کہ اُن کے گزشتہ دورِ حکومت میں معاشی حالات بہت بہتر تھے اور اب وہ مُشکل سے ہی اپنی ضروریات پوری کر پا رہے ہیں۔
اگرچہ مُلک میں افراطِ زر یا مہنگائی کی وجہ معاشی پالیسی نہیں بلکہ کورونا جیسے بیرونی مسائل رہے تاہم لوگ جو بائیڈن کی حکومت کو ہی ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔
رائے دہندگان میں غیر قانونی تارکینِ وطن سے متعلق بھی گہری تشویش پائی جاتی تھی کہ جن کی شرح میں جو بائیڈن کے دورِ حکومت میں ریکارڈ اضافہ ہوا۔
جن لوگوں سے میری بات ہوئی، اُن کی جانب سے نسل پرستانہ خیالات کا اظہار نہیں کیا گیا اور نہ ہی وہ اس بات پر یقین کرتے تھے کہ تارکین وطن امریکی عوام کے حق پر ڈاکہ مار رہے ہیں۔
لیکن ٹرمپ اور ان کے حامیوں کی جانب سے ایسے ہی خیالات کا پرچار کیا جاتا رہا ہے۔ عام لوگ صرف ملکی سرحدوں کو محفوظ دیکھنا چاہتے ہیں۔
’امریکہ سب سے پہلے‘
’امریکہ سب سے پہلے‘ ٹرمپ کے نعروں میں سے ایک تھا جس نے واقعی اپنا حقِ رائے دہی استعمال کرنے والوں کے دلوں کو متاثر کیا۔
میں نے بائیں اور دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو یوکرین میں جاری جنگ سے متعلق یہ شکایات کرتے ہوئے سُنا کہ جنگ میں جھونکا جانے والا پیسہ امریکہ میں بہتر انداز میں خرچ کیا جا سکتا ہے۔
اس صورتحال میں آخر کار انھوں نے کملا ہیرس کو ووٹ نہیں دیا جنھوں نے جو بائیڈن کے نائب کے طور پر چار سال تک کام کیا۔
عام لوگوں کے خیال میں کملا کے جیت جانے سے حالات ویسے ہی رہتے، لیکن وہ تبدیلی چاہتے تھے۔
یہ شاید اس الیکشن کی ایک عجیب بات ہے کہ تبدیلی کا علمبردار امیدوار چار سال پہلے خود برسراقتدار تھا۔ لیکن اس وقت میں اور آج کے وقت میں بہت کچھ بدل چکا ہے۔
سنہ 2016 میں جب ٹرمپ اقتدار میں آئے تو وہ سیاسی میدان میں نووارد تھے، اور کچھ عرصے تک انھوں نے ایسے تجربہ کار سیاسی مشیروں اور عملے کی مدد حاصل کی جنھوں نے ایک جانب تو ان کو بہت کچھ سکھایا لیکن دوسری جانب انھیں کھل کر کچھ بھی کر گزرنے کا موقع نہیں ملا۔ اس بار لگتا ہے کہ ٹرمپ روایتی طریقے سے کام کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔
ان کے بہت سے سابق مشیروں اور عملے کے اراکین نے انھیں ’جھوٹا‘، ’فاشسٹ‘ اور ’نااہل‘ قرار دیا اور تنبیہ کی کہ اگر ٹرمپ نے وفاداروں کو ہی اپنے ساتھ رکھا، جیسا کہ توقع کی جا رہی ہے، تو انھیں انتہا پسندانہ خیالات پر عمل کرنے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔
صدارت ختم ہو جانے کے بعد ٹرمپ کو بہت سے مقدمات کا سامنا کرنا پڑا جن میں کیپیٹل ہل سے جڑے مقدمات بھی شامل تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ قومی سلامتی امور کی دستاویزات اور ایک پورن سٹار کو دیے جانے والے پیسوں پر بھی انھیں قانونی مشکلات کا سامنا رہا۔
تاہم سپریم کورٹ نے جب فیصلہ سنایا کہ ٹرمپ کو بطور صدر اٹھائے جانے والے تمام اقدامات سے استثنیٰ حاصل ہے، اس کے بعد اب کسی کے لیے بھی انھیں اگلے دور صدارت میں قانونی مشکل سے دوچار کرنا نہایت مشکل ہو گا۔
بطور صدر ٹرمپ محکمہ انصاف کو حکم دے سکتے ہیں کہ ان کے خلاف تمام الزامات پر کارروائی ختم کر دیں تاکہ انھیں سزا کا ڈر نہ رہے۔ ساتھ ہی ساتھ ٹرمپ کے پاس یہ اختیار بھی ہو گا کہ وہ کیپیٹل ہل کے معاملے میں سزایافتہ سینکڑوں افراد کو معافی دے سکتے ہیں۔
امریکی ووٹرز کو امریکہ کی دو مختلف تصاویر پیش کی گئی تھیں۔ ٹرمپ نے لوگوں کو بتایا کہ ان کا ملک ناکام ہو رہا ہے جسے صرف وہی دوبارہ سے عظیم ملک بنا سکتے ہیں۔ دوسری جانب کملا ہیرس نے موقف اپنایا کہ ٹرمپ منتخب ہوئے تو امریکی جمہوریت کو خطرہ لاحق ہو گا۔ ایسا ہو گا یا نہیں، یہ دیکھنا باقی ہے۔ لیکن ٹرمپ کی انتخابی مہم سے لوگوں کے خدشات دور نہیں ہوئے۔
ٹرمپ نے روسی صدر ولادیمیر پوتن اور شمالی کوریا کے کم جونگ ان کی تعریف کی اور کہا کہ وہ ’کسی کو پسند ہو یا نہ ہو، یہ رہنما اپنے کھیل کے عروج پر ہیں۔‘
ٹرمپ نے پریس میں مخالفین کو خاموش کرانے کی بات کی اور الیکشن سے چند دن قبل انھوں نے ایسا تاثر بھی دیا کہ اگر میڈیا کے چند اراکین قتل ہو جائیں تو کوئی بڑی بات نہیں ہو گی۔
ٹرمپ سازشی نظریات اور الیکشن میں فراڈ کے بے بنیاد دعووں کا پرچار مسلسل کرتے رہے ہیں یہاں تک کہ ان کو فتح حاصل ہوئی۔اب یہ دیکھنا ہو گا کہ مہم کے دوران انھوں نے جو کچھ کہا وہ اس پر خود کتنا یقین کرتے ہیں۔ اور یاد رکھیں کہ ٹرمپ کی دوسری صدارت صرف امریکی شہریوں کے لیے ہی اہم نہیں ہے۔
باقی دنیا کو اب معلوم ہو گا کہ ’امریکہ پہلے‘ کی پالیسی کا مطلب کیا ہے اور عالمی سطح پر تجارت پر 20 فیصد تک ٹیرف لگانے کی تجویز سے لے کر یوکرین اور مشرق وسطی کی جنگوں کو ختم کرنے کے دعوے کس حد تک درست ثابت ہوتے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ اپنے پہلے دور صدارت میں اپنے منصوبوں کو عملی جامہ نہیں پہنا سکے تھے۔ اب امریکہ اور دنیا دیکھیں کہ ٹرمپ کیا حاصل کر سکتے ہیں۔