انڈین ریاست ناگالینڈ کے قبائل کا برطانیہ سے اپنے آباؤ اجداد کی کھوپڑیاں واپس کرنے کا مطالبہ

پچھلے مہینے ایلن کونیَاک اس وقت حیران رہ گئیں جب انھیں معلوم ہوا کہ انڈیا کی شمال مشرقی ریاست ناگالینڈ سے تعلق رکھنے والی 19ویں صدی کی ایک انسانی کھوپڑی برطانیہ میں نیلامی کے لیے پیش کی گئی ہے۔

پچھلے مہینے ایلن کونیَاک اس وقت حیران رہ گئیں جب انھیں معلوم ہوا کہ انڈیا کی شمال مشرقی ریاست ناگالینڈ سے تعلق رکھنے والی 19ویں صدی کی ایک انسانی کھوپڑی برطانیہ میں نیلامی کے لیے پیش کی گئی ہے۔

یہ کھوپڑی جو ناگا قبیلے کے ایک فرد کی تھی، ان ہزاروں اشیا میں شامل تھی جو یورپی نوآبادیاتی منتظمین نے ناگالینڈ سے جمع کی تھیں۔

کونیَاک، جو ناگا فورم فار ریکنسیلیشن (NFR) کی رکن ہیں اور ان انسانی باقیات کو واپس وطن لانے کی کوششیں کر رہی ہیں، کہتی ہیں کہ نیلامی کی خبر نے انھیں بے حد متاثر کیا۔

’یہ دیکھ کر کہ 21ویں صدی میں بھی ہمارے آباؤ اجداد کی انسانی باقیات نیلام کی جا رہی ہیں، واقعی حیران کن تھا۔ یہ عمل انتہائی بے حسیاور گہرے دکھ کا باعث تھا۔‘

برطانیہ کے نوادرات کے مرکز، دی سوان ایٹ ٹیٹسورتھنے اس انسانی کھوپڑی کو اپنی ’کیوریئس کلیکٹر سیل‘ کا حصہ قرار دیتے ہوئے نیلامی کے لیے پیش کیا تھا، جس کی قیمت 3,500سے 4,000 برطانوی پونڈ کے درمیان رکھی گئی تھی۔

یہ کھوپڑی جو ایک بیلجئین کولیکٹر کی ہے۔ اس کو جِوارو قوم کے سکڑے ہوئے انسانی سروں اور مغربی افریقہ کے ایکوئی قبیلے کی کھوپڑیوں کے ساتھ نیلامی کے لیے پیش کیا گیا تھا۔

ناگا ماہرین اور سکالرز نے اس نیلامی کے خلاف احتجاج کیا۔ ناگالینڈ کے وزیر اعلیٰ نے انڈیا کی وزارت خارجہ کو ایک خط لکھ کر اس اقدام کو ’غیر انسانی‘ اور ’ہماری قوم پر جاری نوآبادیاتی تشدد‘ قرار دیا۔

احتجاج کے بعد نیلام گھر نے اس انسانی کھوپڑی کی فروخت منسوخ کر دی لیکن ناگالینڈ کی عوام کے لیے یہ واقعہ ان کے پُرتشدد ماضی کی یادیں تازہ کر گیا اور ان کی آبائی باقیات کو وطن واپس لانے کے مطالبے کو ایک بار پھر تقویت دی۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ان باقیات میں سے کچھ اشیا تجارت یا تحفے کے طور پر دی گئی ہوں گی، لیکن دیگر کو شاید ان کے مالکان کی مرضی کے بغیر لے جایا گیا تھا۔

ناگا ثقافت کے ماہر الوک کمار کننگو کا خیال ہے کہ برطانیہ کے عوامی عجائب گھروں اور نجی ذخائر میں تقریباً 50,000 ناگا اشیا موجود ہیں۔

آکسفورڈ یونیورسٹی کے پِٹ ریورز میوزیمجس کے پاس سب سے بڑا ناگا نوادارات اور قدیم اشیا کا مجموعہ موجود ہے جس میں ریاست سے حاصل کی گئی تقریباً 6,550 اشیا شامل ہیں۔ ان میں 41 انسانی باقیات بھی شامل ہیں۔ اس عجائب گھر کے پاس برٹش انڈیا کی دیگر ریاستوں سے بھی انسانی باقیات موجود ہیں۔

لیکن حالیہ برسوں میں ماہرین کا کہنا ہے کہ انسانی باقیات کو جمع کرنے، فروخت کرنے اور نمائش کے حوالے سے بڑھتی ہوئی تشویش کے باعث بہت سے کلیکٹرز اپنے طریقوں پر نظرِثانی کر رہے ہیں۔

کننگو کا کہنا ہے کہ انسانی باقیات عجائب گھروں کے لیے ’سفید ہاتھی‘ بن چکی ہیں۔

’یہ اب کوئی ایسی شے نہیں رہی جسے اس کا مالک تلف یا اپنی ملکیت میں رکھ سکے۔ یہ نہ تو سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہیں جس سے آمدنی ہو اور نہ ہی اسے ناگا لوگوں کو ’غیر مہذب‘ ظاہر کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ حالیہ وقتوں میں یہ ایک جذباتی اور سیاسی طور پر حساس مسئلہ بن گئی ہیں۔‘

اس وجہ سے عجائب گھر انسانی باقیات کو واپس کرنے کا عمل شروع کر چکے ہیں، جیسے کہ نیوزی لینڈ کے ماؤری قبائل، تائیوان کے مُدان جنگجو، آسٹریلیا کے قدیم باشندے اور ہوائی کے مقامی لوگوں کے آباو اجداد کی باقیات۔

2019 میں، پی آر ایم نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے ایسی 22 اشیا واپس کی ہیں۔

عجائب گھر کے ایک ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ اب یہ تعداد بڑھ کر 35 ہو گئی ہے۔ ’اب تک یہ تمام اشیا آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، امریکہ اور کینیڈا کو واپس کی گئی ہیں۔‘

ایک اخلاقیات پر مبنی جائزے کے تحت، عجائب گھر نے 2020 میں ناگا کھوپڑیوں کو عوامی نمائش سے ہٹا کر اپنی کلیکشن میں منتقل کر دیا۔ اسی وقت ناگا طلبہ فورم (FNR) نے پہلی بار ان کی واپسی کا مطالبہ کیا تھا۔

عجائب گھر کا کہنا ہے کہ ابھی تک انھیں ناگا کے ورثا کی طرف سے باقیات کی واپسی کا باضابطہ دعویٰ موصول نہیں ہوا ہے۔ عجائب گھر کا کہنا ہے کہ انسانی باقیات کی واپسی کا عمل 18 ماہسے لے کر کئی سالوں تک جاری رہ سکتا ہے۔

انسانی باقیات کی واپسی، نوادرات کی واپسی کے مقابلے میں زیادہ پیچیدہ عمل ہے۔ اس کے لیے وسیع تحقیق کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ آیا یہ اشیا اخلاقی طور پر حاصل کی گئی تھیں، ورثا کی شناخت کی جائے اور انسانی باقیات کی نقل و حرکت پر بین الاقوامی ضوابط کو سمجھا جا سکے۔

ناگا فورم نے ماہر بشریات ڈولی کِکون اور آریکوٹونگ لونگکومر کی قیادت میں ’ریکور، ریسٹور اور ڈی کولونائز‘ کے نام سے ایک گروپ تشکیل دیا ہے تاکہ ان باقیات کی واپسی کو آسان بنایا جا سکے۔

لونگکومر کہتے ہیں کہ ’یہ کچھ حد تک جاسوسی کے کام جیسا ہے، ہمیں مختلف معلومات کی تہوں کو چھاننا پڑتا ہے اور اصل نوعیت اور اصل مقام کے بارے میں حقائق جاننے کے لیے بین السطور پڑھنا پڑتا ہے۔‘

لیکن ناگا لوگوں کے لیے یہ عمل محض انتظامی نہیں ہے۔ ہم انسانی باقیات کی بات کر رہے ہیں۔ ’یہ ایک بین الاقوامی اور قانونی عمل ہے، لیکن ہمارے لیے یہ ایک روحانی پہلو بھی رکھتا ہے۔‘

یہ گروپ دیہاتوں میں جا کر ناگا بزرگوں سے ملاقاتیں کر رہا ہے، لیکچرز کا اہتمام کر رہا ہے اور شعور بیدار کرنے کے لیے تعلیمی مواد جیسے کہ کامک کتابیں اور ویڈیوز تقسیم کر رہا ہے۔

وہ ان مسائل پر بھی اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو واپس لائی گئی باقیات کی آخری رسومات سے متعلق ہیں۔ زیادہ تر ناگا اب عیسائیت کے پیروکار ہیں، لیکن ان کے آباو اجداد اینمسٹ تھے اور ان کی پیدائش اور موت کی رسومات مختلف تھیں۔

تحقیق کرنے والے گروپ کو معلوم ہوا کہ یہاں تک کہ ناگا کے بزرگ بھی اس بات سے لاعلم تھے کہ ان کے آباؤ اجداد کی باقیات غیر ملکی سرزمین میں موجود ہیں۔

ماہر بشریات اور آثارِ قدیمہ کے ماہر تیاتوشی جامیر نے بتایا کہ ایک بزرگ نے ان سے کہا کہ اس سے ان کے آباؤ اجداد کی روحیں بے چین ہو سکتی ہیں۔

جامیر نے کہا کہ انھیں بھی اس بات کا علم نہیں تھا کہ غیر ملکی میوزیم میں کھوپڑیاں موجود ہیں جب تک کہ انھوں نے 2000 کی دہائی کے اوائل میں ایک مقامی اخبار میں اس کے بارے میں نہیں پڑھا۔

1832 میں برطانوی حکومت نے ناگا علاقے پر قبضہ کر لیا تھا اور 1873 میں مسافروں کے لیے ’انر لائن پرمٹ‘ کے نام سے ایک خاص اجازت نامہ متعارف کروایا تاکہ اس علاقے تک لوگوں کی رسائی کو اپنے قابو میں رکھا جا سکے۔

مؤرخین کا کہنا ہے کہ نوآبادیاتی دور میں حکام نے بغاوتوں کو کچلنے کے لیے ناگا گاؤں جلائے، جس کے نتیجے میں ان کی اہم ثقافتی علامات، جیسے نقش و نگار، کندہ کاری اور نوادرات، ختم ہو گئیں۔

کونیاک کہتی ہیں کہ انھوں نے معلوم کیا ہے کہ پٹ ریورز میوزیم کی فہرست میں ایک انسانی باقیات ان کے گاؤں اور قبیلے کے فرد کی ہے۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں نے کہا اوہ خدایا یہ تو میرے کسی بزرگ کی باقیات ہیں۔‘

وہ ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کر سکیں کہ باقیات کی واپسی کے بعد آخری رسومات کیسے ادا کی جائیں گی۔

’لیکن ہم انھیں واپس چاہتے ہیں تاکہ ہم اپنے بزرگوں کو کھویا احترام انھیں واپس دلا سکیں۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.