16 دسمبر 1971 کو 93 ہزار پاکستانی فوجیوں نے انڈین فوج کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔ 1971 کی جنگ کے آخری ایام میں پاکستان کے صدر جنرل یحییٰ خان کیا کر رہے تھے۔
دو دسمبر 1971 کی شام کو اس وقت کے پاکستان کے صدر یحییٰ خان کو ڈھاکہ کے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کی طرف سے ایک پیغام موصول ہوا کہ انڈین فوج بالآخر جیسور پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔
یہ 1971 کے جنگ کے باقاعدہ آغاز سے ایک روز پہلے کی بات ہے۔
پیغام دیکھنے کے بعد یحییٰ خان نے اپنے اے ڈی سی ارشد سمیع خان کو حکم دیا کہ وہ فوری طور پر لیفٹیننٹ جنرل حمید اور چیف آف سٹاف گل حسن کو ایوانِ صدر طلب کریں۔
جیسے ہی ان کی ملاقات ختم ہوئی صدر یحییٰ نے اپنے اے ڈی سی کہا کہ وہ ان کی اگلے دن کی تمام مصروفیات منسوخ کر دیں۔
اگلے دن صبح نو بجے جی ایچ کیو میں ایک اجلاس بلایا گیا جس میں یحییٰ خان کے علاوہ پاکستان فوج کے تمام اعلیٰ افسران نے شرکت کی۔
ارشد سمیع خان جو کہ جنرل یحییٰ کے اے ڈی سی تھے اپنی کتاب ’تھری پریذیڈنٹس اینڈ این ایڈ‘ میں لکھتے ہیں کہ جنرل گل حسن نے تازہ ترین پیش رفت سے سب کو آگاہ کرنے کے بعد پرزور تجویز پیش کی کہ ’پاکستان کو فوری جواب دینا چاہیے ورنہ انڈیا پورے مشرقی پاکستان پر حملہ کر دے گا۔ وہ حملہ کرے گا اور بعد میں اپنی فوجیں بھی مغربی سرحد پر لے آئے گا جہاں اس کے فوجیوں کی زیادہ تعداد ہمیں مغلوب کر دے گی۔‘
’گل حسن نے وہاں موجود لوگوں کو یاد دلایا کہ صدر یحییٰ خان نے کھلے عام اعلان کیا تھا کہ اگر پاکستان کی سرزمین پر ایک انچ بھی حملہ کیا گیا تو اس کا مطلب مکمل جنگ ہو گی۔ وہاں موجود ہر شخص نے یہ جانتے ہوئے بھی اس بات کی حمایت کی کہ پاکستان جنگ کا اعلان کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔ خاص طور پر جب جس سر زمین کے لوگوں کے لیے ہم یہ لڑائی کر رہے تھے، وہی ہماری فوج کے خلاف لڑ رہے تھے۔‘
’ایک اچھے کمانڈر کی طرح یحییٰ خان نے اپنے جرنیلوں کی تجویز پر رضامندی ظاہر کی لیکن مجھے ایسا لگا کہ جنرل یحییٰ خان کو کہیں نہ کہیں یہ اندازہ تھا کہ وہ جنگ جیتنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔‘
جب ایک گدھ نے یحییٰ خان کا راستہ روک لیا
اجلاس کے بعد پاکستان فضائیہ کے سربراہ ایئر مارشل رحیم خان جنرل گل حسن کے پاس گئے اور انھیں وضاحت دی کہ کیوں پاکستانی فضائیہ کا فوری طور پر حرکت میں آنا اور انڈین ایئر فورس کے اڈوں پر حملے کرنا ضروری ہے تاکہ انڈیا کے جنگی طیاروں کو اڑنے کا موقع بھی نہ مل سکے۔
میٹنگ کے بعد طے پایا کہ چار بجے اس وقت فوج میں ایک بااثر افسر جنرل عبدالحمید خان خود یحییٰ خان کو دوسری میٹنگ میں شرکت کے لیے لینے جائیں گے۔
مقررہ وقت پر جنرل حمید اپنی ٹویوٹا ملٹری جیپ لے کر یحییٰ خان کے پاس پہنچے۔
ارشد سمیع خان لکھتے ہیں کہ ’ہم جیپ میں سوار ہو گئے۔ جنرل حمید جیپ چلا رہے تھے جب کہ جنرل یحییٰ ان کے ساتھ بیٹھے تھے۔ میں جیپ کے پچھلے حصے میں بیٹھا تھا۔ تب میں نے ایک عجیب منظر دیکھا۔ کہیں سے ایک بہت بڑا گدھ آ کر جیپ کے راستے میں بیٹھ گیا۔ جنرل حمید نے ہارن بجایا لیکن وہ نہیں ہٹا۔
حیران کن طور پر جنرل یحییٰ خود نیچے اترے اور اسے اپنی چھڑی سے بھگانے کی کوشش کی۔ وہ چند قدم آگے چلا اور پھر دوبارہ سڑک کے بیچوں بیچ رک گیا۔ آخر کار پاس ہی موجود ایک مالی نے گدھ کا پیچھا کیا اور اسے اپنے بیلچے سے بھگانے میں کامیاب ہو گیا۔‘
’مین گیٹ پر پہنچ کر یحییٰ خان نے اپنا منھ نیچے کر لیا تاکہ سکیورٹی اہلکار انھیں نہ دیکھ سکیں اور سکیورٹی کی گاڑیوں کا قافلہ ان کا پیچھا نہ کرے۔ ہم سب ایک بڑے گیٹ والی گودام جیسی عمارت میں پہنچے جہاں ایئر مارشل رحیم خان نے ان کا استقبال کیا۔‘
جب یحییٰ خان نے نور جہاں سے فون پر گانا سنانے کی فرمائش کی
پوری میٹنگ کے دوران آسمان پر جنگی طیاروں کی آوازیں سنائی دیتی رہیں۔
تین دسمبر کو ہونے والے حملے میں پاکستان فضائیہ کے 278 جنگی طیاروں میں سے 32 نے حصہ لیا۔ یہ حملے شام 5:09 سے 5:23 کے درمیان کیے گئی۔
حسن عباس اپنی کتاب پاکستانز ڈرفٹ انٹو ایکسٹریمزم (Pakistan's drift into Extremism: Allah, the army and America's war on terror) میں لکھتے ہیں کہ ’جنگ شروع ہونے کے ایک روز بعد جب بریگیڈیئر افضل خان اپنے پرانے دوست بریگیڈیئر معاذ سے ملنے گئے جو فوج میں ایک قابلِ احترام افسر اور جنرل ییحییٰ خان کے دوست کے طور پر جانے جاتے تھے تو بریگیڈیئر معاذ نے بتایا کہ جیسے جنگ کے آغاز کا اعلان ہوا تو وہ فوری طور پر جنرل یحیٰی خان سے ملنے گئے تو انھوں نے جنرل یحیٰی اور جنرل حمید کو مدہوش پایا۔
’یحییٰ خان نے بریگیڈیئر معاذ کو باور کروایا کہ ایک کمانڈر کی حیثیت سے میں نے جنگ کا آغاز کر دیا ہے، اب سب کچھ جرنیلوں پر منحصر ہے۔ اس دوران یحییٰ خان کو جاپان سے گلوکارہ نور جہاں کی کال آئی۔
’یحییٰ خان نے خاصے پرجوش انداز میں بریگیڈیئر معاذ کو بتایا کہ یہ کس کی کال ہے اور پھر نور جہاں سے فون پر گانا گانے کو کہا۔‘
گورنر ملک نے پیغام کا مسودہ اقوام متحدہ کو بھجوایا
جیسے ہی مشرقی پاکستان سے پاکستانی فوج کی شکست کی خبریں آنا شروع ہوئیں وہاں کے گورنر عبدالمالک نے یحییٰ کو سگنلز اور فون کے ذریعے سینکڑوں بار پیغامات بھیجنے شروع کر دیے اور کہا کہ وہ لڑائی بند کر کے مسئلے کا سیاسی حل تلاش کرنے کی کوشش کریں۔
نو اور دس دسمبر کو گورنر ملک اور ایسٹرن کمانڈ کے سربراہ جنرل نیازی کے پیغامات میں تیزی سے اضافہ ہوا اور زیادہ تر پیغامات کا خلاصہ یہ تھا کہ حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں اور اگر فوری طور پر کچھ نہ کیا گیا تو مشرقی پاکستان دو دن کے اندر انڈیا کے قبضے میں چلا جائے گا۔
یحییٰ خان نے انھیں جواب دیا کہ ’آپ وہیں ہیں جہاں یہ سب ہو رہا ہے۔ ہلاکتوں کی تعداد کو کم کرنے کے لیے جو ممکن ہو سکے کریں۔‘
یحییٰ کا پیغام موصول ہونے پر گورنر ملک نے اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل کو ایک پیغام کا مسودہ بھیجا جس میں فوری جنگ بندی اور مشرقی پاکستان کے سیاسی نمائندوں کو اقتدار کی منتقلی کا مطالبہ کیا گیا۔
یحییٰ کی اجازت کے بغیر پیغام اقوام متحدہ کو بھیج دیا گیا
جب اس مسودے کی کاپی جنرل یحییٰ کو ملی تو وہ پریشان ہو گئے۔ انھوں نے فوراً جنرل حمید کو بلوایا۔
ارشد سمیع خان لکھتے ہیں کہ ’یحییٰ نے جنرل حمید سے کہا کہ (جنرل) نیازی کو کال کر کے بتاؤ کہ مناسب قدم اٹھانے کی اجازت دینے کا مطلب یہ نہیں کہ ہمارے سفارتی فیصلوں اور اقدامات میں دخل اندازی کی جائے۔‘
’گورنر ملک کی طرف سے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کو بھیجی گئی تجویز کا سیدھا مطلب ہے کہ اقتدار عوامی لیگ کے حوالے کر دیا جائے۔ آپ خود ان سے بات کریں کیونکہ اگر میں بات کروں گا تو میں اپنے غصے پر قابو نہیں رکھ پاؤں گا۔‘
کچھ دیر بعد جنرل حمید نے جنرلیحییٰ کو مزید بری خبر سنائی کہ صدر کی منظوری حاصل کیے بغیر جنرل فرمان علی نے گورنر کا پیغام ڈھاکہ میں مقیم اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں اور بحالی کے نمائندے کو بھیج دیا تھا۔
یحییٰ نے فوراً سیکرٹری خارجہ سلطان خان کو حکم دیا کہ کسی طرح یہ پیغام واپس لے لیا جائے۔
چین بھی پیچھے ہٹ گیا
ابتدائی طور پر پاکستانی فوج کی طرف سے حاصل کی گئی کامیابی نے یحییٰ کو بہت خوش کر دیا تھا۔ راجستھان میں پاکستانی فوج کی ابتدائی کامیابی اور انڈین جنگی بحری جہاز کھکری کے ڈوبنے کی خبروں سے انھیں یہ محسوس ہوا کہ قسمت بھی ان کے ساتھ ہے۔
ارشد سمیع خان لکھتے ہیں کہ ’آئی ایس آئی کے اس وقت کے سربراہ نے انھیں بتایا کہ دنیا کے مشہور نجومی جین ڈکسن نے پیشن گوئی کی تھی کہ وہ کم از کم دس سال تک حکومت کے سربراہ رہیں گے۔ یہ سن کر یحییٰ بہت خوش ہوئے۔ کون جانتا تھا کہ دس سال تو درکنار وہ چند دن بھی صدر نہیں رہ پائیں گے۔‘
جنرل یحییٰ نے امید ظاہر کی کہ چین اس لڑائی میں کھل کر ان کے ساتھ کھڑا ہو گا لیکن چین نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔
پاکستان کے سابق سیکریٹری خارجہ سلطان احمد اپنی سوانح عمری ’میموریز اینڈ ریفلیکشنز آف پاکستانی ڈپلومیٹ‘ میں لکھتے ہیں کہ ’چینی سفیر نے مجھے بتایا کہ ہم پاکستان کی معاشی اور سیاسی طور پر حمایت جاری رکھیں گے لیکن ہم اس جنگ میں مداخلت نہیں کریں گے اور اگر ہم ایسا کرتے ہیں تو بھی اس کا محدود نتیجہ نکل سکتا ہے اس لیے مشرقی پاکستان میں انڈیا پر دباؤ کو کم کرنے کی اشد ضرورت ہے جب کہ سرحد پر برف پڑ رہی ہے جس کی وجہ سے ایسا کرنے میں کئی ہفتے لگ سکتے ہیں۔‘
ایران بھی اس سب سے پیچھے ہٹ گیا
چار دسمبر کو یحییٰ خان نے پاکستان میں امریکی سفیر جوزف فارلینڈ کو بتایا کہ ان کی فوج کو امریکی فوجی سامان کی اشد ضرورت ہے۔ اگر امریکہ خود یہ امداد نہیں دے سکتا تو کم از کم اسے دوسرے ممالک کو ایسا کرنے سے نہیں روکنا چاہیے۔
امریکہ نے اردن، ایران اور سعودی عرب سے رابطہ کیا اور پاکستان کو اسلحہ بھیجنے کا کہا لیکن ایران نے پھر بھی پاکستان کو اسلحہ نہیں بھجوایا۔
ایران کے شاہ رضا شاہ پہلوی نے امریکی سفیر کو بتایا کہ وہ ایرانی طیارے اور پائلٹ پاکستان بھیج کر سوویت یونین کے ساتھ تنازع کا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔ ممکن ہے وہ اپنے طیارے اردن بھیجیں اور اردن بدلے میں اپنے طیارے پاکستان بھیجے۔ (تہران ایمبیسی فائلز، نکسن پریزیڈینشل میٹیریل باکس - صفحہ 643)
محمد یونس نے اپنی کتاب ’بھٹو اینڈ دی بریک اپ آف پاکستان‘ میں لکھا ہے کہ ’دراصل ایران کا پاکستان کے ساتھ ایک خفیہ معاہدہ تھا کہ اگر انڈیا اور پاکستان کے درمیان جنگ ہوئی تو کراچی کے فضائی دفاع کی ذمہ داری ایران پر ہو گی۔
’ایران کے شاہ کو یہ معاہدہ یاد دلایا گیا تو شاہ نے اس پر عمل درآمد سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ اب یہ معاملہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان ایک دو طرفہ مسئلہ نہیں رہا۔‘
پولینڈ کی تجویز بھی رائیگاں گئی
چھ دسمبر کو انڈیا نے بنگلہ دیش کو باضابطہ طور پر ایک آزاد ملک کے طور پر تسلیم کر لیا اور پاکستان نے انڈیا سے تمام سیاسی تعلقات منقطع کر لیے۔ دریں اثنا انڈین فضائیہ نے مغربی سیکٹر میں اپنے حملے تیز کر دیے۔
سلطان خان نے لکھا ہے کہ ’صدر دفتر کے باغ میں عجلت میں ایک گڑھا کھود کر زیرِ زمین ایک کمرہ بنایا گیا تھا۔ اس کی چھت پر بموں سے بچانے کے لیے ریت کے تھیلے رکھے گئے تھے۔ صدر یحییٰ خان کے ساتھ میں اس زیر زمین کمرے میں کم از کم دو بار اُس وقت گیا کہ جب انڈین لڑاکہ طیاروں نے حملہ کیا اور فضائی حملے کے سائرن بجے۔‘
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں جنگ بندی کی بہت سی تجاویز پیش کی گئیں لیکن سوویت یونین نے ان سب کو ویٹو کر دیا۔
پھر امید کی کرن اس وقت پیدا ہوئی جب پولینڈ نے ایک تجویز پیش کی جس میں فوری جنگ بندی، بین الاقوامی سرحد پر دونوں فوجوں کے انخلا اور مشرقی پاکستان کے تنازع کو سیاسی طریقوں سے حل کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔
وقت گزرتا جا رہا تھا اور مشرقی پاکستان میں شکست صاف نظر آ رہی تھی، چنانچہ یحییٰ نے ذوالفقار علی بھٹو سے رابطہ کیا جو نیویارک میں پاکستانی وفد کی قیادت کر رہے تھے اور پولینڈ کی پیشکش کو فوری طور پر قبول کرنے کا فیصلہ کیا۔
لیکن بھٹو فون پر دستیاب نہیں تھے۔
رچرڈ سیسن اور لیو روز نے اپنی کتاب ’وار اینڈ سکسیشن پاکستان انڈیا اینڈ بنگلہ دیش‘ میں لکھا کہ ’بعد میں جب یحییٰ کسی طرح بھٹو سے فون پر رابطہ کرنے میں کامیاب ہو گئے تو بھٹو نے جواب دیا ’میں آپ کی آواز نہیں سن سکتا۔‘ یحییٰ خان نے کئی بار اپنی بات دہرائی لیکن بھٹو کہتے رہے کہ ’کیا؟۔۔۔ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ مجھے کچھ سنائی نہیں دیتا۔ پھر ٹیلی فون آپریٹر نے روکا اور کہا کہ ’لائن بالکل صاف ہے آپ بولیں۔‘ اس پر بھٹو چلائے ’اپنا منھ بند کرو۔‘
اس سے پہلے کہ پولینڈ کی تجویز پر غور کیا جاتا پاکستانی فوج نے 16 دسمبر کو ہتھیار ڈال دیے۔
رات گئے نکسن کا فون آنا
اس سے تین دن پہلے یحییٰ نے امریکی صدر رچرڈ نکسن کو پیغام بھیجا کہ وہ ان سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ نکسن نے رات کے دو بجے یحییٰ سے رابطہ کیا۔
ارشد سمیع خان لکھتے ہیں کہ ’میں نے صدر کو جگایا۔ نیم غنودگی میں یحییٰ نے نکسن کا فون سُنا۔ کیونکہ ٹیلی فون لائن میں شور تھا اور آواز کٹ کٹ کر آ رہی تھی اسی لیے صدر نے مجھے دوسری فون لائن پر ساتھ رہنے اور پوری گفتگو سننے کو کہا۔ نکسن نے یحییٰ سے کہا کہ وہ پاکستان کی سلامتی کے بارے میں بہت فکر مند ہیں۔‘
’اسی لیے وہ پاکستان کی مدد کے لیے سیونتھ فلیٹ ’انٹرپرائز‘ کو خلیج بنگال میں بھیج رہے ہیں۔ بات چیت ختم ہوتے ہی یحییٰ نے مجھے جنرل حمید کو فون کرنے کو کہا۔ کال ملتے ہی یحییٰ نے تقریباً چیخ کر کہا ’حمید ہم کامیاب ہو گئے، امریکی ہماری مدد کو آ رہے ہیں وہ راستے میں ہیں۔‘
’ہم سب اگلے دو دن تک امریکی بحری بیڑے کا انتظار کرتے رہے۔ ایسا لگتا تھا کہ یہ بہت سست روی سے آگے بڑھ رہا تھا۔ سقوطِ ڈھاکہ کے بعد تک بھی خلیج بنگال میں اس امریکی بحری بیڑے کا کوئی نام و نشان نہیں تھا۔‘
پاکستانی فوج میں رابطے کا فقدان
پوری جنگ کے دوران پاکستانی فوج کے تینوں ونگز کے درمیان کوئی ہم آہنگی دکھائی نہیں دے رہی تھی۔
حالات اس حد تک خراب ہو چُکے تھے کہ نیوی چیف کو بھی پاکستانی حملے یا کارروائی کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں دی گئی۔ انھیں اس حملے سے متعلق خبر ریڈیو سے ملی۔ ادھر انڈیا کی سمندری حدود میں تعینات آبدوزوں کو بھی ریڈیو کے ذریعے جنگ کی خبریں موصول ہوئیں۔
ایسٹرن کمانڈ میں جنرل نیازی کو بھی بی بی سی کی نشریات کی مدد سے جنگ کے آغاز کی اطلاع ملی۔ (کروسڈ سورڈز پاکستان اٹس آرمی اینڈ دی وار - صفحہ 295)
پاکستانی بحریہ کے سربراہ نے ایک انٹرویو میں یہ الزام بھی لگایا کہ جب انڈیا نے پاکستانی بحری جہازوں پر حملہ کیا تو مدد کے لیے بار بار کی جانے والی درخواست کے باوجود انھیں ایئر کور یعنی فضائی مدد فراہم نہیں کی گئی۔
گوہر ایوب خان نے اپنی کتاب ’گلمپس ان ٹو دی کوریڈور آف پاور‘ میں چیف آف جنرل سٹاف جنرل گل حسن کے ساتھ بنگلہ دیش کی جنگ سے قبل ایک فضائی دورے کے دوران اپنی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’جنرل گل نے مجھے بتایا کہ مشرقی پاکستان میں ہمیں صرف ایک معجزہ ہی بچا سکتا ہے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ نے یہ بات چیف کو بتائی ہے؟‘
’گل نے آنکھیں بند کیں اور کہا کہ 'گوہر مجھے تین ماہ سے ملنے کا موقع ہی نہیں ملا‘ میں نے کہا: ’تم مذاق کر رہے ہو۔‘ گل کا جواب تھا ’مجھ پر یقین کرو، مجھے اُن سے ملنے کے لیے بھی ایک قسم کی جنگ لڑنی پڑتی ہے۔‘ میں نے کہا پھر ہماری حفاظت صرف اللہ ہی کر سکتا ہے، ہماری آنکھیں کھلی ہیں اور ہم تباہی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔‘
یحییٰ کا قوم کے نام پیغام
ڈھاکہ میں پاکستانی فوج کے ہتھیار ڈالنے کی خبر سنتے ہی یحییٰ خان نے 7 بج کر 15 منٹ پر ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر قوم سے خطاب کیا۔ اپنے پیغام میں انھوں نے کہا کہ ’یہ ایک عارضی ناکامی ہے ہم مغربی سیکٹر میں لڑائی جاری رکھیں گے۔‘
اپنا پیغام ریکارڈ کرنے سے پہلے انھوں نے اسے اپنے سیکرٹری خارجہ سلطان خان کو تبصرے کے لیے بھیجا تھا۔
سلطان خان نے لکھا کہ ’مشرقی پاکستان میں ہماری فوجی صلاحیت کو جاننے کے باوجود میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ صدر اب بھی چرچل کی طرح چھتوں، ساحلوں اور سڑکوں پر دشمن سے لڑنے کی بات کر رہے ہیں۔
’میری درخواست پر انھوں نے یہ سب کچھ اس پیغام سے نکال دیا لیکن انھوں نے میری یہ تجویز قبول نہیں کی کہ وہ اس پیغام کو نشر ہی نہ کیا جائے۔‘
ارشد سمیع خان لکھتے ہیں کہ 'یہ ہم سب کے لیے ایک انتہائی تکلیف دہ اور افسوسناک موقع تھا۔ ہم اپنے آنسو نہیں روک سکے، میں توہم پرست نہیں ہوں لیکن مجھے تین دسمبر کا وہ منظر یاد آرہا تھا جب صدر کی رہائش گاہ سے نکلتے وقت ایک گدھ نے ہمارا راستہ روک لیا تھا۔
’شاید وہ ہمیں یہ بتانے کی کوشش کر رہا تھا کہ اس جنگ میں جانا فضول ہے اور نتیجہ ہمارے حق میں نہیں ہو گا۔‘