اپنا اُلّو سیدھا کرنا اور ہر شاخ پہ اُلّو بیٹھا ہے، ایسے کئی محاورے ہم روزمرہ کی زبان میں سنتے ہیں۔ عام طور پر یہاں کند ذہن اور بیوقوف کو اُلّو کے ساتھ تشبیہہ دی جاتی ہے لیکن مغربی ممالک میں اسے حکمت و دانش کی علامت سمجھا جاتا ہے۔لاہور کا ایک نوجوان ان محاوروں سے قطع نظر اُلّوؤں سمیت دیگر مقامی پرندوں اور جانوروں کو ریسکیو کرنے میں مصروف ہیں۔فہد ملک گذشتہ طویل عرصے سے پاکستان کے مقامی پرندوں اور جانوروں کو ریسکیو کرنے اور ان سے متعلق آگاہی پھیلانے کا کام کر رہے ہیں۔
انہوں نے گذشتہ روز ہی اپنے دوستوں کی مدد سے سمگلروں کے چنگل سے دو ایسے کم یاب نسل کے اُلّو ریسکو کیے ہیں جو بلوچستان سے سمگل کر کے لاہور لائے گئے تھے۔ وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ کے مطابق یہ اُلّو جادو ٹونے میں استعمال ہوتے ہیں۔
فہد ملک مشن اویرنس فاؤنڈیشن کے بانی ہیں۔ وہ پاکستان بھر میں مقامی لوگوں کے ساتھ سوشل میڈیا اور فون کالز کے ذریعے رابطے میں رہتے ہیں۔ان کے مطابق گذشتہ روز انہیں ان کے ایک دوست کی فون کال موصول ہوئی جو کسی اُلّو سے متعلق بتا رہے تھے۔انہوں نے اُردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم سوشل میڈیا پر مقامی جانوروں اور پرندوں سے متعلق مہم چلاتے رہتے ہیں۔ اندرونِ لاہور کے حامد بھی اسی طرح کا کام کرتے ہیں۔ مجھے حامد نے رابطہ کر کے بتایا کہ انہوں نے دو اُلّو سمگلروں کے چنگل سے آزاد کرائے ہیں۔ ان کے ہاں پہنچنے پر معلوم ہوا کہ یہ دو الگ الگ اور کم یاب نسل کے اُلّو ہیں جن میں سے ایک بنگالی انڈین نسل اور دوسرا یوریشین ایگل الّو تھا۔ یہ دونوں اُلّو پاکستان کے مقامی پرندے مانے جاتے ہیں۔‘فہد ملک کے مطابق انہیں یہ معلوم ہوا کہ یہ اُلّو بلوچستان سے کسی سمگلر نے لاہور بھجوائے تھے۔’بلوچستان سمیت خیبر پختونخوا اور دیگر علاقوں میں کئی ایسے سمگلرز ہیں جن کو ان پرندوں کا علم نہیں ہوتا۔ یوں وہ اونے پونے داموں ان پرندوں کو لاہور میں شوقین افراد کو فروخت کر دیتے ہیں۔‘یہ اُلّو بلوچستان سے سمگلروں نے لاہور کے کسی مقامی شخص کے ہاں بھیجے تھے تاہم خریدار نے بعد میں انکار کیا اور اس کی اطلاع حامد کو ملی جس کے بعد حامد نے فہد سے رابطہ کیا۔فہد ملک کا کہنا تھا کہ ’میرے دوست حامد نے رقم کی ادائیگی کر کے ان اُلّوؤں کو خرید لیا۔ اب ہم ماہرین سے رابطہ کر کے اور ان کی صحت کو جانچنے کے بعد ان کے مستقبل کا فیصلہ کریں گے۔‘
تنویر جنجوعہ کے مطابق ملک بھر کی طرح پنجاب میں بھی کئی غیرسرکاری تنظیمیں اور نوجوان ذاتی حیثیت میں جانوروں اور پرندوں کو ریسکیو کرنے میں مصروف ہیں۔ (فوٹو: فہد ملک)
انہوں نے کہا کہ ان اُلّوؤں کی صحت سے متعلق حتمی رائے آنے کے بعد انہیں رضا کارانہ طور پر فضا میں چھوڑ دیا جائے گا۔
مشن اویرنس فاؤنڈیشن کے بانی نے کہا کہ یہ اُلّو پاکستان کی مقامی نسل کے ہیں جو گھنے جنگلات میں رہنا پسند کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ان کا مسکن گھنے جنگلات کے ساتھ ساتھ پتھریلے علاقے ہوتے ہیں۔ دن کے وقت یہ جھاڑیوں میں یا چٹانوں میں چھپے ہوتے ہیں جبکہ یہ رات کے وقت فضا میں اڑتے ہیں۔فہد ملک نے بتایا کہ ’ان میں سے ایک اُلّو کو انڈین ایگل-اوول کے نام سے جانا جاتا ہے کیوںکہ تقسیم سے قبل انگریز جانوروں اور پرندوں کو علاقے کی نسبت سے نام دیا کرتے تھے۔ اس لیے ان کے ساتھ بھی انڈین یا بنگالی کا سابقہ لگایا گیا ہے۔ اب پاکستان تو الگ ہو گیا ہے لیکن ان کا نام وہی ہے جو انگریزوں نے رکھا تھا۔‘وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ لاہور ڈویژن کے ڈپٹی ڈائریکٹر تنویر جنجوعہ کے مطابق اس قسم کے اُلّوؤں کو عام طور پر جادو کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’شوقین افراد بھی ان اُلّوؤں کو پال سکتے ہیں لیکن عام طور پر جب انہیں سمگل کیا جاتا ہے تو انہیں جادو ٹونے کے لیے استعمال کرنے کا خدشہ ہوتا ہے۔ کچھ لوگ تو ان کا خون بھی جادو کے لیے استعمال کرتے ہیں۔‘دوسری جانب فہد ملک کا مزید کہنا تھا کہ ماحول میں ان اُلّوؤں کی موجودگی فطرت کے موافق نہایت ضروری ہے۔’یہ اُلّو اکثر کوؤں کا نشانہ بھی بن جاتے ہیں لیکن ہمارے ماحول میں ان کی موجودگی کی بہت اہمیت ہے۔ یہ چوہوں کے دشمن مانے جاتے ہیں۔ ہمارے ماحول میں چوہوں کی آبادی کو کنٹرول کرنے میں ان کا بڑا کردار ہے۔ لیکن اکثر دیکھا گیا ہے کہ یہ یا تو پیاس سے مر جاتے ہیں یا سمگلرز انہیں قید کر لیتے ہیں جس کی وجہ سے فطرت کا نظام متاثر ہوجاتا ہے۔‘
یہ اُلّو بلوچستان سے سمگلروں نے لاہور کے کسی مقامی شخص کے ہاں بھیجے تھے۔ (فوٹو: فہد ملک)
تنویر جنجوعہ کے مطابق ’وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ ایسے سمگلرز کی سرکوبی کے لیے کارروائیاں کر رہا ہے۔ ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے ایک طریقۂ کار وضع کیا گیا ہے جس کے تحت آپ جانوروں اور پرندوں کو ایکسپورٹ یا امپورٹ کر سکتے ہیں لیکن جب انہیں سمگل کیا جاتا ہے تو سمگلرز کو پکڑ کر ان کو چالان دیا جاتا ہے۔‘
’ملک بھر کی طرح پنجاب میں بھی کئی غیرسرکاری تنظیمیں اور نوجوان ذاتی حیثیت میں جانوروں اور پرندوں کو ریسکیو کرنے میں مصروف ہیں۔‘انہوں نے کہا کہ ’یہ ہماری خوش نصیبی ہے کہ عام لوگ بھی رضاکارانہ طور پر اس حوالے سے شعور اجاگر کر رہے ہیں۔ یہ لوگ ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ بھی رابطے میں رہتے ہیں اور بسا اوقات ہم ان کے ساتھ تعاون بھی کرتے ہیں تاکہ مقامی پرندوں اور جانوروں کے تحفظ کو یقینی بنایا جاسکے اور عوام کو اس حوالے سے آگاہ کیا جا سکے۔